ناامیدی (انگریزی: Hopelessness / Despair) امید کی عین ضد ہے۔ اس سے مراد لوگوں میں مستقبل سے متعلق منفی جذبات کا یقین کیا جانا ہے، چاہے یہ جذبات کھل کر اظہار کیے جائیں یا انھیں صرف محسوس کیا جائے۔ امیدی صرف منفی نتیجوں سے ہی متعلق نہیں ہوتی ہے، اس میں کسی کام یا عمل کا بے نتیجہ ہونا شامل ہے۔

ناامیدی سے متعلق ممکنہ وجوہ

ترمیم

یقینی طور پر سخت اور دشوار حالات، بے روزگاری، مہنگائی ، گھریلو نا چاقی اور بے مروتی جیسے عوامل ایسا ماحول قائم کردیتے ہیں کہ انسان کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید موت واحد اور آسان ذریعہ ہے جس سے سب غموں سے پیچھا چھڑانا ممکن ہو سکتا ہے۔[1] اگر چیکہ خود کشی ایک انتہا پسندانہ اقدام ہے، جس تک ہر کوئی نہیں جاتا، مگر ان وجوہ کی وجہ سے لوگوں میں اپنے مسقبل کے بارے میں کوئی مثبت اور رجائیت پسندانہ رویہ باقی نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں کوئی شخص پُر جوش انداز میں اپنے حالات بدلنے کی کوشش بھی نہیں کرتا ہے۔

پورٹس ماؤتھ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ناامیدی ایک حقیقی طبی عارضہ ہے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زندگی میں کسی الم ناک واقعے کے محض 3 دن بعد کسی شخص کا انتقال اس صورت میں ہو سکتا ہے، جب وہ ماننے لگے کہ وہ اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ محققین کے مطابق جب کسی شخص کے اندر زندگی کی خواہش ختم ہوجاتی ہے تو دماغ کے اس حصے میں سرگرمیاں متاثر ہونے لگتی ہیں۔[2]

ناامیدی کئی بار لوگوں کو اپنی ناگفتہ بہ حرکتوں اور گناہوں کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔ لوگ ارتکاب گناہ کے بعد خدا کے دربار سے خود کو ایک راندہ اور مردود سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے کئی گناہ گار اور سیاہ کار عام زندگی میں بھی غیر رجائیت پسندانہ زندگی گزارتے ہیں۔ وہ بہت سی باتوں میں سے خود کو روکتے ہیں۔ حالانکہ دنیا کے سببھی مذاہب نے توبہ اور خدا کی جانب سے معافی پر زور دیا ہے۔ مذاہب عالم کا مقصد گناہ کا احساس، توبہ اور نئی خوش نما زندگی کی جانب قدم بڑھانا ہے۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم