ندیم کشش ایک پاکستانی خواجہ سرا حقوق کارکن، سیاست دان اور ریڈیو شو کی میزبان ہیں۔[1] وہ، 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات میں انتخابات میں حصہ لینے والے چار خواجہ سراؤں میں شامل تھیں۔[2][3]

ندیم کشش
ندیم کشش
معلومات شخصیت
قومیت پاکستان
پیشہ حقوق کارکن، سیاست دان، خواجہ سرا سماجی کارکن
کارہائے نمایاں ریڈیو شو ایف ایم 99 کی میزبان، 2018ء کے انتخابات میں شمولیت

ذاتی زندگی

ترمیم

ندیم کشش کو سولہ سال کی عمر میں، زنانہ رویے کی وجہ سے، ان کے کنبہ نے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا اور انھیں ملتان میں، اپنے گھر سے باہر نکال دیا۔ اس کے بعد کشش گروؤں کے ایک گھر میں رہنے لگیں، جہاں عام طور پر پاکستان میں خواجہ سراؤں افراد کو رہنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ گرو؛ گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور گھر کے مکینوں کو کھانا اور رہائش فراہم کرتا/کرتی ہے۔۔ تاہم، کشش نے تب گرو کا گھر چھوڑ دیا اور اس سے تعلقات منقطع کر دیے ، جب اس نے کشش کو جسم فروشی پہ مجبور کیا۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس میں نا چاہتے ہوئے بھی خواجہ سرا افراد کو دھکیلا جاتا ہے۔ [4]

کشش اسلام آباد، پاکستان میں رہتی ہیں۔ گرو سے رہائی کے، بعد کشش بطور میک اپ آرٹسٹ اسلام آباد میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں شامل ہوئیں۔ وہاں سے انھوں نے غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنا شروع کیا جو خواجہ سرا برادری کی مدد کرتی ہیں۔[5]

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم

2006ء میں، کشش نے میک اپ آرٹسٹ کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ اس کے بعد وہ ریڈیو شو کی میزبان کے طور پر ایف ایم -99 میں شامل ہوگئیں جہاں انھوں نے پاکستان میں خواجہ سرا برادری کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔[6] انھوں نے ایک کارکن کی حیثیت سے بھی کام شروع کیا اور اپنی ہی تنظیم "شی میل ایسوسی ایشن برائے بنیادی حقوق" (سفر) کا آغاز کیا۔ وہ این جی او کی صدر ہیں۔[7][8][9] 2018ء میں، جب کشش انتخابی مہموں کے لیے کھڑی ہوئیں تب انھوں نے سیاست میں شمولیت اختیار کی۔[10]

سماجی کارکن

ترمیم

کشش نے گھر گھر مہم چلائی اور اس کا مقصد یہ تشہیر کرنا تھا کہ وہ اسلام آباد کے لوگوں خصوصاً اپنی برادری کے لیے بہتر زندگی بنوائیں گی۔ انھوں نے کہا: "میری لڑائی پسماندہ لوگوں کے لیے ہے، جن خواتین کو حقوق سے انکار کیا گیا ہے، وہ جو جنسی کارکنوں، اسٹریٹ چلڈرن اور اقلیتوں کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ عصمت دری اور قتل کیا جاتا ہے اور عدالتوں تک رسائی تک سے انکار کیا جاتا ہے۔ " کشش کا مقصد خواجہ سرا برادری کی زندگیوں کو بہتر بنانا اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ انھوں نے کہا: "خواجہ سرا افراد کو غربت، بے روزگاری، تعلیمی مواقع کی کمی اور محفوظ رہائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاست صرف ٹرانس شہریوں کو پہچاننے لگی ہے لیکن ہم معاشرے کے حاشیے پر رہتے ہیں۔"

انھوں نے اسلام آباد میں ایک خواجہ سرا پناہ گاہ بھی بنائی تھی، جس میں خواجہ سرا جماعت کے بہت سارے افراد رہائش پزیر ہیں۔[11]

کشش، خواجہ سرا برادری میں گرو کلچر کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔ انھوں نے کہا ، "ہم، خواجہ سراؤں کو بچپن میں گرووں کے حوالے کرنے کے کلچر کو ختم کرنا چاہیے۔ وہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں اور انھیں سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ "[12]

کشش ایک مسجد کے تعمیراتی منصوبے کا بھی حصہ تھیں، جو اسلام آباد کی کچی آبادیوں میں رہائش پزیر خواجہ سرا برادری کے لیے جاری ہے۔[13]

الیکشن 2018ء

ترمیم

2018ء میں، حکومت پاکستان نے ایک تاریخی بل (خواجہ سرا افراد ( تحفظ حقوق) ایکٹ ۔ 2018ء) پاس کیا جس کے تحت خواجہ سرا افراد کو تمام سرکاری دستاویزات میں اپنی صنف کا تعین کرنے، شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیور لائسنس حاصل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ خواجہ سرا افراد ووٹ ڈال سکیں گے اور ملازمت کے حصول کے لیے ان سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔[14][15][16] [17] اس قانون کی وجہ سے صنفی معیار کا خاتمہ ہوا اور ندیم کشش، دیگر چار ٹرانس جینڈر کارکنان کے ہمراہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی پہلی خواجہ سرا بن گئیں۔[18][19] حکومت کے ذریعہ دوسرے خواج سرا حریفوں کے ساتھ کشش کو انتخابی فیس سے معاوضہ دیا گیا۔ کشش اسلام آباد میں این اے 53 کے لیے پی ٹی آئی کے شاہد خاقان عباسی اور عمران خان کے مقابلہ میں کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے کل 22 ووٹ حاصل کیے۔[20] [21][22][23][24] مہم کے دوران، کشش نے آئندہ نسلوں کے لیے ٹرانسجینڈر حقوق اور پانی کے بچاؤ کی وکالت کی۔[25]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Transgender community of Pakistan launches political party seeking equal rights"۔ gulfnews.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 
  2. "Pakistan Elections 2018: Transgender acid attack survivor, Nayyab Ali, running for Parliament, cast her vote"۔ www.timesnownews.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 
  3. "Pakistan rights group issues warning ahead of polls"۔ AP NEWS۔ 2018-07-16۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 
  4. "Pakistan's Transgender Candidates Step Onto Political Stage"۔ Time۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  5. "Transgender campaigns for acceptance in Pakistan election"۔ www.efe.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  6. "Pakistan's first transgender radio host"۔ Pakistan Saga (بزبان انگریزی)۔ 2018-12-10۔ 09 ستمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 
  7. Shiza Malik (2018-06-25)۔ "'Only with participation of transgender people will democracy be complete,' says Nadeem Kashish"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  8. "Transgenders feel left out of Covid-19 aid conversation"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2020-04-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 
  9. "Call for engaging 'Gurus' to develop transgender database | Pakistan Today"۔ www.pakistantoday.com.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 
  10. "Transgender participation in Pakistan's elections - Rights - Women talk online - DW.COM"۔ Women Talk Online - A forum for women to talk to women (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 
  11. Bangkok Post Public Company Limited۔ "Virus pushes Pakistan's transgender dancers out of their homes"۔ Bangkok Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 
  12. "Pakistan transgender leader calls for end to culture of 'gurus'"۔ the Guardian (بزبان انگریزی)۔ 2016-12-25۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 
  13. "Mosque not just for transgenders, says Kashish"۔ The Nation (بزبان انگریزی)۔ 2016-11-24۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020 [مردہ ربط]
  14. "Pakistan's Transgender Activists Look Ahead to Elections"۔ Time۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  15. seattle times۔ "Transgender Pakistanis" 
  16. "Transgender campaigns for acceptance in Pakistan election"۔ The Daily Star (بزبان انگریزی)۔ 2018-07-21۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  17. Nadir Guramani (2018-03-07)۔ "Senate unanimously approves bill empowering transgenders to determine their own identity"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  18. "Hoping against hope, Pakistan's transgenders launch election fight"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2018-07-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  19. "The transgender acid attack survivor running for parliament"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 2018-07-19۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  20. "Trans elections | Dialogue | thenews.com.pk"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  21. "Victory for the third gender | Dialogue | thenews.com.pk"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  22. "General Elections 2018: 'Kashish' set to challenge PTI Chairman and former premier - Pakistan"۔ Dunya News۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  23. "ECP - Election Commission of Pakistan"۔ www.ecp.gov.pk۔ 30 جولا‎ئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 دسمبر 2020 
  24. "Transgender candidates lose faith in ECP"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 26 July 2018 
  25. "Hoping against hope, Pakistan's transgenders launch election fight"۔ The Week (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2020