نسخ (باب فتح) مصدر بمعنی زائل کرنا۔ بدل دینا۔ بیکار کر دینا۔ ایک چیز کو دوسری جگہ قائم کرنا۔ صورت بدل دینا۔ لکھنا۔ الا ستنساخ (باب اسفعال) کے معنی کسی چیز کے لکھنے کو طلب کرنے یا لکھنے کے لیے تیار ہونے کے ہیں لیکن بمعنی نسخ (لکھنا) بھی قرآن مجید میں آیا ہے۔

  • اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ جو کچھ تم کیا کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے تھے۔ تنا سخ ایک کے بعد دوسری چیز کا اس کے قائم مقام ہونا۔ جیسا کہ اہل ہنود میں مسئلہ تنا سخ ہے کہ آتما بمعنی روح ہر موت پر دوسرا روپ دھار لیتی ہے اور عمل جاری رہتا ہے تاآنکہ آتما کو نروان (نجات) حاصل ہو۔[1]

منسوخی، بطلان، تنسیخ، منسوخ کرنا، زائل کرنا، دور کرنا[2]

معانی ترمیم

نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا جیسے آدم علیہ السلام کے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کر دیا گیا وغیرہ، اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔[3] لغت میں نسخ کے دو معنی ہیں، ایک معنی لکھنا اور نقل کرنا‘ اس اعتبار سے تمام قرآن منسوخ ہے، یعنی لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت العزت کی طرف نقل کیا گیا ہے‘ قرآن مجید میں نسخ کا لفظ لکھنے اور نقل کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے :

  • هَذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

بیشک ہم لکھتے رہے جو کچھ تم کرتے تھے۔ نسخ کا دوسرا معنی ہے : کسی چیز کو باطل اور زائل کرنا‘ اور اس کی دو قسمیں ہیں : # کسی چیز کو زائل کرکے دوسری چیز کو اس کے قائم مقام کر دیا جائے جیسے عرب کہتے ہیں کہ بڑھاپے نے جوانی کو منسوخ کر دیا یعنی جوانی کے بعد بڑھاپا آگیا‘ سورہ البقرہ کی آیت 106میں ہے : ہم جس آیت کو منسوخ کرتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی دوسری آیت لے آتے ہیں۔

مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ اس کی تعریف یہ ہے دلیل شرعی سے کسی حکم شرعی کو زائل کرنا۔ (ب) کسی چیز کا قائم مقام کیے بغیر اس کو زائل کر دیا جائے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم اس کو محو کردیتے ہیں یعنی ہم تمھارے ذہنوں اور دلوں سے اس آیت کو نکال دیتے ہیں‘ پس وہ آیت یاد آتی ہے نہ اس کو پڑھا جاتا ہے۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد1 صفحہ89 ،علی محمد، سورہ البقرہ،آیت 106،مکتبہ سید احمد شہید لاہور
  2. "اردو_لغت"۔ 12 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جون 2015 
  3. تفسیر مکہ ،صلاح الدین یوسف، سورہ البقرہ ،آیت 106
  4. تبیان القرآن، غلام رسول سعیدی، سورہ البقرہ، آیت106 ،فرید بکسٹال لاہور