گھٹیا ، کھجور کی گٹھلی کے اوپر کا چھلکا۔ مراد حقیر ترین چیز
ابن جریر و ابن المنذر و ابن ابو حاتم نے پانچ طریق سے ابن عباس سے روایت کیا کہ نقیر وہ نقطہ ہے جو گٹھلی کی پیٹھ پر ہوتا ہے۔ ابن عباس سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے نقیر کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ گٹھلی کی پشت پر جو گڑھا ہوتا ہے اس کو نقیر کہتے ہیں اور اسی سے کھجور کا درخت اگتا ہے پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو شاعر کا قول نہیں سنا۔ ولیس الناس بعدک فی نقیر ولیسوا غیر اصداء وھام ترجمہ : تیرے بعد لوگ معمولی حالت میں نہیں ہیں اور صدائے بازگشت اور کھوپڑیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ابن عباس سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ’’ فاذا لا یؤتون الناس نقیرا‘‘ کے بارے میں بتائیے کہ نقیر کیا چیز ہے؟ تو انھوں نے فرمایا گٹھلی کی پشت پر جو نشان ہوتا ہے اسے نقیر کہتے ہیں اور اس کے بارے میں شاعر نے کہا۔ لقد رزحت کلاب بنی زبیر فما یعطون سائلہم نقیرا ترجمہ : یقیناً بنی زبیر کے کتے کمزوری کی وجہ سے زمین پر گرے پڑے ہیں وہ اپنے سائل کو معمولی چیز بھی نہیں دیتے۔ یہ نقیر ہے اور اپنے انگوٹھے کے سرے کو شہادت کی انگلی کے اندرونی حصہ پر رکھا پھر اس سے چٹکی بجائی۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر در منثور جلال الدین سیوطی،النساء 51