نظام رامپوری

پیدائش 1823رام پور-وفات1872رامپور


اردوادب کی تاریخ میں دہلی ، لکھنؤ اوررام پورکو بہت بڑامقام حاصل ہے۔ دبستان دہلی اوردبستان لکھنؤ کے بعدجس علاقے میں  شعروشاعری کو عروج حاصل ہوااورجس نے شعر و سخن کو نئی تہذیبی دولت سے مالامال کیا، وہ رام پو رہے۔ جب یہ دونوں دبستان یعنی دہلی اورلکھنو اجڑے توشعراء اوراہل علم کو رام پورمیں جگہ ملی ۔ جن میں مولانافضل حق خیرآبادی، مرزاغالب ، میرحسن تسکین، میرمظفرعلی اوربہت دوسرے شعرا و علما شامل تھے، نواب یوسف علی خان رامپوری کے دربارمیں جمع ہوئے۔ نواب صاحب چونکہ خودبھی شعروشاعری کے دلدادہ تھے ، اس لیے اس نے اپنے دربارمیں گنگاجمنی کر دیا، یعنی دہلی اورلکھنو کے رنگ باہم ملاکر ایک نئے طرزکی بنیادڈالی۔چونکہ رامپور پٹھانوں کاعلاقہ تھا ، اس لیے یہاں تمام ترمحرکات پٹھانوں کی جبلت کے زیراثرہیں۔سادگی، خلوص ، انسان دوستی ، مہمان نوازی، قوت وطاقت، خودداری اورخوداعتمادی ان کی بنیادی خوبیاں ہیں۔ اس پرمستزاداہل رامپورکاغصہ اورانتقامی جذبہ بھی قابل ذک رہے۔دبستان رامپورکی شاعری میں پٹھانوں کی اس تہذیب کے بڑے اثرات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس دبستان کی شاعری میں خوشی اورمسرت کی لہر، اس کانشہ اورغرور، مردانہ پن، بے ساختگی ،بے باکی اوربے نیازی ہے۔ اس کی شاعری میں صاف ستھری زبان استعمال ہوئی ہے۔اپنی اس انفرادی رنگ کی بدولت بعض محققین اورناقدین رام پورکو علاحدہ دبستان تسلیم کرتے ہیں۔ شاہی سرپرستی ، اہل رامپورکامزاج شاعرانہ اور خوشی اورمسرت کی فراوانی نے رام پورکی فضاشعروسخن کے لیے نہایت سازگاربنادی تھی۔ شعر و سخن کے اس دورعروج میں 1823میں رام پور کے محلہ گھیرسخی میں حافظ سید احمدشاہ کے ہاں ایک لڑکانظام شاہ کی ولادت ہوئی۔نظام نے عربی اورفارسی کی تعلیم محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی۔ان کے ابتدائی استادانکے پیرومرشدمیاں احمدعلی شاہ تھے لیکن صحیح معنوں میں ان کے استادعلی بخش بیمارتھے جومصحفی کے شاگرد تھے۔رامپورمیں شعر و سخن کی اس فضامیں نظام نے بھی شاعری شروع کی۔نظام کے اساتذہ میں والئی رام پور نواب یوسف علی خان ناظم کانام بھی لیاجاتاہے۔رفتہ رفتہ نظام نے مشاعروں میں حصہ لیناشروع کیااورانکی شاعری میں خوب نکھارآئی۔ان کی شاعری کااپناایک انفرادی رنگ ہے، جس میں بانکپن، شوخی، معاملہ گوئی ، ادابندی، اورسب سے بڑھ کرانکے کلام میں سلاست، سادگی اورایسی مٹھاس موجودہے کہ یہ گماں نہیں ہوتاکہ یہ اُس دورکی شاعری ہے۔انکامشہورزمانہ شہر آج بھی ہرزبان پ رہے اورضرب المثل کی حیثیت رکھتاہے۔

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھاکے ہاتھ

دیکھاجومجھ کوچھوڑدئے مسکراکے ہاتھ

نظام کی زبان میں جوسادگی ہے ، وہ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔ جس دورمیں زبان میں مشکل پسندی کارجحان عام تھا، ایسے میں نظام نے نہایت صاف ، شائستہ اورسلیس زبان استعمال کرکے ، اپنی انفرادیت قائم رکھی۔ایسی زبان کااستعمال ، جسے دیکھ کرآج بھی میرتقی میر، احمدفراز اورناصرکاظمی کی شاعری کاگماں ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ جب مرزاغالب رامپورگئے اوروہاں نظام کاکلام پڑھا توبے ساختہ منہ سے یہ الفاظ نکلے۔’’ یہ تو رام پورکے میرہیں‘‘۔ نظام کے کلام میں دورقدیم اوردورجدیدکاحسین امتزاج موجودہے۔ وہ ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں ، جہاں قدیم رنگ کے نقوش کے ساتھ ساتھ جدید رنگ کے چھاپے ابھرناشروع ہو گئے تھے۔ان کی شاعری میں آنے والے دورکی شاعری کارنگ نظرآتاہے۔ ان کی شاعری مکالمہ نگاری، ہجرووصال، معاملہ بندی،ادابندی، جدت پسندی اورلطف زبان کی مکمل کائنات ہے۔ان کے اشعارنظرسے گزرتے ہیں توخوشگوارسااحساس ہوتاہے ، دل امنگوں سے بھرجاتاہے اورترنگوں کے بحربیکراں میں موجیں مارنے لگتاہے۔ہروہ فرد، جس نے عشق کیاہے یااسے رومانوی زندگی کی ہلکی سے ہوالگی ہے، وہ نظام کاشیدائی ہوجاتاہے۔ اس میں کہیں شوخی نمایاں ہے ، کہیں حیادامن گی رہے ، کہیں مجبوری اورخوشی کی البیلی سی رومانیت ہے۔کہیں سادگی ہے اورکہیں پرکاری ہے۔

غیر کے دھوکے میں قاصدسے میراخط لے کر

پـڑھنے کو پڑھ تولیا، نام مگرچھوڑدیا

غیر سے وعدہ واقرارہوئے کیاکیاکچھ

میرے خوش کرنے کو ایک فقرہ ادھرچھوڑدیا

نظام سے ادب میں جدیدیت کی ابتدائی ہوئی ہے، کیونکہ ان سے پہلے کثرت سے جدت پسندی نہیں ملتی ، یااگرکہیں ملتی ہے توبرائے نام ہے۔کسی تصورکے اظہارکے لیے نئے الفاظ برتنابھی جدیدیت کے زمرے میں آتاہے۔نظام وقتی طور پر کلاسیکی شاعری کے کوچے میں بھی گئے ہیں اورانہوں نے وہ حقائق ورایات اور دردوغم اسی طرح تغزل میں پیش کیے ہیں ، جوہماری کلاسیکی شاعروں کے مزاج میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کے کلام میں جوسوزوگداز ہے ، وہ میرسے مشابہت رکھتاہے، چونکہ ان کی اولادیں کبرسنی میں فوت ہوتی تھیں ۔ ان کے آٹھ اولادیں ہوئی لیکن فوت ہوئیں، جس وجہ سے ان کے کلام میں دردوغم کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں جبکہ رنگ تغزل مومن کی طرح ہے۔مثلاً

تم سے کچھ کہنے کوتھا، بھول گیا

ہائے کیابات تھی کیابھول گیا

تمھیں یہ بھی کبھی خیال آیا

کہ کوئی راہ دیکھتاہوگا

ساقی کیاخطاہے ، قسمت ہے اپنی اپنی

جب اپنادورآیاخالی ہی جام نکلا

کس کس کی روزروزخوشامدکیاکرے

ہوتے ہیں ان کے درپہ تودربان نئے نئے

اور

کس کس طرح ستاتے ہیں ، یہ بت ہمیں نظام

ہم ایسے ہیں کہ جیسے کسی کاخدانہ ہو

نظام رامپوری کے کلام کی خوبیاں دیکھ کریہ یقین ہوجاتاہے کہ وہ اپنے دوراوراس سے پہلے دورکے شعرا سے کسی طورکم نہ تھا۔ ان کے کلام میں دبستان دہلی اوردبستان لکھنوکی جملہ خوبیاں موجودتھیں۔ بعض محققین کہتے ہیں کہ نظام رامپوری کے رنگ میں رنگ کر نواب مرزاخان ، داغ بن گئے۔داغ کاجملہ کلام نظام رامپوری کے کلام کے زیراثرپروان چڑھاہے بلکہ بعض مقامات میں داغ نے نظام کے کئی اشعارمیں معمولی تصرف کرکے اپنے نام کردئے ہیں۔لیکن داغ کو اردوشعروسخن میں وہ مقام ملاجوکسی اورکے حصے میں نہ آیاجبکہ نظام رامپوری گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔اردواد ب کے اس عظیم شاعرنے1872میں رامپورمیں وفات پائی، جس وقت ان کی عمر پچاس برس تھی۔یہ زمانے کے بے اعتنائی تھی یامحققین اورناقدین کاتعصب کہ نظام رامپوری کو وہ شہرت اورمقبولیت نہ ملی ، جس کے وہ حقدارتھے۔ کلب علی خان فائق نے نظام رامپوری کاپوارکلیات مجلس ترقی اردوکے تحت شائع کیاہے۔ دورجدیدمیں اردوادب کے طلبہ ، اساتذہ، محققین اورناقدین اردوادب کے پرانے کھنڈر کی کھدائی کر رہے ہیں اورایسے ایسے نوادرات ان کے ہاتھ آ رہے ہیں ، جواردوادب میں نئے نئے رجحانات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔نظام رامپوری پر تحقیق ہورہی ہے اوربہت جلد اردوادب کے آسمان پر نظام رامپوری کاستارہ پوری آب وتاب کے ساتھ چمکے گا۔