جس شخص پر حج فرض ہو یا اس نے حج کی نذر مانی ہو اور وہ خود حج کرنے پر قادر ہو، اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا فرض حج یا نذر مانا ہوا حج کسی سے گرائے اور نفلی حج کی دو صورتیں ہیں :

  1. اس نے حجۃ الاسلام نہیں کیا توہ وہ نہ خود نفلی حج کر سکتا ہے نہ کسی سے نفلی حج کرا سکتا ہے۔
  2. اس نے حجۃ الاسلام کر لیا ہے تو وہ کسی سے نفلی حج کراسکتا ہے خواہ وہ حج کر سکتاہو یا عاجز ہو۔ امام ابو حنیفہ کا بھی یہی مذہب ہے۔[1]

آزاد بالغ آدمی کی طرف سے نفلی حج کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ فرض حج ادا کر چکا ہو، کیونکہ فرض حج مقدَّم ہے پھراس حج کی قضاء ہے جسے حالتِ وقوف میں فاسد کیا ہو، پھر نذر کا حج، پھر دوسرے کی نیابت میں حج کرنا اور اس کے بعد نفلی ہے۔ یہ ترتیب ضروری ہے اور حج اسی ترتیب سے واقع ہوگا اگرچہ اس کے خلاف نیت کرے ۔

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر تبیان القرآن، غلام رسول سعیدی،النجم،39
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔