اس صفحہ کو فی الحال ترامیم کیلیۓ نیم محفوظ کر دیا گیا ہے، اس میں ترمیم کیلیۓ صارف کو اندراج (registration) کر کے داخل نوشتہ (log in) ہونا لازم ہے۔ اس فیصلے کی وجوہات میں احتمالِ تخریب کاری و جانبداری، حذف شدگی سے قبل انتباہ، مضمون کی بہتری، تبادلۂ خیال کی شناخت آوری اور یا پھر اسکی دائرہ المعارف میں شمولیت سے نا اہلیت شامل ہوسکتی ہیں۔ تبدیلیوں پر بحث یا صفحہ کو غیرمحفوظ کرنے کے بارے میں گفتگو یا راۓ آپ اسی صفحے پر دے دسکتے ہیں۔


نکاح متعہ (عربی : نكاح المتعة ) جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے ؛ اور اولاد انھیں والدین سے منسوب ہو تی ہے؛ اگر فریقین چاہیں تو مدتِ اختتامِ متعہ پر علیحدگی کی بجائے اسے جاری (یا مستقل) بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نکاح ابتدا سے اسلام میں متعدد بار جائز ہوا اور اس سے روکا گیا پھر جائز ہوا۔ تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے چند سال قبل تک اس کی موجودگی پر سنی بھی اور شیعہ بھی دونوں اتفاق کرتے ہیں۔[1][2][3][4] یعنی اس کا اصل میں حلال ہونا مسلم اور مورد اتفاق ہے مگر اکثر شیعہ اور سنی نیز دیگر فرقے اس کے حلیت باقی رہنے یا حرام ہوجانے کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔

اصل الکلمہ

لفظ متعہ اصل میں عربی اساس متع سے بنا ہوا لفظ ہے جس کے معنی لغوی طور پر شادی (بمعنی خوشی) اور مسرت (amuse) کے آتے ہیں [5] اسی سے استمتع اور حج التمتع جیسے الفاظ بنے ہیں جن میں پہلا (استمتع) کسی بھی شخص سے کسی بھی قسم کا استفادہ حاصل کرنے کے لیے ہے اور دوسرا ( حج التمتع) متعۃ الحج کے معنوں میں آتا ہے؛ قرآن کی سورت الانعام کی آیت ایک سو اٹھائیس میں استفادہ کے معنوں میں یہی لفظ یوں آتا ہے:

رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ
اے ہمارے رب فائدہ حاصل کیا ہم نے ایک دوسرے سے [6]

جاری یا منسوخ

جہاں اس بات پر کوئی شک نہیں کہ یہ نکاح اسلام کے ابتدائی زمانے میں حلال تھا اور کیا جاتا رہا ہے اور مختلف اوقات میں اس کی اجازت دی جاتی رہی اور کبھی منع کر دیا جاتا مگر مسلمانوں میں اس پر اختلافات ہیں کہ یہ اب حلال ہے یا حرام۔ کچھ احبابِ اہل سنت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر اس سے آخری دفعہ منع کر دیا تھا۔[7] جس کے بعد یہ حلال نہیں کیا گیا۔ کچھ اور اہل سنت تاریخ دان و محدثین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی اور حضرت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دورِ خلافت میں جائز رہا مگر حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے مسلمانوں کے مفاد میں اس پر پابندی لگا دی۔ اہل تشیع کے مطابق یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات تک جائز تھا اور ان کے بعد کسی کو یہ اختیار نہیں کہ حرام و حلال کے احکام میں تبدیلی کرے۔ بے شمار مستند تفاسیر کے مطابق قرآن میں سورت النساء کی آیت چوبیس متعہ ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے [3][8]۔[4]۔[9][10][11][12][13] جبکہ متعدد علماے سنی اس پر اختلافی موقف رکھتے ہیں جس کی تفصیل نیچے کسی قطعے میں دی جائے گی۔

فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَـَاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً
پھر جو لطف اٹھاؤ تم ان عورتوں میں کسی سے
تو ادا کرو انھیں ان کے مہر بطور فرض[6]

متعہ کے بارے میں اختلافات

متعہ کے بارے میں اکثریت اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ یہ منسوخ ہو چکا ہے۔ مثلاً فخر الدین الرازی نے لکھا کہ متعہ مباح ہونے سے ہم انکار نہیں کرتے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ متعہ منسوخ ہو گیا ہے۔[14] یہ متعدد بار منسوخ ہوا اور پھر رائج کیا گیا۔ یہ تنسیخ اور رواج بعض کتب کے مطابق سات دفعہ ہوئی۔[15]

کچھ اہل سنت یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور تک جائز رہا۔[16] حضرت جابر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں اور حضرت ابوبکر کے دور میں ہم مٹھی بھر آٹا اور کھجور پر متعہ کرتے رہے ہیں حتی کہ عمر ابن الخطاب نے عمرو بن حریث کے مسئلے کے بعد اس سے منع کر دیا۔[17] اہل سنت کے اس گروہ کے مطابق انھوں نے مفاد عامہ میں یہ کام کیا۔ روایت کے مطابق حضرت عمر نے فرمایا کہ رسول اللہ کے زمانے میں دو متعے حلال تھے جن کو اب میں حرام کرتا ہوں اور ان سے نہ رکنے والے کو سزا دوں گا۔[3][18]۔[19][20] مولانا مودودی تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں کہ متعہ کو حرام قرار دینے یا مطلقاً مباح ٹھہرانے میں سنیوں اور شیعوں کے درمیان میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس میں بحث و مناظرہ نے بے جا شدت پیدا کر دی ہے ورنہ امر حق معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں۔ انسان کو بسا اوقات ایسے حالات سے سابقہ پیش آ جاتا ہے جن میں نکاح ممکن نہیں ہوتا اور وہ زنا یا متعہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ایسے حالات میں زنا سے بہتر ہے کہ متعہ کر لیا جائے۔[21] امام احمد بن حنبل متعہ کو حلال سمجھتے تھے۔[22][23]

اہل تشیع کے مطابق متعہ حلال ہے کیونکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات تک حلال تھا اور صحابہ کرام یہ نکاح کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت حضرت عبد اللہ ابن عباس، حضرت عبد اللہ ابن مسعود، حضرت عمرو بن حریث، حضرت سلمہ بن امیہ، حضرت ابو سعید خدری وغیرہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی نکاح متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔[24] اس کے علاوہ اہل مکہ رسول اللہ کی وفات کے بعد بھی متعہ کو حلال سمجھتے تھے۔[25]

اختلافات کی وجوہات

متعہ النساء کے بارے میں شیعہ اور سنی دونوں جانب کے علما قرآن اور حدیث سے اپنے موقف پر دلائل پیش کرتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس موضوع پر اس قدر اختلاف کیوں پایا جاتا ہے؟ اس کی تفصیلی وضاحت تو ذیل میں دی جا رہی ہے مختصراً اتنا کہنا کافی ہے کہ ؛ دونوں، قرآن کی آیات کی الگ الگ تاویلات و تفاسیر بیان کرتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی بیان کردہ احادیث کی اسناد پر سوال اٹھاتے ہیں اور معاملہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے چکر کھاتا رہتا ہے۔

قرآن سے اختلافی نکات نکالنا

متعہ کے بارے میں شیعہ اور سنی تفرقے والے اپنے اپنے موقف کی دلالت، قرآن سے تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور دونوں ہی اس بات کو (اپنے طور پر) ثابت کر دیتے ہیں کہ

  1. قرآن میں متعہ کی حلت (حلال) کا حوالہ موجود ہے
  2. قرآن میں متعہ کے حلال ہونے کا کوئی حوالہ نہیں
  3. متعہ کی منسوخی کے بارے میں خود قرآن میں واضح آیات ہیں
  4. متعہ کی منسوخی کے بارے میں قرآن میں کوئی آیت نہیں۔

قرآن سے متعہ کی اجازت؟

قطعہ بنام جاری یا منسوخ میں درج سورت النساء کی آیت چوبیس (دیکھیے) کے بارے میں متعدد تفاسیر میں آتا ہے کہ یہ متعہ کے بارے میں ہی نازل ہوئی (حوالہ جات 8 تا 15)۔ مسئلہ اس آیت کے چند الفاظ کے لغوی و شرعی / فقہی مفہوم پر چلایا جاتا ہے؛ شیعہ اور سنی دونوں ہی اس آیت کو اپنے اپنے موقف کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

شیعہ تشریح

اس آیت میں آنے والے لفظ اسْتَمْتَعْتُمْ کے بارے میں (شیعہ) موقف یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ یہ متع کی اصل الکلمہ سے بنا ہوا فعل ہے اور مختلف اسلامی اصطلاحات کی مانند ایک اصطلاح ہے جس سے مراد، صحیح مسلم (کتاب النکاح)۔[26] اور موطا امام مالک سمیت، متعدد کتب میں متعہ ہی لی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ متعہ النساء محض جسمانی شہوت نہیں بلکہ نکاح کی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ شیعہ علما کے مطابق استمتعتم سے نکاح کی مراد یوں ثابت ہوتی ہے کہ آیت میں أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً کے الفاظ (میں شیعہ[27] اور سنی[6] دونوں تراجم قرآن کے مطابق) مہر ادا کرنے کو کہا گیا ہے لہذاٰ اگر یہاں استمتعتم (یعنی متعہ) محض نفسانی خواہش حاصل کرنے کی خاطر کی جانے والی سودے بازی ہو تو پھر قرآن میں مہر کو ادا کرنے کا حکم نا ہوتا کیونکہ مہر ادا کرنا نکاح سے مشروط ہے[28]

سنی تشریح

سنی علما لفظ استمتعتم کو متعہ کے متبادل اصطلاح تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کرتے ہیں کہ متعہ کا لفظ قرآن میں آیا ہی نہیں اور اس سلسلے میں سورت الاحقاف کی آیت بیس کا تذکرہ کرتے ہیں جس کے مطابق استمتعتم کرنے والے ذلت کے عذاب کے مستحق ٹہرتے ہیں؛

أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ
تو ان سے کہا جائے گا ختم کردی تم نے اپنے حصے کی نعمتیں
اپنی دنیا کی زندگی میں ہی اور خوب لطف اٹھایا ان سے لہٰذا آج بدلے میں دیا جائے گا تمھیں ذلت کا عذاب[6]

سورت النساء کی مذکورہ بالا آیت چوبیس کے بارے میں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ استمتعتم چونکہ فعل ہے اس لیے اس کے معنی سیاق و سباق سے پیدا ہوتے ہیں اور اپنے موقف کو متعہ کی منسو‍خی کی بنیاد پر رکھ کر دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہاں استمتعتم سے مراد نکاح کے عہد کی تکمیل اور اس کی مسرت (لطف) ہے کہ مہر ادا کرنے کا ذکر نکاح پر ہی آتا ہے کیونکہ اگر یہ متعہ کا متبادل ہوتا تو سورت النساء میں ستائش کے بعد دوسری جگہ یعنی سورت الاحقاف میں استمتعتم (لطف) کرنے والوں کو عذاب کا مستحق نہیں قرار دیا جاتا۔

قرآن سے متعہ کی منسوخی؟

قرآن کی سورت المومنون کی آیت پانچ اور چھ کے بارے میں (سنی) موقف یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ یہ متعہ کی قرآن سے منسوخی و حرمت واضح کرنے کے لیے کافی ہے جس کے مطابق؛

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ 5 إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ 6
اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں 5 سوائے اپنی بیویوں کے یا
ان (عورتوں) کے جو ان کی ملک میں ہوں کہ وہ (ان سے مباشرت کرنے پر) نہیں ہیں قابلِ ملامت 6 [6]

سنی تشریح

سنی علما کے مطابق متعہ گو کبھی بھی اسلام میں باقاعدہ مستعمل نہیں ہوا لیکن درجہ بہ درجہ تبدیلی کے مرحلہ میں قبل از اسلام کی نشانی کے طور پر ابتدائی اسلام میں درست بھی رہا ہے؛ مگر پھر جب مذکورہ بالا آیت میں موجود إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ کے الفاظ نازل ہوئے تو اس سے متعہ کی آخری منسوخی عمل میں آگئی کیونکہ متعہ کی جانے والی عورت کو زوجہ کا درجہ حاصل نہیں اور نا ہی وہ ملکیت میں ہونا لازم ہے کیونکہ ایسی صورت میں تو کسی (عارضی یا دائمی) نکاح کی حجت نہیں پائی جاتی۔[29]

شیعہ تشریح

ترتیب نزولی کو بنیاد بناتے ہوئے شیعہ علما اس بات پر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اس آیت کو متعہ کی منسوخی کے لیے اختیار کیا جائے تو پھر اس کے نازل ہونے کے بعد بھی رسول اللہ کے عہد میں غزوہ خیبر پر متعہ کے اختتام (منسوخی) کے بارے میں مستند احادیث کیوں ملتی ہیں ،[30] (دیکھیے احادیث سے اختلافی نکات نکالنا)۔ متفقہ طور پر یہ سورت مکی ہے یعنی 622ء سے قبل[31][32] جبکہ صحیح بخاری کی احادیث سے متعہ کی منسوخی غزوہ خیبر 629ء پر سامنے آتی ہے۔ سنی علما مذکورہ بالا آیت کے بارے میں یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ اس سے متعہ کی آخری منسوخی ثابت نہیں ہوتی متعہ کی حرمت رسول اللہ کی سنت پر مبنی ہے[31]۔

علمانی گورکھ دھندا اور بین المذاہب پہلو

شیعہ اور سنی تفرقے والے آپس میں ہی اس علمانی جواب در جواب پر صدیوں سے الجھے ہوئے ہیں لیکن اس معاملے کا ایک بیرون الاسلام یا بین المذاہب پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ (گو بائبل میں بھی عارضی نکاح کے اندراجات ملتے ہیں لیکن اس کے باوجود) غیر مسلم اس مسئلہ کو اپنے مقاصد میں استعمال کرتے ہیں اور شیعہ اور سنی علما کی شرعی اور فقہی گفتگو اور اصطلاحات سے عاری لب و لہجے میں اسلام کو ایک عیاشی اور فحاشی پر ترغیب دینے والا مذہب بنا کر پیش کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے[33]۔ اس قسم کے مواقع پر چونکہ معاملہ قرآن اور بائبل کا آجاتا ہے اس لیے غیر مسلم علمائے اکرام کو جواب دینے کے لیے مسلم علمائے اکرام ایسے نکات نکالتے ہیں کہ جن سے قرآن کی حرمت قائم کی جا سکتی ہو اور انہی کے نکاتِ معترضہ، بائبل میں سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں[34]۔

احادیث سے اختلافی نکات نکالنا

جس طرح مذکورہ بالا قطعے میں دونوں تفرقات (سنی و شیعہ) کے قرآن سے ایک دوسرے کی مخالفت اور اپنی مطابقت کے نکات نکالنے کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے بالکل یہی حال احادیث میں بھی نظر آتا ہے؛ بلکہ یہاں تو ایک معاملہ دلچسپ یہ بھی نظر آتا ہے کے دونوں تفرقے والے اپنی اپنی احادیث کی مستند کتب کو اہمیت دیتے ہیں لیکن جہاں جہاں ایک دوسرے کی مخالفت کا موقع ہاتھ آ رہا ہوں وہاں اپنے مخالف کی مستند کتب احادیث کا سہارا لینے سے بھی نہیں کتراتے۔

ابو بکر کے زمانے میں منسوخی

صحیح مسلم، کتاب النکاح میں ایک حدیث جابر بن عبد اللہ سے بیان ہوتی ہے جس سے (شیعاؤں کے مطابق) سنی مستند حدیث سے متعہ کے نا صرف رسول اللہ کے دور بلکہ اس کے بعد حضرت ابو بکر کے زمانے میں اور پھر حضرت عمر کے دور میں جاری رہنے کا ثبوت ملتا ہے اور قرآن یا حدیث رسول اللہ سے نہیں بلکہ متعہ کی منسوخی حضرت عمر کے حکم سے ہونے کا پتا چلتا ہے۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ،
قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ كُنَّا نَسْتَمْتِعُ بِالْقُبْضَةِ مِنَ التَّمْرِ وَالدَّقِيقِ الأَيَّامَ عَلَى عَهْدِ
رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبِي بَكْرٍ حَتَّى نَهَى عَنْهُ عُمَرُ فِي شَأْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ ہم متعہ کرتے تھے
یعنی عورتوں سے کئی دن کے لیے ایک مٹھی کھجور اور آٹا دے کر
رسول اللہ اور ابو بکر کے زمانہ میں یہاں تک کہ حضرت عمر نے اس سے عمرو بن حریث کا قصہ میں منع کیا۔[35]

اس حدیث پر سنیوں کا موقف ہے کہ حضرت عمر نے منع کیا یعنی اس نسخ کو جو جو رسول اللہ نے حجۃ الوداع میں فرمایا تھا جن کو نہ پہنچا تھا ان کو پہنچا دیا اور وہی رسول اللہ کا اخیر حکم تھا اور اس کے بعد چار ماہ پیچھے رسول اللہ نے انتقال فرمایا[35]۔ اسنادی پہلو ہم وزن کرنے کی غرض سے صحیح مسلم ہی میں چند احادیث متعہ کے بارے میں ایسی درج ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ متعہ کی منسوخی حضرت عمر سے منسوب نہیں کی جا سکتی۔

احادیث مبارکہ اور عالمانہ مضحکہ خیزی

مذکورہ بالا احادیث کے قطعے سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کے شیعہ اور سنی دونوں ایک دوسرے کی احادیث کی کتب پر اپنے اپنے محفوظات رکھنے کے باوجود، تفرقہ بازی کے وقت ایک دوسرے کی کتب احادیث کے استعمال سے دریغ نہیں کرتے۔ اسناد کو ہم وزن رکھ کر بالائی قطعے میں درج کی جانے والی احادیث کے حوالے سے ایک عجیب مضحکہ خیزی سی مضحکہ خیزی دیکھنے میں آتی ہے کے دونوں تفرقے والے اپنے موقف کی مطابقت رکھنے والی احادیث کو ایک دوسرے کو جھٹلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں خواہ وہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں مل جائے لیکن اسی کتاب میں درج ان تمام دوسری احادیث کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جو ان کے موقف سے مطابقت نا رکھتی ہوں۔

احادیث میں اختلاف کیوں؟

متعہ کے بارے میں (بطور خاص سنی کتب الاحادیث میں) تین اقسام کی احادیث نظر آتی ہیں۔

  1. وہ احادیث بھی ہیں جن میں رسول اللہ کی جانب سے متعہ کی اجازت دی گئی ہے۔
  2. وہ احادیث بھی ہیں جن میں متعہ کی عارضی اجازت کے بعد رسول اللہ کی جانب سے اس کی ممانعت کی گئی ہے۔
  3. وہ احادیث بھی ہیں جن میں رسول اللہ کی جانب سے متعہ کی اجازت کے بعد حضرت عمر کے دور تک کبھی اسے منسوخ نہیں کیا گیا۔

یہ تو ایک منطقی اور مسلمہ حقیقت ہے (اور اس سے کوئی مسلم و غیر مسلم انکار نہیں کر سکتا) کہ وہ شخصیت جس نے قرآن انسانوں کے سامنے پیش کیا (یعنی رسول اللہ) وہ کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکتی تھی کہ جو قرآن سے اختلاف رکھتی ہو۔ تو پھر احادیث میں اختلاف کیوں دیکھنے میں آتا ہے؟ اس کا تفصیلی جواب تو کسی متعلقہ مضمون کا طلبگار ہے لیکن یہاں شیعہ اور سنی تفرقوں کے حوالے سے اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ احادیث میں نظر آنے والا (شیعہ سنی) اختلاف، فی الحقیقت (رسول اللہ کے بعد ہونے والی) ایک انسانی پیداوار ہے اور اس کے پس منظر میں شیعہ سنی تفرقوں کی انتہائی ابتدا سے (دیکھیے مسلمانوں میں تفرقات)، نادانستہ و دانستہ دونوں طرح کے محرکات موجود ہونے کا امکان بہرحال (کم از کم تفرقاتی نقطۂ نظر سے ) موجود ہے کیونکہ علم الحدیث کی مکمل آگہی سے بے بہرہ عام انسانوں کی حد تک تو بات سمجھ میں آسکتی ہے کے انھیں احادیث کے فہم پر کامل عبور نہیں لیکن جب بات عالمانہ درجے کی آئے اور وہ بھی یوں کہ شیعہ، سنیوں اور سنی، شیعاؤں کی بیان کردہ احادیث کو ساختہ کہنے میں ہچکچاہٹ سے کام نا لیں تو پھر (نادانستہ ہی سہی) انسانی عمل دخل سے انکار مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک انتہائی اہم پہلو یہ بھی ہے کے احادیث میں نظر آنے والا یہ اختلاف، فی الحقیقت اختلاف نہ ہو لیکن اس کو (کسی ایک یا متعدد نقظۂ نظر کی جانب سے ) اختلاف کی صورت بنا کر پیش کیا جاتا ہو، اس بات کی ایک عمدہ مثال صحیح مسلم (اردو حوالہ) برائے حدیث 3416 (اس کا زیریں حاشیہ) اور پھر اسی حوالے پر موجود حدیث 3431 سے ملتی ہے[35]۔

متعہ کے اصول

اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ چاہے متعہ کیا جائے یا نہیں اسے حلال سمجھا جائے جیسے حلالہ کو حلال سمجھا جاتا ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ کیا بھی جائے۔ اسی لیے اس کا رواج عمومی نہیں۔ متعہ نکاح کے کچھ احکام درج ہیں جو مختلف آیت اللہ اور مجتہدین کے مواقع الجال (ویب سائٹس) پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

  • نکاحِ متعہ میں صیغہ پڑھنا ضروری ہے اور اس میں مہر اور وقت کا معین کرنا لازمی ہے۔
  • نکاح متعہ صرف انہی سے حلال ہے جن سے نکاحِ دائمی حلال ہے۔ مثلاً پہلے سے شادی شدہ یا دورانِ عدت خاتون سے یہ نکاح نہیں ہو سکتا
  • کنواری لڑکی بغیر ولی کی اجازت کے یہ نکاح نہیں کر سکتی
  • نکاح متعہ کو دائمی نکاح میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
  • حقوق کے لحاظ سے متعہ اور دائمی شادی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
  • نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اگلے نکاح سے پہلے عورت کے لیے عدت کا پورا کرنا ضروری ہے == متعہ کے حرام ہونے پر علما کے دلائل ==

محمد اکبر

محمد اکبرکے مطابق:

  • قرآن پاک کی آیات سورة النساء 4 : 24) اورسورة المائدة 5 : 5) میں الفاظ“مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ”آیا کہ جن کا ترجمہ ”عقد میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے بد کار “”نکاح میں لانے والے نہ بد کاری کرنے والے “عارضی نکاح بد کاری ہے کیونکہ اگر کوئی چند دن کے لیے نکاح کرے تو وہ صرف پانی نکالنے والے بد کار میں آئے گا۔[36]

نکاح متعہ اور اصلاح پسند شیعہ علماء

نکاح متعہ کے حوالے سے مشہور اصولی (اہل تشیع) علما جو اپنے مسلک میں اصلاح کی خواہش رکھتے ہیں،ان میں سے اکثر نکاح متعہ کو حرام سمجھتے ہیں۔ ان میں سے آیت اللہ ابوالفضل ابن الرضا برقعی قمی بھی شامل ہیں جنھوں نے ایک مستقل کتاب "تحریم متعہ دراسلام" لکھی ،اس کے علاوہ آیت اللہ برقعی نے اپنی تفسیر قرآن "تابشی از قرآن" میں بھی نکاح متعہ کو اسلام سے متصادم قرار دیا ہے۔ ایک ایرانی مجتہد آیت اللہ یوسف صانعی ہیں جن کا یہ فتوی بہت متنازع بن گیا کہ نکاح متعہ صرف حالت اضطرار میں ہی جائز ہے،باقی صورتوں میں جائز نہیں۔ ان کے علاوہ مشہور پاکستانی عالم دین علامہ آغا علی شرف الدین بلتستانی بھی نکاح متعہ کو حرام بلکہ زنا قرار دیتے ہیں،انھوں نے اپنی کتاب "موضوعات متنوعہ(اجتہاد،متعہ،وسیلہ) " میں ان تمام شیعہ اور سنی روایات کو کمزور اور غیر مستند قرار دیا ہے جو نکاح متعہ کی دلالت کرتے ہیں۔ عراق کے مشہور عالم احمد الکاتب جو کربلا میں مقیم ہیں ان کے نزدیک بھی نکاح متعہ ایک غیر اسلامی اور غیر شرعی عمل ہے۔ حیدر علی قلمداران قمی کا بھی یہی نطریہ تھا کہ یہ نکاح غیر اسلامی ہے۔ ان علما کے علاوہ ڈاکٹر موسی الموسوی جو آیت اللہ اصفہانی کے پوتے ہیں اور انھوں نے اپنی کتاب "الشیعہ والتصحیح" میں اپنا اجازہ اجتہاد بھی شائع کیا ہے،ان کے نزدیک یہ نکاح اب قیامت تک کیلے حرام ہے۔

زیدی اور اسماعیلی شیعہ اور نکاح متعہ

اہل تشیع فرقوں میں سے زیدی اور اسماعیلی فرقے بھی اہل سنت حضرات کی طرح یہی نطریہ رکھتے ہیں کہ نکاح متعہ اگرچہ رسول اللہ ص کے زمانے میں کچھ وقت تک جائز تھا،لیکن بعد میں آپ ص نے اس نکاح کی حرمت کا اعلان فرمایا۔ زیدی شیعوں کی "کتاب الأحكام في الحلال والحرام " جو الإمام الأعظم الهادي إلى الحق يحي بن الحسين بن القاسم بن إبراهيم الرسي عليهم السلام کی تالیف ہے،اس کے مطابق نکاح متعہ کی حرمت کی روایت امام زید بن زین العابدین کی زبانی رسول اللہ ص سے مروی ہے،ان کے نزدیک تمام زیدی ائمہ اہل بیت کے نزدیک نکاح متعہ کی حرمت پر اتفاق ہے۔ چنانچہ "کتاب الأحكام في الحلال والحرام" میں صفحہ 351 پر امام الاعظم الھادی الی الحق یحی بن الحسین علیہ السلام فرماتے ہیں: لا يحل نكاح المتعة لان المتعة إنما كانت في سفر سافره النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم، ثم حرم الله ذلك على لسان رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم، وقد روي لنا عن أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام بما قد صح أن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم نهى عنه۔ وأما من أحتج بهذه الآية ممن استحل الفاحشة من الفرقة المارقة في قول الله عزوجل: ف"ما استمتعتم به منهن فآتوهن أجورهن "فالاستمتاع ہو الدخول بهن على وجه النكاح الصحيح۔ "یعنی نکاح متعہ حلال نہیں کیونکہ رسول اللہ ص نے یہ نکاح سفر میں اس کی اجازت دی،پھر اللہ تعالی نے اس کو رسول اللہ ص کی زبان سے حرام قرار دیا،اور امیرالمومنین علی ع سے صحیح روایت ثابت ہے کہ آپ ص نے نکاح متعہ سے منع فرمایا۔ اور پس جو فرقہ مارقہ اس آیت " فما استمتعتم به منهن فآتوهن أجورهن" سے نکاح متعہ جیسے فحاشی کیلے دلیل نکالتے ہیں تو دراصل یہ آیت نکاح صحیح (نکاح دائمی) کے بارے میں نازل ہوئی۔"

اسماعیلیوں کی انسائیکلوپیڈیا پر نکاح متعہ کے ھوالے سے آخر میں اسماعیلی مصنف یوں رقمطراز ہیں: The Ismailis, Zaidis or the Sunnis reject muta. اسماعیلی،زیدی اور اہل سنت نکاح متعہ کو مسترد کرتے ہیں (حرام سمجھتے ہیں)۔[37]

شیعہ کتب سے متعہ کے متعلق احادیث

علی بن اسباط سے محمد بن عذافر سے اور انھوں نے اس شخص سے جس نے ان سے بیان کیا اور اس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کے ہے ان کا بیان ہے کہ میں نے آنجناب علیہ السلام سے باکرہ عورت سے متعہ کرنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اس کو مباح ان (باکرہ عورتوں) کے لیے ہی کیا گیا ہے (کسی اور کے لیے نہیں ہے). خیر اگر کرنا ہے اس کو لوگوں سے چھپا کر کرو اور اس کی عفت اور پاکدامنی کا خیال رکھو (اور صیغہ متعہ پڑھ لو)۔<ref>من لا یحضره الفقیہ جلد سوم، حدیث نمبر 4611<ref>

ابان بن ابی مریم اور انھوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا وہ کنواری لڑکی جس کا باپ موجود ہو اس کے باپ کی اجازت کے بغیر اس سے متعہ نہیں کیا جائے گا۔<ref>من لایحضرہ الفقیہ جلد سوم حدیث نمبر 4593<ref>

مزید دیکھیے

ویکی شیعہ کا ربط

حوالہ جات

  1. صحیح بخاری کتاب النکاح روایت حضرت عبد اللہ بن مسعود
  2. صحیح المسلم کتاب باب المتعہ حدیث 3248
  3. ^ ا ب پ تفسیر کبیر از فخر الدین الرازی
  4. ^ ا ب تفسیر در منثور از جلال الدین سیوطی
  5. ایک آن لائن عربی لغت پر متعہ کی اساس متع کا اندراج
  6. ^ ا ب پ ت ٹ اس مضمون میں آیات کے تراجم اس قرآن آن لائن آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ asanquran.com (Error: unknown archive URL) سے لیے گئے ہیں
  7. "صحیح البخاری"۔ 16 اگست 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2009 
  8. "تفسیر ابن کثیر از عماد الدین ابن کثیر در تفسیر آیت 24 سورۃ النساء"۔ 03 جون 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2009 
  9. آن لائن تفسیر طبری آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ quran.al-islam.com (Error: unknown archive URL)
  10. تفسیر جامع البنیان از معین الدین محمد شافعی
  11. تفسیر مراغی از احمد مصطفیٰ مراغی
  12. تفسیر جلالین از ابراھیم محلی
  13. تفسیر بیضاوی
  14. تفسیر کبیر جلد 3 از فخر الدین الرازی
  15. تفسیر قرطبی از علامہ قرطبی جلد 5 صفحہ 120
  16. زاد المعاد از ابن قیم جوزی جلد 2 صفحہ 205 ذکر فتح مکہ
  17. صحیح مسلم
  18. سنن کبریٰ المعروف بہ سنن نسائی
  19. کنز العمال فی سنن اقوال والافعال از علا الدین علی بن الحسام المعرف متقی ھندی
  20. احکام القران از محمد ادریس الشافعی
  21. تفہیم القران ازابوالاعلیٰ مودودی اگست 1955
  22. تفسیر ابن کثیر سورۃ النساء آیت 24
  23. البدایۃ والنہایۃ از اب کثیر صفحہ 194
  24. نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار از محمد بن علی بن محمد الشوکانی
  25. فتح الباری شرح صحیح البخاری از ابن حجر عسقلانی
  26. صحیح مسلم 3488 میں استمتعتم کا استعمال
  27. قرآن آن لائن کا ایک شیعہ موقع
  28. علامہ سید محمد طباطبائی تفسیر المیزان
  29. Ahya.org آن لائن مضمون آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ahya.org (Error: unknown archive URL)
  30. Was Mut'ah abrogated by the Quran آن لائن مضمون آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ answering-ansar.org (Error: unknown archive URL)
  31. ^ ا ب تفہیم القرآن از مولانا مودودی آن لائن مضمون
  32. Al Islam نامی موقع پر مکی آیات کی نزولی ترتیب آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ quran.al-islam.com (Error: unknown archive URL)
  33. Revisiting Muhammad’s Permitting a Form of Prostitution known As Muta آن لائن مضمون
  34. Is Muta (Temporary Marriage) allowed in Islam آن لائن مضمون
  35. ^ ا ب پ صحیح مسلم حدیث 3482 عربی میں اور حدیث 3416 اردو میں (muslim4.pdf نامی فائل)
  36. نکاح و طلاق
  37. MUTA | Ismaili.NET - Heritage F.I.E.L.D