لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج ،پاکستان کے نامور اور ممتازقانون دان ،اسکالر،رائٹر،اینکر،مصنف،کالم نگاراور جانے پہچانے دانشور ہیں ان کی قانون دانی ،دانشوری،قوت فیصلہ  اور دیگر صلاحیتیں اسلام اور اہل اسلام کے لیے وقف ہیں 13اپریل1950کے روشن دن کھاریا ں کے نواحی علاقے لونگو میں علاقہ کی معروف زمینداروروحانی شخصیت ،حفظ قرآن کے سلسلۃ الذہب کے حامل الحاج حافظ راج دین صاحب المعروف میاں جی سرکار رحمۃ اللہ علیہ کے آنگن میں پیداہوئے ،ابتدائی تعلیم کھاریاں سے حاصل کی اور بعد ازاں بیٹے کے روشن مستقبل بلکہ قدرت کا حسن انتظام کہیے کہ ملک وملت کو روشنی سے نوازنے کی سبیل لیے میاں جی سرکار وہاں سے لاہور منتقل ہو گئے۔تعلیم و تربیت کی بقیہ منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ نذیراحمدغازی نے اسکول ،کالج اور یونیورسٹی میں کیا کھیل،کیا ادب،کیا نصابی وغیرنصابی سرگرمیاں  الغرض ہرفورم پراللہ تعالیٰ نے آپ کو نمایاں حیثیت اوربلندمقام سے نوازا۔خوف خداوعشقِ رسول آپ کے خمیر میں ، اساتذہ اوربزرگوں کا انتہادرجے کا ادب گھٹی میں جبکہ چھوٹوں پر ازحد شفقت فطرت میں شامل ہے۔سب سے بڑھ کر کسی بھی شخصیت کو خاطر میں لائے بغیرنبی عالمین ﷺ سے غیر مشروط محبت اور لامحدود وفاداری آپ کی نس نس میں رچی بسی ہوئی ہے۔شہرت و دولت کے لالچ اور حب جاہ و خوشامد سے کوسوں دور بے لوث و بے خوف ہوکر حق بات بیان کرنا اور اس پر ڈٹے رہنا ان کی جوانمردی اور قلندرانہ مزاج کا مظہر ہے۔

اسلام اور پاکستان سے جنون کی حد تک عشق ہے اسی لیے اندرون وبیرون ملک اپنے ہر لیکچر میں نظریہ اسلام ونظریہ پاکستان کی اہمیت اجاگر کرنااوران نظریات کا تحفظ کرنا فرض ِ عین سمجھتے ہیں۔الغرض علمی،ادبی،مذہبی،سیاسی۔سماجی اورقانونی میدان کا غازی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا،اہل محبت تو انھیں دورحاضرمیں محافظان ناموس رسالت کے قافلے کا سپہ سالار کہتے ہیں جنھوں نے کسی بھی خطرے کوخاطر میں بغیراسلام اور بانی ٔ اسلام ﷺ کے دشمنوں کو علمی وعملی محاذ پر ہمیشہ مدلل اور منہ توڑ جواب دیا،آپ کا بچپن خالصتاً مذہبی ماحول میں گذرا۔عملی میدان میں اترے تو قانون کاشعبہ چن کر بار اور بنچ میں اعلیٰ اور اہم عہدوں پر فائز رہے حفاظت و ناموسِ دین کی بات آئے توکسی بھی انجام کی پروا کیے بغیر اعلیٰ عہدوں کو اپنی ٹھوکر پر رکھ کر دکھایا،جہاں بھی گئے محبتوں اور عقیدتوں کی داستان رقم کرکے آئے،کچھ عرصہ پہلے 92نیوز چینل پر پروگرام"صبح نور" میں نوراسلام کی کرنیں بکھیرکر تشنگان رشدوہدایت کو جام علم کی نوری شراب سے سیراب کرتے رہے ہیں اور آج کل 24 نیوزچینل پر دنیابھر میں مقبول عام پروگرام "نورِسحر" کے ذریعے یہ خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔اس پروگرام کی بدولت دوباتیں عوام وخواص میں راسخ اور زبان زدعام ہورہی ہیں کہ

*۔ہماری غیر مشروط محبت اور لامحدود وفاداری صرف خاتم النبیین ﷺ سے ہے۔

*۔ملک پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کی گئی اسلامی نظریاتی ریاست ہے اس نظریے کی حفاظت میں بقاء ہے۔

نوجوانانِ اسلام کی روحانی تربیت کے لیے''دائرۂ مخلصین " کے نام سے ایک ماڈل خانقاہ کی بنیاد بھی رکھی

ایک ماڈل خانقاہ ہے اور خانقاہ درحقیقت صفّہ کے تسلسل کو جاری رکھنے والی اس تربیت گاہ یا یونیورسٹی کو کہتے ہیں  جہاں روحانی و اخلاقی تربیت کے ذریعے انسان کا تعلق باﷲ و تعلق بالرسول قائم ودائم ہو۔ لہٰذا خانقاہی نظام کی اساس بھی تعلق باﷲ وتعلق بالرسول ہی ہے۔ بلکہ خانقاہی نظام کا مقصد اولین ہی ا ﷲ اور اس کے رسولؐ کی محبت و اطاعت کو فروغ دینا ہے۔ خانقاہیں ہمیشہ سے اﷲ کے بندوں کی داد رسی، تربیت، تعلیم اور ذکر و فکر کا وہ مرکز رہی ہیں، جہاں سے تشنگان معرفت فیض یاب ہوئے اور گم گشتہ لوگوں کو محبت رسول کی منزل کا سراغ ملا۔

ہر لمحہ اپنے خالق سے ڈرنا، دین کے کام کو بغیر کسی بھی دنیاوی لالچ کے سر انجام دینا، ہر انسان کو اپنے آپ سے بہتر سمجھنا، اپنی ذات کی نفی کرنا، روپے پیسے سے محبت اور نہ اسے جمع کرنا، شہرت و نام وری سے بچنا، طبیعت میں نرمی اور مزاج میں عاجزی پیدا کرنا، حقیقت میں یہی وہ بنیادی اوصاف ہیں جن سے مل کر تصوّف کا ابتدائی خاکہ تیار ہوتا ہے۔اﷲ والوں کی زندگی انہی تعلیمات کا مظہر تھی۔ ان کے کردار میں پاکیزگی، سیرت میں تقدّس، پیغام میں اخلاص اور لہجوں میں بلا کی شفقت ہی تھی جس نے تاریخ کے بہتے دھاروں کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔

خانقاہ اگر حقیقی طور پر صفہ اور اصحاب صفہ سے فیض یافتہ ہو تو وہاں سے تیار ہونے والے نوری کردار لوگ مہر و محبت کے پیکر، علم و آشتی کے چلتے پھرتے مجسمے، صلح و نرمی کے جیتے جاگتے نمونے، صبر و تحمل کے کوہِ وقار، زہد و تقویٰ کے عظیم شاہ کار اور عدل و انصاف کے پیام برجو اس دنیا میں رہیں تو اس شجرِ سایہ دار کی مانند جو اپنوں کو بھی سایہ فراہم کرتا ہے اور بیگانوں کو بھی، جس کی چھاؤں میں دوست بھی بیٹھیں اور دشمن بھی۔ باد نسیم کے خوش گوار جھونکے کی مانند ایسی خلیق اور شفیق ہستیاں ہی مخلوق کے دلوں اور ذہنوں پر حکمرانی کرتی نظر آتی ہیں اور بعد ازوصال عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور ٹھہرجاتی ہیں ۔

خانقاہی نظام کے تشکیلی عناصر میں سادگی، علم و عمل، تربیت اور اخلاقیات کو فوقیت حاصل ہے۔ لیکن عصر حاضر میں یہ سب عناصر خانقاہوں سے ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عصر حاضر میں ہماری خانقاہوں میں(الاّ ماشاء اللہ) رسوم و روایات اور مظاہر پرستی کا دور دورہ ہے، جبّہ و دستار، تسبیح و مصلی صرف ظاہری دکھاوے کے طور پر باقی ہے اور تصوّف کی حقیقی روح اور تربیتی ماحول مفقود ہے۔

تصوف تو دراصل اﷲ رسولﷺ کی سچی محبت کا نام ہے اورمحبت کا تقاضا یہ ہے کہ اﷲ اور اس کے رسولﷺؐ کی پیروی سے بال برابر بھی انحراف نہ کیا جائے۔ اسلامی تصوّف، شریعت سے کوئی الگ چیز نہیں ہے، بلکہ شریعت کے احکام کو انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ بجا لانے اور اطاعت میں اﷲ کی محبت اور اس کے آخری نبی محسن انسانیت ﷺ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق زندگی گزارنے کا نام تصوّف ہے۔

فی زمانہ اس امر کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ کوئی ایسی خانقاہ وجود میں آئے جہاں اصحاب صفہ کا تسلسل نظر آئے  اور نئی نسل کو اسلاف کی تعلیمات سے روشناس کرواکرعملی اقدامات کیے جائیں۔ الحمد للہ !جسٹس(ر) نذیراحمد غازی صاحب کی سرپرستی میں دورِ جدیدکے تقاضوں کو مدنظررکھتے ہوئے ایسی ہی  ایک ماڈل خانقاہ "دائرۂ مخلصین "کے نام سے معرض وجودمیں آئی جس کی ترجیحات میں تعداد کی بجائے استعداد بڑھانا ہے تاکہ نہ صرف موجودہ نسل بلکہ آنیوالی نسلوں کو بھی فیضیابی نصیب ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ متعلقین و مخلصین  میں خانقاہ کی عمارت (لاہور میں 11کنال رقبہ پر مشتمل تصوف کی ایک وسیع ترین یونیورسٹی جس کے تعمیراتی مراحل عنقریب شروع ہو رہے ہیں)سے پہلے ریاستِ وجود پر صفہ کی تعلیمات کو نافذکرنے کا قدم روبہ عمل ہے۔جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا طبقۂ فکر تصوف و اسلاف کی تعلیمات سے آراستہ وپیراستہ ہوکردنیا کے مختلف ممالک میں معاشرے کی بہتری کے لیے نمود و نمائش سے کوسوں دور عملی طور پر اپنا کردار ادا کررہاہے۔ عنقریب پاکستان  میں ان شاء اللہ ایک عظیم ترین یونیورسٹی اورمرکز(جس کا ذکر کیا جاچکاہے)کا قیام عمل میں آئے گا جس میں دینی و عصری تعلیم اور تصوف کی تربیت سے بھرپور نوجوان باقاعدہ تیار کیے جائیں گے۔

سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر22کا مفہوم ہے کہ "جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ ایسے لوگوں سے دوستی نہیں رکھیں گے جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کریں چاہے وہ ان کے کتنے ہی قریبی خونی رشتہ دار یا عزواقارب میں سے ہوں۔جو اللہ رسول کی محبت میں ایساکرتے ہیں اللہ ان کے دلوں پسر ایمان نقش فرمادیتا ہے اور ان کی مدد بھی خودفرماتا ہے، ایسے لوگ اللہ کی جماعت ہیں جن کے لیے جنت اور اللہ کی رضا ہے اور اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے"۔

دائرہ مخلصین انٹرنیشنل کا منشور بھی یہی ہے کہ اپنی غیر مشروط محبت اور لامحدود وفاداری صرف اور صرف خاتم النبیین ﷺ سے وابستہ رکھتے ہوئے حیات مستعار کی سانسیں بابِ جبریل پرگم کرنے کی خواہش میں بسر کی جائیں، یہی جوہر ِ ایمان اور یہی اصلِ ایمان ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی خاص مدد سے اس پر کاربند رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

ویڈیوز کے لیے ہمارا یوٹیوب چینل جوائن کیجئے

http://youtube.com/ghaziadvocate

فیس بک پر ہماری سرگرمیوں سے مطلع رہنے کے لیے لنک وزٹ کریں

http://facebook.com/dairaemukhliseen

وٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے رابطہ کریں00923316854547

SM {{{مضمون کا متن}}}

حوالہ جات

ترمیم
  1. "DairaeMukhliseen Foundation" 
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔