نفسانی خواہش کا قانون اسلام میں متعہ (عارضی نکاح) جو حکم قرآن سے ثابت ہے، کی ظاہری صورت پر تفصیلی اعتراضی کتاب ہے۔

کتاب کا نام

ترمیم

نفسانی خواہش کا قانون انگریزی کتاب (Law Of Desire) کا اردو ترجمہ ہے صحافی و ادیب نگار عرفانی نے کیا ہے اسے الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ کراچی پاکستان نے 1999ء طبع کیا ہے۔

مصنفہ

ترمیم

یہ تحقیق و تصنیف ایرانی اسکالر شہلا حائری ( Shahla Haeri) کی ہے جس نے اس عنوان پر یونیورسٹی آف کلفورنیا لاس اینجلز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس تصنیف میں اسلام کے ایک حکم قرآنی وقتی نکاح یا متعہ جسے آج صرف مکتب تشیع دین اسلام کے حکم نکاح شرعی کی ایک قسم کے طور مانتا ہے اور اہل سنت، حضرت عمر کے دور میں اس پر عائد پابندی کو درست تصور کرتے ہوئے اس کے منکر ہیں۔ اس مصنفہ نے متعہ کو ایک مذہبی، جنسی عقیدہ و عمل، (جسے ایران میں صیغہ کہا جاتا ہے) کے طور پیش کیا ہے اور یہ اس کے شرعی حکم کا ایک عوامی اور تحقیقی جائزہ ہے، جسے وہ شہوانیت اور حرص و نفسانی خواہش کہتی ہیں [1]

عنوانات

ترمیم

کتاب تمہید اور تین حصوں پر مشتمل ہے

تمہید

ترمیم

تمہید مفصل طور پر بیان کی گئی جو صفحہ 37 تا 82 پر مشتمل ہے

حصہ اول قانون نفاذ کی حیثیت سے

ترمیم

اس میں مزیدباب ہیں

نکاح

ترمیم

ایک معاہدے کی حیثیت سے

مستقل شادی

ترمیم

نکاح

عارضی نکاح

ترمیم

متعہ جسے ایران میں صیغہ کہا جاتا ہے

حصہ دوم قانون مقامی آگاہی کی حیثیت سے

ترمیم

حصہ سوم قانون جیسا سمجھا گیا

ترمیم

خلاصۃ الکلام

ترمیم

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل تشیع نے نکاح متعہ کے نام پر معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا ہے، بعض ممالک میں نکاح متعہ کے نام پر جسم فروشی کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ نفسانی خواہش کا قانون میں موصوفہ نے اپنی کتاب میں اسلام کے اس نفسانی قانون کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے اس کا رد کیا ہے اور یہ بات واضح کی ہے کہ عام نکاح میں ہی ہمارے معاشرے کی فلاح و بہبود ہے اور نکاح متعہ سے معاشرے میں کیا ہولناک نتائج برآمد ہو رہے ہیں، عائلی نظام کس قدر متاثر ہو رہا ہے اور اس کے علاوہ دیگر موضوعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔[2]

اسلامی نکتہ نگاہ

ترمیم

اس خاتون کی تحریر ایک اسلامی مسلمہ حکم شرعی کی مخالفت ہے اور دین اسلام کی گستاخی اور توہین کے زمرے میں آتا ہے۔

نکاح متعہ کا حکم قرآن میں آیا ہے لہذا کوئی مسلمان اس کے اصل حلیت کا منکر نہیں ہو سکتا۔

گرچہ متعہ کے بارے میں اکثریت اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ یہ منسوخ ہو چکا ہے۔ مثلاً فخر الدین الرازی نے لکھا کہ اسلام میں متعہ کے حلال ہونے کا ہم انکار نہیں کرتے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ متعہ جائز تو تھا مگر بعد میں منسوخ ہو گیا ہے۔[3] یہ متعدد بار منسوخ ہوا اور پھر رائج کیا گیا۔ یہ تنسیخ اور رواج بعض کتب کے مطابق سات دفعہ ہوئی۔[4]

کچھ اہل سنت یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور تک جائز رہا۔[5] حضرت جابر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں اور حضرت ابوبکر کے دور میں ہم مٹھی بھر آٹا اور کھجور پر متعہ کرتے رہے ہیں حتی کہ عمر ابن الخطاب نے عمرو بن حریث کے مسئلے کے بعد اس سے منع کر دیا۔[6] اہل سنت کے اس گروہ کے مطابق انھوں نے مفاد عامہ میں یہ کام کیا۔ روایت کے مطابق حضرت عمر نے فرمایا کہ رسول اللہ کے زمانے میں دو متعے حلال تھے جن کو اب میں حرام کرتا ہوں اور ان سے نہ رکنے والے کو سزا دوں گا۔[7][8]۔[9][10] مولانا مودودی تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں کہ متعہ کو حرام قرار دینے یا مطلقاً مباح ٹھہرانے میں سنیوں اور شیعوں کے درمیان میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس میں بحث و مناظرہ نے بے جا شدت پیدا کر دی ہے ورنہ امر حق معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں۔ انسان کو بسا اوقات ایسے حالات سے سابقہ پیش آ جاتا ہے جن میں نکاح ممکن نہیں ہوتا اور وہ زنا یا متعہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ایسے حالات میں زنا سے بہتر ہے کہ متعہ کر لیا جائے۔[11] امام احمد بن حنبل متعہ کو حلال سمجھتے تھے۔[12][13]

اہل تشیع کے مطابق متعہ حلال ہے کیونکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات تک حلال تھا اور صحابہ کرام یہ نکاح کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت حضرت عبد اللہ ابن عباس، حضرت عبد اللہ ابن مسعود، حضرت عمرو بن حریث، حضرت سلمہ بن امیہ، حضرت ابو سعید خدری وغیرہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی نکاح متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔[14] اس کے علاوہ اہل مکہ رسول اللہ کی وفات کے بعد بھی متعہ کو حلال سمجھتے تھے۔[15]

اس کے علاوہ بعض اہل سنت نے نکاح متعہ کی ایک بگاڑی ہوئی شکل آج بھی رائج کر رکھی ہے جسے انھوں نے نکاح مسیار کا نام دے رکھا ہے۔ مگر اہل تشیع اس کو غیر شرعی قرار دیتے ہیں۔

  1. https://archive.org/details/lawofdesiretempo0000haer/mode/1up
  2. نفسانی خواہش کا قانون، الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ کراچی پاکستان 1999ء
  3. تفسیر کبیر جلد 3 از فخر الدین الرازی
  4. تفسیر قرطبی از علامہ قرطبی جلد 5 صفحہ 120
  5. زاد المعاد از ابن قیم جوزی جلد 2 صفحہ 205 ذکر فتح مکہ
  6. صحیح مسلم
  7. سنن کبریٰ المعروف بہ سنن نسائی
  8. کنز العمال فی سنن اقوال والافعال از علا الدین علی بن الحسام المعرف متقی ھندی
  9. احکام القران از محمد ادریس الشافعی
  10. تفہیم القران ازابو الاعلیٰ مودودی اگست 1955
  11. تفسیر ابن کثیر سورۃ النساء آیت 24
  12. البدایۃ والنہایۃ از اب کثیر صفحہ 194
  13. نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار از محمد بن علی بن محمد الشوکانی
  14. فتح الباری شرح صحیح البخاری از ابن حجر عسقلانی