میر بجار خان جتوئی
فاتح ہندوستان میر بجار خان جتوئی
Meer Bijar Khan Jatoi
تعارف جتوئی قبیلہ
پیدائش۔
میر بجار خان Meer Bijar Khan Jatoiبن میر جاتن خان بن میر جلال خان 1455میں مکران میں پیدا ہوا۔
رند اور لاشار کی جنگ بندی۔
1479 میں رند اور لاشار قبیلے میں جنگ چھڑ گئی جو 30 سال تک جاری رہی۔ متعدد بار جرگے بلائے گئے مگر کوئی قبیلہ بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا دونوں قبائل اپنی اپنی بات پر بضد تھے۔ اس وقت کے سپہ سالار میر بجار خان نے تمام قبائل سے فیصلہ کرنے کی اجازت طلب کی۔ اور یہ فیصلہ سنایا کہ آج کے بعد اگر کوئی بلوچ قبیلہ دوسرے بلوچ قبیلے سے لڑائی کرے گا تو خواہ وہ حق پر ہو گا تمام بلوچ قبائل متحد ہو کر حملہ آور قبیلے کو جنگ کی صورت میں سزا دیں گے۔ اور دیگر کسی جنگ میں بھی ان کی مدد نہیں کریں گے۔ اس طرح میر بجار خان کے فیصلے کے مطابق رند اور لاشار قبیلے کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو صلح کرتے یا پھر تمام قبائل سے جنگ لڑتے۔ یوں دونوں قبائل شیر شکر ہو گئے اور آج تک اس فیصلے کی پاسداری پر قانون کی طرح عمل در آمد کرتے ہیں۔
امیر آف قلات۔
1509 میں اس تاریخی فیصلے کے بعد جو 30 سال تک کوئی بھی معتبر اور طاقت ور شخص نہ کر سکا اس فیصلے کو میر بجار خان نے ایک گھڑی میں کر دیا۔ تمام بلوچ قبائل اور دیگر قبائل نے متفقہ طور پر امیر آف قلات مقرر کر دیا۔ اس کے علاوہ دیگر سلطنتوں میں حائل اندرونی مسائل اور خلفشار کے فیصلے بلاوجہ جنگوجدل کے فیصلے بھی میر بجار خان کے پاس لائے جاتے جن کے سالہا سال سے الجھے معاملات کو میر بجار خان چند لمحوں میں سلجھا دیا کرتا۔
میر بجار خان کی جاگیریں۔
میر بجار خان بلوچوں کے بڑے قبیلے جتوئی کا سردار اور میر جلال خان کی اولاد میں سے ہے۔ تاریخ میں یوں ذکر ہے کہ میر جلال خان کی بیٹی جس کا نام جتو تھا اس کی اولاد جتوئی کے نام سے جانی جاتی ہے جبکہ بعض جگہ پر میر جلال خان کے کے بیٹے میر جان خان کی اولاد جتوئی کہلاتی ہے۔ میر جلال خان نے اپنی زندگی میں ہی اپنی ساری جائداد میر جاتن خان یا جتو کے نام کر دی تھی۔اس لیے یہ قبیلہ بلوچ قبائل میں جائداد کے لحاظ سے سب سے بڑا زمیندار قبیلہ ہے۔بمطابق ریوںنیو ریکارڈ
کچھ تاریخ کی کتابوں میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ چونکہ جتوئی قبیلے کے جنگجو مختلف جنگوں میں اول دستے کے طور پر لڑائی کرتے تھے اس لیے فتح کے بعد حاصل ہونے والی میراث اور مال غنیمت پر سب سے زیادہ حصہ جتوئی قبیلے کے حصہ میں آتا تھا جس کی وجہ سے جن ممالک میں بلوچوں نے جنگیں لڑیں ہیں وہاں جتوئی قبیلے کی جائیدادیں آج بھی موجود ہیں۔
عظیم جنگجو۔۔
بلوچ قبائل کی تاریخ میں قابل ذکر شخصیت میر بجار خان کے نام سے جانی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں ان گنت جنگیں لڑیں اور ھمیشہ فتح سے ہم کنار رھا۔رند اور لاشار قبیلے کی لڑائی میں بلوچ قبائل کا بے پناہ نقصان ہوا اور بلوچ قبائل اندرونی طور پر کمزور ہوتے گئے مگر میر جلال خان نے بلوچوں کو متحد کر کے ان کی طاقت اور صلاحیت میں نئی روح پھونک دی
امیر قلات
جس کی بدولت تمام قبائل نے متفقہ طور پر میر جلال خان کو اپنا سردار اور بلوچوں کی سلطنت قلات کا امیر مقرر کر دیا تب سے لے کر آج تک جہاں جہاں بلوچ قبائل آباد ہیں وہاں کی سرداری جتوئی قبیلے کے پاس ہے۔ دوسری بات یہ کہ جہاں بھی جتوئی قبیلے کے چند گھر ہوں گے وہ کسی اور بلوچ قبیلے کے زیر سایہ نہیں ہوں گے۔
میر بجار خان کا نام تاریخ کی کچھ کتابوں میں میر باگڑ خان بھی آیا ہے جو جو انگریزی زبان سے اردو کے ترجمہ میں غلطی کی بنا پر لکھا گیا ہے
اقوام بلوچستان
مغلیہ سلطنت پر قبضہ۔ اور ھمایوں کی تخت نشںہ
مغلیہ سلطنت کے شکست خوردہ شہنشاہ ھمایوں نے جب ھندوستان کو فتح کرنے کے لیے بلوچ قبائل سے مدد مانگی تو بلوچ قبائل نے میر بجار خان سے مدد کا کہا۔ ھمایوں نے میر بجار خان کو اپنی سلطنت واپس لینے کے لیے جنگ میں مدد مانگی۔میر بجار خان نے شکست خوردہ حاکم کے ساتھ مل کر جنگ کرنا اپنی توہین سمجھ کر انکار کر دیا اور خود جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ شیر شاہ سوری کے جانشینوں نے میر بجار خان کو آدھی سلطنت دینے کی پیش کش کی مگرمیر بجار خان نے کہا کہ میں ھمایوں کو زبان دے چکا ہوں اس سلطنت پر صرف اس کا حق ہے۔ فاتح ھندوستان میر بجار خان نے اپنے چالیس ہزار جنگجو کے ساتھ 1514میں ھندوستان پر حملہ کر دیا اور پہلے ہی حملے میں ھندوستان کو فتح کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ ابھی میر بجار خان کے لشکر کے کچھ دستے گھر سے ہی نہیں نکلے تھے کہ پہلے ہی ھندوستان فتح ھو گیا۔ میر بجار خان نے سلطنت نصیرالدین محمد ھمایوں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کے بیٹے اور جلال الدین محمد اکبر کے والد کو واپس دلائی جس پر بادشاہ ھمایوں دہلی پنجاب نے ساھیوال چیچہ وطنی جھنگ ملتان سے لے کر خیرپور سندھ تک کی ملکیت میر بجارخان کو عطا کر دی۔ میر بجار خان نے ساہی وال اور ملتان کا علاقہ اپنے پاس رکھا باقی علاقے میر چاکر خان کی مشاورت سے باقی بلوچ قبیلوں اور ان علاقے کے رہائشیوں میں تقسیم کر دیا۔ میر بجار خان نے اپنے بڑے بیٹے میر نوتک خان کو ملتان میں آباد کیا۔اور میر نوتک خان(تمام جتوئی قبائل کا سردار) نے اپنے بڑے بیٹے میر لوہار خان (تمام جتوئی قبائل کا سردار اور اس کی اولاد لوہارات کہلاتی ہے۔ بلوچی قاعدے کے مطابق صرف لوہارات ہی اصل سردار فیملی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر جتوئی ایک مخصوص علاقے یا حدود تک کے سردار کہلاتے ہیں ) کو سردار مقرر کر دیا۔ تقریبا"200 سال قبل انگریزوں نے طاقت ور قبیلے جتوئی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا اور آس پاس کی جاگیرتحفتا" دینے کی پیش کش کی مگر اس وقت کے جتوئی سردار اور جنگجو میر بلوچ خان(لوہارات) نے انگریزوں کی پیش کش کو ٹھکرا دیا جس پر انگریزوں نے عوام کی فلاح و بہبود۔ امن اور علاقے کی ترقی کے لیے اپنے نظام کو بڑھانے کے لیے تعاون کی درخواست جس کو قبول کرتے ھوئے میر بلوچ خان نے اپنے داماد کوڑے خان کو علاقے کا سردار مقرر کر دیا اور اپنے وارث اور قبیلے کے سردار میر رحیم خان کی اکلوتے فرزند اور میر ہیبت خان لوہارات مرحوم فاتح ملتان(لنگاہوں سے ملتان کو فتح کر کے شاہ پور یا شاہ گڑھ میں نیا شہر آباد کیا۔ قلعے کے ساتھ منسلک جائداد اسی قبیلے کے اعزاز میں دے دی گئی اور قلعہ کا دروازہ لوہاری گیٹ کا نام بھی ان کے نام منسوب کیا گیا) کے پوتے سپہ سالار میر مزار خان لوہارات جتوئی کو شاہ پور ملتان اور ڈیرہ غازیخان راجن پور اور خانپورسمیت تمام بلوچوں کے علاقوں اور دریائی گذرگاہوں کا انتظام اور جنگی حکمت عملی(سپہ سالاری) کی باگ ڈور کے ساتھ تمام قبائل کی سرداری سنبھال دی۔ اور انگریزوں نے پورے علاقے کی عملداری(مجسٹریٹی) اور قانون کی مہر کوڑے خان کے سپرد کر دی اور مظفر گڑھ کو ضلع کا درجہ بھی دیدیا گیا۔ ضلع کا انتظام و انصرام سنبھالنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے میر بلوچ خان نے لیہ اور مظفر گڑھ میں ایک لاکھ کنال رقبہ ضلع مظفر گڑھ کی سرکاری ملکیت میں منتقل کر دی اور ملتان ڈیرہ غازیخان راجن پور اور رحیم یار خان کی کثیر جائداد ان اضلاع کے انتظام چلانے کے لیے بھی وقف کر دی جو آج پنجاب حکومت کی ملکیت ہے۔ (انگریزوں کی تاریخ میں بلوچ اقوام کی تاریخ میں درج ہے کہ جتوئی قبیلہ سخاوت اور نیک نامی میں سب سے آگے ہے)۔ سردار کوڑے خان نے اپنی ذاتی آمدنی سے سرکاری عمارتیں سرائے سڑکیں اور مساجد تعمیر کرائیں اور دریا چناب پر لوھے کا پل تعمیر کرایا اور میر بلوچ خان کے معاہدے مطابق انگریزوں سے کاروبار اور آمدو رفت کے لیے ریلوے لائینیں سڑکیں اور آبپاشی کے لیے نہری نظام کا کام مکمل کرایا۔ میر مزار خان کی اولاد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے تین بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے کا نام میر عبداللّٰہ خان جتوئی تھا۔ ان کی جاگیر ساہی وال لیہ ڈیرہ غازیخان راجن پور رحیم یار خان اور ملتان میں تھی۔ میر مزار خان کا مقبرہ بستی جتوئی کے جنوب میں خستہ حالت میں اب بھی موجود ہے۔ تزک بابری اقوام بلوچستان اور تاریخ بلوچ قبائل میں ذکر ہے کہ عظیم مسلم شہنشاہ سلطان محمود غزنوی بھی اسی گورستان میں مدفن ہیں۔ سردار کوڑا خان لا ولد تھا اور اس کی منکوحات کے علاوہ اس کا حقیقی وارث کوئی نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی جائداد جتوئی قبیلے کے کسی اور فرد کو نہیں مل سکی۔ تمام بلوچ قبائل آج بھی جتوئی قبیلے کی سخاوت پر فخر کرتے ہیں۔
شجرہ نشب اولاد میر بجار خان۔
میر عبداللّٰہ خان ( قلعہ عبداللّٰہ خان اسی نسبت سے ہے) بن میر مزار خان (لوہارات) بن میر رحیم خان (میر رحیم خان کی شہادت کے بعد میر بلوچ خان اس کی شہادت کے بعد جانشین مقرر ہوا۔اس وقت میر مزار خان کی عمر سات سال تھی۔ تمنداری کے ملتان میں دریائی گذرگاہ شیر شاہ کے مقام پر جرگہ کی سرپرستی کی نشست پر میر بلوچ خان بیٹھ گیا کیونکہ یہ علاقہ میر بلوچ خان کی جاگیر گھا جبکہ ملتان کی حدود میں آتا تھا اور ملتان کا والی رنجیت سنگھ کا بیٹا تھا۔ جرگہ کی سرپرستی کی نشست پرجھگڑا ہو گیا اور جنگ کی صورت اختیار کر گیا۔رنجیت سنگھ بدقماش اور ہزاروں مسلمانوں کا قاتل تھا اور نواب مظفر خان درانی کو اہل و عیال سمیت قتل کروادیا تھا۔ جس کا بدلہ لینے کے لیے میر بلوچ خان نے اپنے لشکر کے ساتھ حملہ کر دیا اور رنجیت سنگھ کے بیٹے ابھیجیت سنگھ کو قتل کر کے گائے کی اوجھ میں اس کی لاش کو لپیٹ کر خونی برج پر اور اس کی فوج کی لاشوں کو ملتان کے تمام چوکوں پر نشان عبرت کے لیے لٹکا دیا ان کی لاشوں کو کئی دنوں تک پرندے اور کتے کھاتے رہے) بن میر ہیبت خان(ملتان کا شہنشاہ لنگاہ امور سر انجام دینے میں ناکام ہو گیا اور میر ہیبت خان کے پڑاؤ پر حملہ آور ہو گیا جس کی پاداش میر ہیبت خان نے اس کی سلطنت چھین لی۔ اس لیے اس کو فاتح ملتان کہا جاتا ہے۔) بن میر مزار خان بن میر بلوچ خان بن میر سید خان بن میر بجار خان (بحار خان) بن میر لوہار خان (جتوئی قبیلے میں صرف میر لوہار خان کی اولاد لوہارات کہلاتی ہے۔اصل سرداری اسی خاندان میں ہے) بن میر نوتک خان(دریائے سندھ پر موجود گہری اور لمبی بندرگاہ میر بجار خان کی اصل ریہائش گاہ کا علاقہ میروانہ اس کی میراث تھی) بن میر بجار خان (امیر قلات)بن میر جاتن خان بن میر جلال خان(جد امجد جتوئی۔رند۔لاشار۔کورائی اور ہوت)