ناول کے اجزائے ترکیبی
ناول' وہ نثری قصہ ہے جس میں ہماری زندگی کی تصویر ہوبہو پیش کی گئی ہو۔ ولادت سے موت تک انسان کو جو معاملات پیش آتے ہیں، جس طرح وہ حالات کو یا حالات اسے تبدیل کر دیتے ہیں وہ سب ناول کا موضوع ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ ناول ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں زندگی کے سارے روپ دیکھے جا سکتے ہیں۔ لفظ "ناول" اطالوی زبان کا لفظ "ناویلا" سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں نیا، عجیب یا انوکھا کے ہیں۔ کلارا ریوز کے مطابق:
"ناول اس زمانے کی زندگی اور معاشرت کی سچی تصویر ہے جس زمانے میں وہ لکھا جائے"۔
ایچ جی ویلز کے مطابق: "اچھے ناول کی پہچان حقیقی زندگی کی پیشکش ہے"[1] ۱۸۲۰ء کے آس پاس ڈپٹی نذیر احمد نے اردو کا اوّلین ناول "مراۃالعروس" لکھا۔
ناول کے اجزائے ترکیبی
ترمیمناول کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں یعنی وہ کیا چیز یں ہیں جن کا کسی ناول میں پایا جانا ضروری ہے۔ فن کے نقطۂ نظر سے جن چیزوں کا ناول میں پایا جانا ضروری ہے وہ یہ ہیں۔ قصہ، پلاٹ، کردارنگاری، مکالمہ نگاری، منظر کشی اور نقطۂ نظر۔ اب ان اجزا کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
قصہ
ترمیمقصہ وہ بنیادی شے ہے جس کے بغیر کوئی ناول وجود میں نہیں آ سکتا۔ کوئی واقعہ ،کوئی حادثہ،کوئی قصہ فن کار کو قلم اُٹھا نے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایک ضروری بات اور۔ پڑھنے والے کو یہ قصہ بالکل سچا لگنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ قصہ جتنا جاندار ہوگا قاری کی دلچسپی اس میں اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اب یہ فن کار کی ذمہ داری کہ وہ اس دلچسپی کو برقرار رکھے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کہانی اس طرح آگے بڑھے کہ پڑھنے والا یہ جاننے کے لیے بے تاب رہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ گویا کہانی پن برقرار رہے۔
پلاٹ
ترمیمپلاٹ قصے کو ترتیب دینے کا نام ہے۔ ایک کامیاب فن کار واقعات کو اس طرح ترتیب دیتا ہے جیسے موتی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ ان واقعات میں ایسا منطقی تسلسل ہونا چاہیے کہ ایک کے بعد دوسرا واقعہ بالکل فطری معلوم ہو۔ واقعات ایک دوسرے سے پوری طرح پیوست ہوں تو پلاٹ مربوط یا گٹھا ہوا کہلائے گا۔ اور ایسا نہ ہو تو پلاٹ ڈھیلا ڈھیلا کہلائے گا جو ایک خامی ہے۔"امراؤجان ادا" کا پلاٹ گٹھا ہوا اور کسا ہوا ہے جب کہ " فسانہ آزاد " کا پلاٹ ڈھیلا ڈھالا ہے۔ ناول میں ایک قصہ ہو تو پلاٹ اکہرا یا سادہ کہلائے گا۔ ایک سے زیادہ ہوں تو مرکب جیسا کہ " امراؤ جان ادا" میں ہے۔ کچھ دنوں بحث چلی کہ پلاٹ کا ہونا ضروری ہے بھی یا نہیں۔ ہماری زبان کا ناول ”شریف زادہ“ بغیر پلاٹ کے واحد ناول ہے۔ لیکن اصلیت یہ ہے کہ پلاٹ کے بغیر کامیاب ناول کا تصور ممکن نہیں۔
مختلف مصنفین کی کتب کے پلاٹ، مرکزی خیال یا تھیم ایک جیسے یا ملتے جلتے ہو سکتے ہیں اور ایک جیسے پلاٹ پر اگر مختلف مصنفین اپنی اپنی کہانیاں بنا کر اپنے تخلیق کردہ کرداروں، منظر نگاری وغیرہ کو شامل کر کے ناول لکھتے ہیں تو وہ ان کی اپنی محنت ہے اور وہ ناول ان کے طبع زاد ناولوں میں شمار ہوتے ہیں، عالمی ادب میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔
کردار نگاری
ترمیمکردار نگاری ناول کا اہم جزو ہے۔ ناول میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان کے مرکز کچھ جاندار ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ انسان ہی ہوں۔ حیوانوں سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ افراد قصہ کردار کہلاتے ہیں۔ یہ جتنے حقیقی یعنی اصل زندگی کے قریب ہوں گے ناول اتنا ہی کامیاب ہو گا۔ کردار دو خانوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ایک پیچیدہ ( راؤنڈ) دوسرے سپاٹ (فلیٹ) ۔۔ انسان حالات کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ جن کرداروں میں ارتقا ہو تا ہے یعنی جو کردار حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں وہ راؤنڈ کہلاتے ہیں۔ جیسے مرزا ہادی رسوا کے امراؤجان ادا اور سلطان مرزا۔ اسی طرح کے کردار جیتے جاگتے کردار کہلاتے ہیں اور ادب کی دنیا میں امر ہو جاتے ہیں۔ جو کردار ارتقا سے محروم رہ جاتے ہیں پورے ناول میں ایک ہی سے رہتے ہیں وہ سپاٹ کہلاتے ہیں۔ نذیر احمد کے "مرزا ظاہر دار بیگ" اور سرشارکے "خوجی" اس کی مثال ہیں۔ یہ دلچسپ ہو سکتے ہیں مگر سچ مچ کے انسانوں سے ملتے جلتے نہیں ہو سکتے۔
مکالمہ نگاری
ترمیممکالمہ نگاری پر بھی ناول کی کامیابی اور ناکامی کا بڑی حد تک دارومدار ہوتا ہے۔ ناول کے کردار آپس میں جو بات چیت کرتے ہیں وہ مکالمہ کہلاتی ہے۔ اسی بات چیت کے ذریعے ہم ان کے دلوں کا حال جان سکتے ہیں اور انھیں کے سہارے قصہ آگے بڑھتا ہے۔ مکالمے کے سلسلے میں دو باتیں ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ مکالمہ غیر ضروری طور پر طویل نہ ہو کہ قاری انھیں پڑھنے میں اکتا جائے۔ دوسری بات اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ وہ یہ کہ مکالمہ جس کردار کی زبان سے ادا ہو رہا ہے اس کے حسبِ حال ہو۔
منظر کشی
ترمیممنظر کشی سے ناول کی دلکشی اور تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ منظر کشی کامیاب ہو تو جھوٹھا قصہ بھی سچ لگنے لگتا ہے۔" امراؤجان ادا" میں مرزا رسوا نے خانم کے کوٹھے کا نقشہ ایسی کامیابی کے ساتھ کھینچا ہے کہ پورا ماحول ہمارے پیش نظر ہوجاتا ہے۔ عرس ،میلے،نواب سلطان کی کوٹھی کا ذکر ہے تو ایسا کار گر کہ لگتا ہے کہ ہم خود وہاں جا پہنچے ہیں۔ پریم چند کو بھی منظر نگاری میں بڑی مہارت حاصِل ہے۔ شرر اور طبیب کے ناولوں میں یہ کمزوری نمایاں ہے۔
نقطۂ نظر
ترمیمنقطۂ نظر جسم میں خون کی طرح فن کار کے قلم سے نکلی ہوئی ایک ایک سطر میں جاری و ساری ہوتا ہے۔ ہر انسان اور خاص طور پر فن کار کائنات اور اس کی ہر شے کو اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جب وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو گویا اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور اپنا نقطۂ نظر واضح کرتا ہے۔ غرض یہ کہ ہر تخلیق کے پیچھے کوئی نقطۂ نظر کار فرما ہوتا ہے۔ اور اصنف اسی کی خاطر تخلیق کا کرب جھیلتا ہے۔ مولوی نذیر احمد نے " ابن الوقت" یہ واضح کر نے کے لیے لکھا کہ بے سوچے سمجھے نقالی انسان کو ذلیل و خوار کر دیتی ہے۔ ان کا ہر ناول اصلاحی نقطۂ نظر کا حامِل ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ، مصنف ڈاکٹر سُنبل نگار"