کراچی میں کورنگی انڈسٹریل ایریا کے پہلو میں واقع مھران ٹاؤن کی اسکیم کو 1974 میں KDA نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر بنایا جو کم و بیش 7،000 پلاٹس پر مشتمل اسکیم ہے۔ اُس وقت سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر اور درپیش ملکی حالات و ضروریات کی وجہ سے طے پایا گیا کہ یہ پلاٹس سمندر پار پاکستانیوں کو بیرون ملک واقع پاکستانی سفارت خانوں کے توسط سے بیچے جائیں اور اس طرح سے شکستہ حال ملک کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ذرمبادلہ حاصل کیا جائے۔ ہمیشہ کی طرح پردیس میں بیٹھے ان جفاکش پاکستانیوں نے وطن کی اس پکار پر لبیک کہا - سمندر پار پاکستانیوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے اندرون وطن یہ پلاٹ غیر ملکی ذرمبادلہ میں مکمل قیمت ادا کرکے خریدے اور یوں اپنے ملک سے اپنی والھانہ وابستگی کا ثبوت دیا۔ اس طرح سے ایک کثیر ذرمبادلہ کی پاکستان منتقلی ممکن ہوئی۔

جب حسب عادت عرصہ دراز تک اس اسکیم میں بنیادی سہولتوں کی تکمیل نہ ہو سکی تو آخر میں حکومت نے اس کو بسبب صنعتی آلودگی ناقابل رہائش قرار دے کر صنعتی پلاٹس میں بدل دیا۔ آج مھران ٹاؤن کراچی میں سرکاری سرپرستی میں لوٹ مار کا ایک منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔ حکومتی سیاسی جماعتوں کے آلہ کار اپنے رہنماؤں کی شہہ پر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف عمل ہیں- ان سیاسی جماعتوں کے زیرِدَست قبضہ گروہ جو اپنے پورے جوبن پر ہیں اور پوری طرح سے سرکاری و غیر سرکاری زمینوں کو ہتھیانے کی پالیسی پر کاربند عمل ہیں۔ اور اس وقت صحیح معنوں میں اندھیر نگری چوپٹ راج کی عملی تصویر نظر آ رہی ہے۔ کراچی شہر میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ بھی درحقیقت لوٹ مار میں ملوث حکومتی سیاسی جماعتوں کے کارندوں کی باہم چھینا جھپٹی کا ہی شاخسانہ ہے۔

باوجود 35 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے ،مھران ٹاؤن میں آج تک بنیادی ضروریات بجلی پانی گیس وغیرہ مہیا نہیں کی گئیں۔ مزید برآں حکمران سیاسی عناصر کی آلہ کار لینڈ مافیا پوری طرح سے مھران ٹاؤن کو اپنے پنجے میں جکڑے پر مُصر ہے۔ مھران ٹاؤن میں لینڈ مافیا کے روایتی طریقہ کار کے مطابق گھوسٹ گوٹھ بسایا جا رہا ہے اور شہر کے اطراف و اکناف سے لاکر لوگوں کو اسلحہ کے زور پر رکھا جا رہا ہے۔ ان ناجائز بسائے جانے والے غریب لوگوں کی حیثیت کٹھ پتلی کی سی ہے جنھیں یہ لینڈ مافیا اور اس کی پشت پر عمل کار نادیدہ خرطوسی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے بعد اٹھاکر کسی نئے مقام اور اگلے شکار کی جکہ پر پہنچاتی ہیں اور یوں یہ فرعونی پنجہ ایک کے بعد ایک کرکے معصوم لوگوں کی جمع پونجی ہڑپ کرتا جا رہا ہے۔

یہی حال اس وقت پردیس میں خون پسینے سے کمائی کرنے والے ان پاکستانیوں کا ہے جنھوں نے بیرون ملک ساری زندگی اپنی خون پسینے کی کمائی سے جو پلاٹ خریدے وہ آج شہری و صوبائی حکومت کے سرکردہ سیاسی عناصر سرعام ہڑپ کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ وطن سے دور رات دن محنت مشقت کرنے والے بے بسی سے اپنی زندگی بھر کی کمائی لٹتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔ بااثر قوتیں اپنے غنڈوں اور انتظامی اداروں کے ذریعے اصل مالکان کو بے دخل کرکے وہاں جعلی گوٹھ بسا رہے ہیں۔ اصل مالکان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اور تو اور اس ملک میں عدل و انصاف کا آخری سھارا عدلیہ بھی اس عفریت کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔

روٹی کپڑا اور مکان پیپلزپارٹی کا عوام سے بنیادی وعدہ تھا اور اب بھی عوام سے یہی وعدہ ہے لیکن یہاں تو مہران ٹاؤن کے مالکان کو ان کی اپنی زمین سے محروم کیا جا رہا ہے۔ صوبائی و شہری حکومتی جماعتوں کے وزراء اور علاقے کی پولیس و نتظامیہ قبضہ مافیا کی مکمل پشت پناہی کر رہی ہے۔ قبضہ مافیا کی ہوس کے نتیجے میں یہاں کئی قتل ہو چکے ہیں۔ مورخہ 26 جنوری 2010 کو مہران ٹاؤن میں قبضہ کی ہوس کے نتیجے میں 2 آدمی قتل کردیے گئے۔ حکومتی وزراء اور مشیروں کے گماشتے دن دھاڑے جدید خود کار اسلحہ کے زور پر سرعام دندناتے پھر رہے ہیں اور اصل حقیقی مالکان تمام کاغذات و قانونی تقاضے پورے ہونے کے باوجود بے بسی کی تصویر بننے پر مجبور ہیں۔

ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ مھران ٹاؤن اسکیم جو حکومت پاکستان اور خود ذوالفقار علی بھٹو نے بحثیت وزیر اعظم شروع کروائی اور لوگوں سے ان پلاٹس کے عوض KDA نے مکمل رقوم و واجبات وصول کیے آج اسی پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں یہاں سیاسی بندر بانٹ کے ذریعے قبضہ کیا جا رہا ہے اور اسے شہری و صوبائی حکومتی عناصر کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایک طرف تو حکومت سمندر پار پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کر رہی ہے تو دوسری جانب سرعام اپنے سیاسی مقصد کے تحت اسے ہڑپ کرنے پر تُلی دکھائی دیتی ہے۔

یہ کیسا قانون وانصاف کا تماشا ہے کہ وڈیروں، جاگیرداروں اور وزراء کے لوٹ مار کے پلاٹ و اثاثے تو بالکل محفوظ ہیں اور وہاں کوئی پرندہ پَرنھیں مارسکتا اور دوسری طرف بیرون ملک دن رات سخت محنت مشقت کرنے والوں کی جمع پونجی مال مفت کی طرح نگلی جا رہی ہے۔ اور تو اور حکومتی عناصر ان آلہ کاروں کی لوٹ مار پر چپ سادھے ہوئے ہیں اور اپنی ذمہ داری و فرائض سے دانستاً بے خبر ہوکر ہونقے بنے بیٹھے ہیں۔