مڑھی دا دیوا ( پنجابی : ਮੜ੍ਹੀ ਦਾ ਦੀਵਾ ) بمعنی مزار کا چراغ ، معروف بھارتی پنجابی ادیب اور کہانی نویس گردیال سنگھ کا لکھا ایک پنجابی ناول ہے۔ سنگھ جی کا یہ پہلا ناول تھا جو 1964 میں چھپا۔[1] یہ پہلا پنجابی ناول ہے جس کا روسی زبان میں ترجمہ ہوا اور اس کی پانچ لاکھ کاپیاں سوویت روس میں چھپ کے فروخت ہوئیں۔ اس ناول کو بھارتی ساہت اکادمی نے جدید بھارتی کلاسک کا درجہ دیا اور ہندوستان کی تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ شائع کیا۔

کہانی

ترمیم

مڑھی کا دیوا کی کہانی دلت ذات کے جگسیر نامی شخص کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔ جگسیر کی باپ نے ساری زندگی دھرم سنگھ کے خاندان کے ساتھ نبھائی اور جگسیر بھی ورثے میں ملے اس تعلق سے جڑا رہا۔ دھرم سنگھ کے لیے اپنے بیٹے بھنتے اور جگسیر کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ وہ جگسیر کے باپ کو اپنے باپ کی طرف سے ملا شیشم والا کھیت دینا چاہتا ہے لیکن اعلی اور ادنی مالکی کا رجواڑا شاہی قانون اس کے رستے کی دیوار ہونے کی وجہ سے مالکی انتقال نہ کر سکا اور وقت بدلنے کے ساتھ وہ انسانی اقدار جن سے دھرم سنگھ راہنمائی لیتا تھا نئی لالچی ذہنیت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ اس کی بیوی اور دونوں بیٹے جگسیر سنگھ کے کے ساتھ دھرم سنگھ کے برتاؤ کو گناہ سمجھنے لگے۔ بھگتا جگسیر کے کھیت والا شیشم کا پیڑ کٹوا دیتا ہے اور جگسیر اپنے باپ کے مزار کی چار اینٹیں گھر لا کے رکھ لیتا ہے۔ اس کی ماں کا انتقال ہو جاتا ہے اور وہ خود اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ دھرم سنگھ، بھانی اور رونقی عملی کے سوا کوئی اس کا ہمدرد نہیں۔ یہ تینوں ان انہونیوں کے ہونے کے مکمل نشان بن جاتے ہیں جنہیں دندناتا نیا نظام ایک طرف کنارے دھکیل دیتا ہے۔ رونقی کی بیوی جب اسے اکیلا چھوڑ کر چلی جاتی ہے ' [2] تو ماحول ایک گھمبیر اداسی میں ڈوب جاتا ہے۔

1989 میں اس کہانی پر مڑھی دا دیواکے نام سے ہی ایک پنجابی فلم بھی بنی جس کا پروڈیؤسر سرندر سنگھ تھا۔ اس فلم میں مرکزی کردار راج ببر (بطور جگسیر)، دیپتی نول (بھانی) اور پنکج کپور (رونقی) نے نبھائے تھے۔

حوالہ جات

ترمیم