ناقابل فہم رسم الخط
اب تک جتنے تصویری رسم الخط دریافت ہو چکے ہیں ان میں زیادہ تر خط ان تہذیبوں کے تھے جنھوں نے اپنے بعد کوئی ایسی تحریر یا قوم چھوڑی تھی جن سے اُن کے رسم الخط کا پتہ چل گیا، لیکن دنیا میں ایسی تہذیبیں بھی گذری ہیں جن کی تحریروں کو سمجھنا اب تک ماہرین کے لیے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔
وادئ سندھ
ترمیموادئ سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوئے ہے۔ اب تک اس تہذیب کے پاکستان اور بھارت میں ہڑپہ اور موئن جودڑو سمیت چار سو پچاس سے زائد آثار دریافت ہو چکے ہیں۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراوڑی آبادکاروں سے قبل یہاں 7000 ق م میں مختلف قبائل آباد تھے۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ دراوڑی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشت کاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ اس علاقے کے رہنے والے لوگوں نے پڑھنا اور لکھنا بھی دیگر تہذیبوں کے لوگوں کی نسبت پہلے سے شروع کر دیا تھا اور یہاں کے رہنے والے اس دور کے ترقی یافتہ لوگ تھے جو منظم اور منصوبہ بندی کے تحت اپنی زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ جنھوں نے پانچ ہزار سال قبل وادئ سندھ کو علمی، فنی اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہو گئے۔ موہن جوداڑو اور دیگر شہروں کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے اس تہذیب کو نیست و نابود کر دیا۔
وادئ سندھ کے رہنے والوں کے متعلق یقین سے اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا جب تک ان کی تحریروں کا تجزیہ نہ ہو جائے اور انھیں پڑھ نہ لیا جائے۔ وادئ سندھ سے تانبے اور پتھر کی مہریں، فن سنگ تراشی سے مختلف جانوروں کی تصویریں اور انجانے حروف سے کندہ شدہ مہریں مل چکی ہیں مگر دنیا بھر سے مختلف ممالک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین آئے مگر ان انجانے حروف کو سمجھ نہ سکے اور پڑھنے سے قاصر رہے، ان حروف کو سمجھ لینا اب ان ماہرین کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ ماہرین کا علم صرف ان تفصیلات تک محدود ہے جو ان کتبوں، مہروں اور تختیوں کے نقوش و اشکال سے ظاہر ہوتی ہیں۔
رونگو رونگو
ترمیمآسٹریلیا اور امریکا کے درمیان ایک جزیرہ ایسٹر آئی لینڈ ہے، جس پر ایک نامعلوم تہذیب بستی تھی، اس کی باقیات چٹانوں اور تختیوں پر کندہ تحریریں اور چھ ہزار نفوس کی صورت میں اس جزیرہ پر آباد تھیں۔ ماہرین نے اس جزیرہ کی تحریر کو ”رونگو رونگو“ کا نام دیا، حیرت کی بات ہے کہ رونگو رونگو، وادئ سندھ کے رسم الخط سے ملتا جلتا ہے۔ اس تحریروں کو پڑھ کر اس نامعلوم تہذیب کے متعلق پتا لگایا جا سکتا تھا لیکن ماہرین اس تحریر کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ہسپانیوں کے اس جزیرہ پر حملہ کے نتیجہ میں یہاں چند افراد ہی زندہ بچ سکے اور جتنے پڑھے لکھے تھے سب مارے گئے تھے۔
مایا Mayan ایک قدیم میسو امیریکن تہذیب ہے جو شمال وسطی امریکا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس علاقے میں آج کل میکسیکو، ہنڈارس، بیلیز اور گوئٹے مالا کی ریاستیں موجود ہیں۔ ماہرین 600ق م کو ان کے عروج کا نقطہ آغاز بتاتے ہیں جو 900ء تک جاری رہا۔ اس دوران انھوں نے بڑے علاقوں میں شہری تعمیرات کی۔ اسی دور میں انھوں نے یادگاری تحریریں چھوڑیں اور اسی دور میں انھوں نے اپنی تہذیب اور تمدن کو باقاعدہ ریکارڈ کیا۔ مایا تہذیب میسو امیریکن کی دیگر اقوام سے یوں ممتاز تھی کہ انھوں نے بہت پہلے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا اپنا طرز تحریر تھا۔ اس کے علاوہ ریاضی میں بھی ان کی ترقی حیرت انگیز تھی نہ صرف یہ کہ انھوں نے نمبروں کو لکھنا سیکھ لیا تھا بلکہ یہ صفر کے استعمال سے بھی واقف تھے۔ فلکیات، طبیعیات، جراحت اور ذراعت میں ان کی ترقی حیران کن تھی۔ ان کی تہذیبی اور ثقافتی برتری نے اردگرد کی دیگراقوام کو بھی متاثر کیا، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا حتی کہ ہسپانوی نوآبادکار ان علاقوں میں پہنچی اور مایا تہذیب کو بزور طاقت زوال پزیر ہونے پر مجبور کیا گیا۔ مایا اقوام کے صحائف ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلائے گئے، ان کی تعمیرات کو نقصان پہنچایا گیا اور ان کی زبان اور مذہبی رسومات کو شیطانی قرار دے دیا گیا۔ مایا تہذیب زوال پزیر ہوئی مگر مایا قوم کی اولادیں آج بھی میسو امریکن علاقوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سارے لوگ ابھی بھی مایا مذہب کی بہت سی رسومات پر عمل کرتے ہیں مگر مایا کے پیچیدہ رسم الخط کو وہ بھول چکے ہیں۔
فسطوس ڈسک
ترمیم1908ء میں یونان کے جزیرہ کریٹ میں فسطوس Phaistos کے مقام سے پتھر کی کئی ڈسک برآمد ہوئیں جن پر بنے نشانات کا ماہرین کوئی نظامِ تحریر وضع نہ کرسکے اور نہ ہی ان کے مفہوم کا کچھ اندازہ ہو سکا۔ اس رسم الخط کی گتھی آج تک نہیں کھلی۔
حوالہ جات
ترمیمانگریزی تلفظ: /O ua '/}}