اویسیہ نسبت یا نسبت اویسی وہ نسبت جو کسی ظاہری شیخ و مرشد کی بجائے بلاواسطہ فیض اللہ اور اس کے رسول سے حاصل ہو۔
اس کے فہم وادراک کے لیے شاہ سمنان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی فرماتے ہیں کہ شیخ فرید الدین عطار بیان فرماتے ہیں کہ:۔
’’ اللہ عزوجل کے ولیوں میں سے کچھ حضرات وہ ہیں جنہیں بزرگان دین مشائخ طریقت “اویسی””کہتے ہیں ان حضرات کو ظاہر میں کسی پیر کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ عنایت میں بذات خود ان کی تربیت وپرورش فرماتے ہیں اس میں کسی غیر کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواجہ اویس قرنی کو تربیت دی تھی یہ مقام اویسیت نہایت اونچا روشن اور عظیم مقام ہے کس کی یہاں تک رسائی ہوتی ہے اور یہ دولت کیسے میسر ہوتی ہے بموجب آیتہ کریمہ اللہ تعالی کا مخصوص فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطافرمادیتا ہے اور اللہ تعالی عظیم فضل والا ہے مزید فرماتے ہیں شیخ بدیع الدین المقلب شاہمدار ایشاں نیز اویسی بودہ اند وبسے مشرب عالی داشتند وبعضے علوم نوادر از ہیمیاوکیمیا وریمیا ازایشاں معائنہ شد کہ نادر ازیں طائفہ کسے راباشد شیخ بدیع الدین ملقب بہ شاہمدار بھی اویسی ہوئے ہیں نہایت ہی بلند مرتبہ ومشرب والے ہیں بعض نوادر علوم جیسے ہیمیا سیمیا کیمیا ریمیا ان سے مشاہدہ میں آئے ہیں جو اس گروہ اولیاء میں نادر ہی کسی کو حاصل ہوتا ہے[1]
فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے
’’بعض مشائخ ایسے ہوئے ہیں جن کو براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل ہوا ہے، سلسلہ کے اصل شیخ سے زیادہ نہیں ہوا۔ جیسے اویس قرنی رحمة اللہ علیہ کو براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض غائبانہ حاصل ہوا تھا، اسی لیے ان بزرگوں کو اویسی نسبت والا بزرگ کہتے ہیں اور ان کی نسبت اویسی کہلاتی ہے۔ ‘‘ [2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. لطائف اشرفی ،سید اشرف جہانگیر سمنانی،صفحہ 545،سہیل پریس پاکستان چوک کراچی
  2. "دارالافتاء دیوبند"۔ 2018-01-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-25