نسائیت پسند تحریکیں اور نظریات
نسائیت پسند تحریکیں اور نظریات انیسویں صدی میں پروان چڑھنا شروع ہوئے اور بیسویں صدی میں تحریکوں اور نظریات نے دنیا میں مضبوط جڑیں بنا لیں۔ روایتی طور پر نسائیت کو اکثر تین اہم روایات میں تقسیم کیا جاتا ہے جنہیں عام طور پر آزاد خيالی، اصلاحی یا قبول عام نسائیت، انقلابی نسائیت اور سوشلسٹ/مارکسسٹ نسائیت کہا جاتا ہے۔ ان تین قسموں کو بعض اوقات نسائیت کے "بگ تھری" اسکولوں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ [1] بیسویں صدی کے اواخر سے نسائیت کی کئی نئی شکلیں بھی ابھری ہیں، جن میں سے کچھ کو تین اہم روایات کی شاخوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے[2]۔
اختلافی نسائیت
ترمیم"نسائی مساوات" کے رد عمل کے طور پر فرقِ نسواں یا اختلافی نسائیت کو 1980 کی دہائی میں حقوق نسائیت کی چند علمبردار خواتین نے رواج دیا۔ اگرچہ اختلافی یا فرقی نسائیت کا مقصد اب بھی برابر حقوق حاصل کرنا ہے لیکن انھوں نے مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق پر زور دیا ہے اور اس دلیل پر اصرار کیا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان مساوات کے حصول کے لیے مماثلت ضروری نہیں ہے۔[3] فرق نسواں اور اختلافی نسائیت کے ماہرین میں سے ایک میری ڈیلی کا کہنا ہے کہ
نہ صرف عورت اور مرد مختلف ہیں بلکہ ان کے اقدار جاننے کے مختلف طریقے ہیں، خواتین اور ان کی اقدار مردوں سے زیادہ ہیں[4]۔
آزاد خیال نسائیت
ترمیمآزاد خیال نسائیت سیاسی اور قانونی اصلاحات کے ذریعے مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات پر زور دیتی ہے۔ روایتی طور پر، انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل کے دوران آزاد خیال نسائیت کا وہی مطلب تھا جو "بورژوا نسائیت" یا "مقبول عام نسائیت" کا تھا[5]۔ وسیع تر معنوں میں آزاد خیال نسائیت کی اصطلاح مرکزی دھارے کی نسائیت سے مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔ آزاد خیال حقوق نسواں کے حامیوں نے خواتین کے خلاف سیاسی، قانونی اور امتیازی سلوک کی دیگر اقسام کو ختم کرنے کی کوشش کی تاکہ انھیں مردوں کے برابر مواقع فراہم کیے جاسکیں۔ آزاد خیال نسائیت نے خواتین کے ساتھ مساوی سلوک کو یقینی بنانے کے لیے معاشرے کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی گراں قدر کوشش بھی کی۔
اکیسویں صدی میں، آزاد خیال نسائیت نے ایک محدود معنی اختیار کیا ہے جو عورت کو اپنے اعمال اور انتخاب کے ذریعے مساوات کا مظاہرہ کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی صلاحیت پر زور دیتا ہے۔ اس لحاظ سے، آزاد خیال نسائیت ایک مرد اور عورت کے درمیان ذاتی تعلق اور ماملات کو معاشرے کو بدلنے کے لیے ایک اہم طریقے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
- ↑ Mary Maynard (1995)۔ "Beyond the 'big three': the development of feminist theory into the 1990s"۔ Women's History Review۔ 4 (3): 259–281۔ doi:10.1080/09612029500200089
- ↑ Samantha Weiss (4 May 2016)۔ "Is Mainstream Feminism Bad for Women's Rights?"۔ Broadly۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2018
- ↑ Rian Voet (1998)۔ Feminism and Citizenship۔ SAGE Publications Ltd
- ↑ Neeru Tandon۔ Feminism: A Paradigm Shift۔ صفحہ: 68
- ↑ Rian Voet (1998)۔ "Categorizations of feminism"۔ Feminism and Citizenship۔ SAGE۔ صفحہ: 25۔ ISBN 1446228045