نفس کی جمع انفس ہے۔ نفس ذات شے کو کہتے ہیں خواہ جو ہر ہو یا عرض۔ (جو بذات خود قائم ہو وہ جوہر ہے عرض وہ چیز جو دوسری چیز کی وجہ سے قائم ہو)۔ نفس سے مراد جان یا روح انسانی ہے اسی کو ادراک کہتے ہیں اور وہی دراصل انسان ہے اور یہ جسم اکتساب کمالات کے لیے اس کا آلہ ہے اور، نفوس انسانیہ اپنی استعداد وفیضان کے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات پر ہوتے ہیں نفسانسان کا جسم مٹی اور روح کا مرکب ہے۔ روح کا تعلق انسان کے دل سے ہوتا ہے جبکہ نفس کا تعلق جسم سے ہوتا ہے۔ نفس اور روح کا کام علیحدا علیحدا ہوتا ہے۔ روح تو انتہائی پاکیزہ اور بلند درجہ رکھتی ہے مگر نفس کے تین درجے ہیں۔ جن کو ہم نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کا نام دیتے ہیں۔

  • حافظ ابن عبد البر (رح) نے التمہید میں ایک حدیث نقل کی ہے اسی کو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں بھی تخریج فرمایا۔
  • ان اللہ تعالیٰ خلق ادم وجعل فیہ نفسا وروحا فمن الروح عفافہ وفھمہ، وحلمہ وجودہ وسخاۂ ووفاۂ۔ ومن النفس شھوتہ وغضبہ وسفھہ وطیشہ :* کہ اللہ رب العزت نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور اس میں نفس بھی رکھا اور روح بھی تو روح سے انسان کی عفت و پاکدامنی اس کا علم وفہم اور اس کا وجودوکرم اور وفاء عہد ہے اور نفس سے اس کی شہوت اس کا غضب اور برافروختگی ہے۔
  • حدیث کا مضمون نفس اور روح مختلف ہونے دلالت کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ نے دو متضاد اور مختلف قوتیں پیدا کی ہیں ایک قوت اس کو خیر پر آمادہ کرنیو الی ہے جس کا نام روح ہے اور دوسری قوت شر پر آمادہ کرنے والی ہے اس کو نفس کہتے ہیں [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر معارف القرآن مولاناادریس کاندہلوی