مچھ جیل 1928ء میں بنی۔ یہ تحصیل ’’مچھ‘‘ ضلع بولان میں کوئٹہ شہر سے تقریباً 52 کلومیٹر کے فاصلے پر سبی روڈ پر واقع ہے۔یہ جیل 1106 ایکڑ رقبہ پر بنی ہے۔ اس جیل میں دس بارک ہیں۔ ہر بارک میں 40 قیدیوں کے لیے جگہ مخصوص ہے۔ ہر بارک کے ساتھ چار ملحقہ واش روم اور باہر کھلی جگہ بھی ہے۔ صبح 9 بجے قیدیوں کو بارک سے نکالا جا تا ہے۔یہ عصر کی نماز تک اس کھلی جگہ میں بیٹھتے ہیں۔ مختلف قسم کے کھیل مثلاً کرکٹ، والی بال اور فٹ بال وغیرہ کھیلتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی قیدی انگوٹھیاں، چوڑیاں اور ہار بنانے میں مصروف ہو تے ہیں۔ یہ ہار، انگوٹھیاں اور چوڑیاں مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں۔ جیل کی سب سے بیرونی دیوار بم پروف ہے۔ اس کے بعد اندر والی دیوار بھی پختہ تعمیر کی گئی ہے جس پر بجلی کا تار بھی بچھا یا گیا ہے۔بجلی کے تار کے ساتھ اگر انسانی وجود کا کوئی بھی حصہ مس ہوجائے، تو کرنٹ کے ساتھ ساتھ الارم بھی بجتا ہے جس سے جیل کے عملے کو کسی قیدی کے بھاگنے یا کسی اور ایمر جنسی کا پتا چلتا ہے۔

پہاڑٰی علاقے کے محل وقوع کے حساب سے مچھ جیل کو کالا پانی جیل بھی کہا جاتا ہے۔

مرچی وارڈ

ترمیم

جیل انتظامیہ کے مطابق یہ جیل میں موجود 10 بیرکوں میں سے ایک بیرک ہے جسے بیرک نمبر 9 کہا جاتا ہے۔ یہ بیرک اے، بی کلاس، ڈیتھ سیل اور پھانسی گھاٹ سے مختلف اندھیری کوٹھری نما ہوتی ہے جہاں لڑائی جھگڑے کرنے والے مشتعل قیدیوں کو تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔

مذکورہ بیرک میں قیدی کو پانی ملتا ہے نہ ہی کھانا اور یہ حالات قیدی تب تک جھیلتا ہے جب تک وہ معافی نہ مانگ لے۔

معروف قیدی

ترمیم

سینٹرل جیل مچھ میں بلوچ، پشتون ، سندھی اور کمیونسٹ رہنماؤں و کارکنوں کو رکھا جاتا رہا ہے۔اس جیل میں نواب اکبر خان بگٹی، نواب خیر بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل، ہمارے قومی و انقلابی شاعر میر گُل خان نصیر، صادق عمرانی، معروف قوم پرست صحافی صدیق بلوچ، سوشلسٹوں میں کامریڈ سجاد ظہیر، شہید حمید بلوچ، کامریڈ حمیدہ گھانگھرو ، کامریڈ آصفہ رضوی اور پشتون رہنما خان عبد الصمد خان اچکزئی سمیت متعدد ناپسندیدہ افراد کو رکھا جا چکا ہے۔جبکہ صولت مرزا کو یہاں مئی 2015ء میں پھانسی بھی دی جا چکی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم