میاں محمد برخوردار
شرقپور شریف کے قدیم بزرگوں اور اجلہ اولیاء اللہمیں سے ہیں۔ آپ کی پیدائش 1136 ہجری بطابق 1724 عیسوی میں ہوئی۔ آباو اجداد کا تعلق گجرات کے قریب ایک گاؤں سے تھا۔ گھر میں غربت ہی غربت تھی۔ والدین چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا محنت مزدوری کرکے ان کا ہاتھ بٹائے مگر برخوادار اسیے کاموں کے لیے پیدا نہیں ہوئے تھے وہ تو فقیرانہ زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ آخر وہ ایک دن گھر سے نکل گئے اور فقیروں کے اس قافلے سے مل گئے جو شرقپور شریف کے طرف آرہا تھا۔ یہیں شرقپور شریف میں ان کی ملاقات حضرت میاں ہرنی شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی پھر انھیں کے ہو کے رہ گئے۔ انھیں کی خدمت اور سیوا کرتے رہے۔ انھیں سے قرآن پاک پڑھا۔
حضرت میاں ہرنی شاہ قادری نوشاہی سلسلہ کے بزرگ تھے۔ حضرت میاں محمد برخودار اس مسلک میں ان کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور مرشد کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عبادت و ریاضت کرنے لگے۔ آپ شب زندہ دار تھے اور درودوظائف میں دن کا اکثر حصہ گزارا کرتے تھے۔ مرشد کا ان کی ادا پسند آگئ آپ نے خلافت سے نوازا۔ اب مرشد چاہتے تھے کہ وہ اس سلسلے کی اشاعت کریں مگر مرید مرشد کے آستانے سے دور نہیں جانا چاہتے تھے۔ میاں محمد برخودار کی عمر اس وقت 40 سال کی تھی جب مرشید حضرت ہرنی شاہ کا وصال ہو گیا۔ مرشد کے فراق میں آپ ان کی قبر سے لپٹ لپٹ کررویا کرتے تھے۔ پھر ایک رات مرشد کا غیبی اشارہ پا کر چلے گئے۔ مگر زیادہ دور نہیں۔ شرقپور کے شمالی جانب ٹیلی فون ایکسینچ کے قریب ٹنڈاں والی مشہور بوہٹر ہے یہ انھی کے ہاتھ کی لگائی ہوئی ہے۔ اور اس وقت لگائی تھی جب آپ نے اس جگہ خانقاہ بنائی تھی۔ ایک کھوئی بھی لگائی جس کا پانی بڑا ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ ادھر سے گزرنے والے لوگ اس پانی سے مستفید ہوتے تھے۔ بلکہ بعض لوگوں کا اعتقاد تھا کہ اس کھوئی کا پانی بہت سے بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ لوگ دور دور سے آکر اس سے پانی کی بوتلیں بھر کے لے جاتے تھے۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ جاری رہا۔ اب نہیں۔
آپ محفل سماع کا اہتمام ہر مہینے کیا کرتے تھے۔ اور یوں جنگل میں منگل بن جاتا۔ پھر اس محفل میں شمولیت کرنے والوں کو اچھے اخلاق و عادات کی اپنانے کی تلقین فرمایا کرتے۔
میاں محمد برخودار کا وصال 1210 ہجری بطابق تقریبا 1796 عیسوی میں ہوا۔ اس وقت ان کے مرشد حضرت میاں ہرنی شاہ کے وصال کو 34 سال گذر چکے تھے۔ چونکہ مرشد کے وصال کے وقت ان کی عمر 40 سال کی تھی۔ لہذا انھوں نے تقریبا 74 سال کی عمر میں وفات پائی۔
ایک مدت تک ان آپ کی قبر مبارک اور مزار کچا رہا۔ جس پر ان کے ہاتھ کا لگایا ہوا بڑھ کا درخت سایہ فگن رہتا۔ سائیں محمد علی مزار اور قبر کو پختہ بنوادیا ہے۔ دربار کے اردگرد کی وقف زمین جو رقبے میں تقریبا 3 ایکٹر ہے وہاں پھول ہی پھول لگے ہوئے ہیں۔ جو مختلف رنگوں اور مختلف اقسام کے ہیں۔ اور حضرت میاں محمد برخودار کے ماحول کو رنگین اور معطر بنا رہے ہیں۔
میاں محمد برخودار کا میلہ 24 ہارڑ کو ہر سال ہوتا۔ بہت پہلے کبڈی، قوالی اور مجرا ہوا کرتا تھا۔ مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ میلے والے دن چند چھوٹی چھوٹی دوکانیں لگتی ہیں۔ قرآن خوانی اور نعت خوانی کے بعد ختم شریف ہوتا ہے۔ اور لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ قوالی کی محفل سائیں محمد علی کے گھر کے سامنے چوک شیرربانی میں ہوتی ہے۔ شائقین محفل سماع کی رونق کو خوب دوبالا کرتے ہیں اور روپوں کی بارش کرتے ہیں۔ [1]