عبد اللہ بن عباس
عبد اللہ بن عباس ( 3 قبل ہجرت تا 68ھ مطابق 618ء تا 687ء) ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔ انہوں نے اپنی کم سنی اور نو عمری کے باوجود حصولِ علم کے ہر طریقے کو اختیار کیا اور اس راہ میں انتہائی جاں فشانی اور ان تھک محنت سے کام لیا۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چشمہ صافی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھر سیراب ہوتے رہے۔ آپ کے وصال کے بعد وہ باقی ماندہ علما صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے بھرپور استفادہ فرمایا۔ وہ اپنے شوقِ علم کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
عبد اللہ بن عباس | |
---|---|
(عربی میں: عبد الله بن عبَّاس) | |
![]() |
|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 619[1][2][3] مکہ[4] |
وفات | سنہ 687 (67–68 سال)[1] طائف[4] |
شہریت | ![]() ![]() |
عارضہ | اندھا پن |
اولاد | علی بن عبد اللہ بن عباس |
والد | عباس بن عبد المطلب |
والدہ | لبابہ بنت حارث |
بہن/بھائی | فضل ابن عباس، تمام بن عباس، قثم بن عباس، معبد ابن عباس، عبد الرحمن بن العباس، کثیر بن عباس، ام حبيب بنت عباس |
عملی زندگی | |
استاذ | محمد بن عبداللہ |
تلمیذ خاص | عطاء بن ابی رباح، وہب بن منبہ، طاؤس بن کیسان، انس بن مالک، قاسم بن محمد بن ابی بکر، محمد بن سیرین، مجاہد بن جبیر، بکیر بن الاخنس السدوسی |
پیشہ | مفسر قرآن، مورخ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی[5] |
شعبۂ عمل | اسلامی الٰہیات، تفسیر قرآن، فقہ |
کارہائے نمایاں | تنویر المقباس |
درستی - ترمیم ![]() |
” | جب کسی صحابی کے متعلق مجھے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوئی حدیث ہے تو میں قیلولہ کے وقت دوپہر میں ان کے دروازے پر پہنچ جاتا اور اپنی چادر کو سرہانے رکھ کر ان کے گھر کی چوکھٹ پر لیٹ جاتا۔ اس وقت دوپہر کی تیز اور گرم ہوائیں بہت سا گردو غبار اڑا کر میرے اوپر ڈال دیتیں۔ حالانکہ اگر میں ان کے گھر داخل ہونے کی اجازت مانگتا تو مجھے اجازت مل جاتی۔ لیکن میں ایسا اس لیے کرتا تھا کہ ان کی طبیعت مجھ سے خوش ہو جائے، جب وہ صحابی گھر سے نکلتے اور مجھے اس حال میں دیکھتے تو کہتے؛ ابن عمِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! آپ نے کیوں یہ زحمت گوارا کی، آپ نے میرے یہاں اطلاع بھجوا دی ہوتی، میں خود حاضر ہو جاتا لیکن میں جواب دیتا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا زیادہ حقدار ہوں کیونکہ حصول علم کے لیے صاحب علم کے پاس جایا جاتا ہے۔صاحب علم خود طالب علم کے پاس نہیں جایا کرتے۔ پھر میں ان سے حدیث پوچھتا۔ [6] | “ |
نام و نسب ترميم
آپ کا نام عبد اللہ، ابوالعباس کنیت تھی۔ آپ کے والد کا نام عباس بن عبدالمطلب اور والدہ کا نام ام الفضل لبابہ تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
آپ کے والد عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سگے چچا تھے۔ اس طرح آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ابنِ عم تھے۔ آپ اُم المومنین میمونہ بنت حارث کے خواہرزادہ تھے کیونکہ آپ کی والدہ اُم الفضل اور میمونہ بنت حارث حقیقی بہنیں تھیں۔
پیدائش ترميم
عبد اللہ ابن عباس کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران میں ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہ آپ کو بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے منہ میں اپنا لعابِ دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔
قبولِ اسلام ترميم
آپ کے والد عباس نے اگرچہ فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا، لیکن آپ کی والدہ اُم الفضل نے ابتدا میں ہی داعی توحید کو لبیک کہا تھا۔ اس لیے آپ کی پرورش توحید کے سائے میں ہوئی۔
ہجرت ترميم
عبد اللہ بن عباس 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔
عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول ترميم
آپ کی مصاحبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جو زمانہ پایا، دراصل وہ آپ کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ تاہم آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت میں اکثر رہتے۔ ام المومنین میمونہ آپ کی خالہ تھیں اور آپ سے بہت شفقت رکھتیں تھیں اس لیے آپ اکثر ان کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور کئی مرتبہ رات میں ان کے گھر پر ہی سو جاتے تھے۔ اس طرح ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا۔ آپ ایسے ہی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
” | ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لاۓ اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوۓ، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدار ہوۓ اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کر لیا۔[7] | “ |
آپ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا ترميم
اسی طرح ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز کے لیے بیدار ہوئے تو عبد اللہ بن العباس نے وضو کے لیے پانی لا کر رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وضو سے فراغت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔ سیدہ میمونہ نے عبد اللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خوش ہو کر یہ دعا دی۔
” | اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ
یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا[8][9][10] |
“ |
خلفائے راشدین کا عہد ترميم
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ صرف تیرہ برس کے تھے کہ حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے اس دارِ فانی سے رحلت فرمائی، سوادوبرس کے بعد خلیفہ اول نے بھی داغِ مفارقت دیا، خلیفہ دوم یعنی حضرت عمر فاروق ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے تو وہ سنِ شباب کو پہنچ چکے تھے، حضرت عمرؓ نے ان کو جوہر قابل پاکر خاص طور سے اپنے دامن تربیت میں لے لیا اوراکابرصحابہ ؓ کی علمی صحبتوں میں شریک کیا، یہاں تک کہ لوگوں کو اس پر رشک ہوتا تھا، صحیح بخاری میں خود حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ مجھ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے، اس پر بعض بزرگوں نے کہا کہ آپ اس نوعمر کو ہمارے ساتھ کیوں شریک کرتے ہیں اورہمارے لڑکوں کو جوان کے ہمسر ہیں کیوں یہ موقع نہیں دیتے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا، یہ وہ شخص ہے جس کی قابلیت تم کو بھی معلوم ہے۔ [11] محدث ابن عبدالبر استیعاب میں تحریر فرماتے ہیں "کان عمر یحب ابن عباس ویقربہ" یعنی حضرت عمرؓ ابن عباس ؓ کو محبوب رکھتے تھے اور ان کو تقرب دیتے تھے، بسااوقات حضرت عمرؓ کی مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا، عبد اللہ بن عباس ؓ اس کا جواب دیناچاہتے؛ لیکن کم سنی کی وجہ سے جھجکتے، حضرت عمر ؓ ان کی ہمت بندھاتے اورفرماتے علم سن کی کمی اورزیادتی پر موقو نہیں ہے تم اپنے نفس کو حقیر نہ بناؤ، [12] حضرت عمرؓ اکثر پیچیدہ اورمشکل مسائل ان سے حل کراتے تھے اوران کی فطری ذہانت وطباعی سے خوش ہوکر داد دیتے تھے، انشا اللہ علم وفضل کے بیان میں اس کی تفصیل آئے گی۔ خلیفہ ثالث کے عہد میں عبد اللہ بن ابی سرح والیٔ مصر کے زیر اہتمام 27ھ میں افریقہ پر فوج کشی ہوئی، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ایک جماعت کے ساتھ مدینہ منورہ سے چل کر اس مہم میں شریک ہوئے اورایک سفارت کے موقع میں جرجیر شاہِ افریقہ سے مکالمہ ہوا، اس کو ان کی ذہانت وطباعی سے نہایت حیرت ہوئی اور بولا میں خیال کرتا ہوں کہ آپ "حبرعرب" (عرب کے کوئی عالم متبحر) ہیں۔ [13]
امارت حج ترميم
چونکہ 35ھ میں حضرت عثمان ؓ محصور تھے اس لیے اس سال وہ خود امارتِ حج کا قرض انجام نہ دے سکے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو بلاکر فرمایا، خالدبن عاس کو میں نے مکہ کا والی مقرر کیا ہے، میں ڈرتا ہوں کہ امارتِ حج کے فرائض انجام دینے پر شاید ان کی مزاحمت کی جائے اوراس طرح خانۂ خدا میں فتنہ و فساد اٹھ کھڑا ہو اس لیے میں تم کو اپنا قائم مقام بنا کر بھیجتا ہوں۔ [14] حضرت عبد اللہ ؓ اس خدمت کو سر انجام دے کر واپس آئے تو مدینہ نہایت پر آشوب ہورہا تھا، خلیفہ ثالث شہید ہوچکے تھے اور حضرت علی ؓ کو بارِ خلافت اٹھانے پر لوگ مجبور کر رہے تھے انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت علیؓ نے کہا:خلافت کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ میں خیال کرتا ہوں کہ اس حادثہ عظیم کے بعد کوئی شخص اس بار کو اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا یہ ضرور ہے کہ اب جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی اس پر خونِ ناحق کا اتہام لگایا جائے گا، تاہم لوگوں کو اس وقت آپ کی ضرورت ہے۔ غرض اہل مدینہ کے اتفاقِ عام سے حضرت علی ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے اورنئے سرے سے ملکی نظم ونسق کا اہتمام شروع ہوا، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے مشورہ دیا کہ سردست موجودہ عمال وحکام برقراررکھے جائیں؛ لیکن جب حضرت علی ؓ نے سختی کے ساتھ اس سے انکار کیا تو انہوں نے دوسرے روز اپنی رائے واپس لے لی اورکہا امیر المومنین میں نے رائے دینے کے بعد غور کیا تو آپ ہی کا خیال انسب نظر آیا، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فوراً اصل حقیقت کوتاڑ گئے اوربولے میرے خیال میں مغیرہ کی پہلی رائے خیر خواہی پر مبنی تھی، لیکن دوسری دفعہ انہوں نے آپ کو دھوکا دیا۔ حضرت علی نے پوچھاؓ خیر خواہی کیاتھی؟حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے جواب دیا: آپ جانتے ہیں کہ معاویہ اوران کے احباب دنیا دار ہیں، اگر آپ ان کو برطرف کر دیں گے تو وہ تمام ملک میں شورش و فتنہ پردازی کی آگ بھڑکادیں گے اوراہل شام وعراق کو خلیفہ ثالث کے انتقام پر اُبھارکر آپ کے خلاف کھڑاکردیں گے۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ تمہاری رائے مصالح دنیاوی کے لحاظ سے نہایت صائب ہے؛ تاہم میرا ضمیر اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں جن لوگوں کی بداعمالیوں سے واقف ہوں ان کو اپنے عہدوں پر برقرار رہنے دوں، خدا کی قسم میں کسی کو نہ رہنے دوں گا، اگر سرکشی کریں گے تو تلوار سے فیصلہ کروں گا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے کہا:میری بات مانیے گھر کا دروازہ بند کرکے بیٹھ جایے یا اپنی جاگیر پرمنبع چلے جائیے، لوگ تمام دنیا کی خاک چھان ماریں گے، لیکن آپ کے سوا کسی کو خلافت کے لائق نہ پائیں گے، خدا کی قسم اگر آپ ان مصریوں کا ساتھ دیں گے تو کل ضرور آپ پر عثمان ؓ کے خون کا اتہام لگایا جائے گا۔ حضر ت علی ؓ نے کہااب کنارہ کش ہونا میرے امکان سے باہر ہے۔ حضرت علی ؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو امیر معاویہ ؓ کی بجائے شام کا والی مقرر کرنا چاہا، لیکن انہوں نے انکار کیا، اوربار بار یہی مشورہ دیا کہ آپ معاویہ ؓ کو برقرار رکھ کر اپنا طرفدار بنالیجئے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے برہم ہو کر نہایت سختی سے انکار کر دیا اورفرمایا خدا کی قسم یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ [15] غرض اس تشدد آمیز طرزِ عمل پر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ واقعہ بن کر سامنے آیا، تمام ملک میں جناب امیر ؓ کے خلاف مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی، ایک طرف حضرت طلحہ ؓ، حضرت زبیر ؓ اورحضرت عائشہ ؓ نے مطالبہ اصلاح وانتقام کا علم بلند کرکے بصرہ پر قبضہ کر لیا اور دوسری طرف امیر معاویہ ؓ نے شام میں ایک عظیم الشان جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔
جنگ جمل ترميم
حضرت علی ؓ بصرہ کو محفوظ رکھنے کے خیال سے ایک فوجِ گراں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے، لیکن وہ پہلے داعیانِ اصلاح کے قبضہ میں آچکا تھا، اس لیے طرفین نے میدان ذی قار میں صف آرائی کی، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ جناب امیر ؓ کی طرف سے اہل حجاز کی افسری پر مامور ہوئے اورجنگ شروع ہونے پر نہایت شجاعت وجانبازی کے ساتھی نبرد آزما ہوئے، یہاں تک کہ حامیانِ عرشِ خلافت کی فتح پر اس افسوس ناک خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔
ولایت بصرہ ترميم
بصرہ پر دوبارہ قبضہ ہونے کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ یہاں کے گورنر بنائے گئے اورزیاد ان کے مشیر اوربیت المال کے مہتمم مقرر ہوئے۔
معرکۂ صفین ترميم
جنگ جمل کے بعد امیر معاویہ ؓ سے معرکہ صفین پیش آیا، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بصرہ سے ایک جماعت فراہم کرکے جناب امیر ؓ کی حمایت میں میدانِ جنگ میں پہنچے اور نہایت جانبازی وپامردی کے ساتھ سرگرمِ کارزار ہوئے، حضرت علی ؓ نے ان کو میسرہ کا افسر مقرر فرمایا تھا۔ چونکہ دنوں طرف سے روزانہ تھوڑی تھوڑی فوجیں نکل کر معرکہ آرا ہوتی تھیں، اس لیے اس جنگ کا سلسلہ طویل عرصہ تک قائم رہا، لیکن رفتہ رفتہ حامیانِ خلافت کا پلہ بھاری ہونے لگا یہاں تک کہ ایک روز شامی فوجوں نے شکست کے خوف سے اپنے نیزوں پر قرآن مجید بلند کر کے صلح کی دعوت دی، گوجناب مرتضیٰ ؓ اوران کے چاہنے والوں نے اپنی فوج کو اس دامِ تزویز سے محفوظ رکھنے کی بے پناہ کوشش کی تاہم مخالف کا جادو چل چکا تھا، ایک بڑی جماعت نے دعوتِ قرآن کو تسلیم کرنے پر اصرار کیا۔
ثالثی اوراس کا حشر ترميم
غرض جنگ ملتوی ہو گئی اور مسئلہ خلافت کا فیصلہ دوحکم پر محمول ہوا، شامیوں نے حضرت عمروبن العاص ؓ کو حکم مقرر کیا اوراہلِ عراق کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا انتخاب ہوا، حضرت علی ؓ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو ثالث بنانا چاہتے تھے؛ لیکن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اورکہا آپ اورعبداللہ بن عباس ؓ ایک ہی ہیں حکم کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ دونوں فریق کے اتفاق سے دومۃ الجندل حکمین کے لیے مقامِ اجلاس قرارپایا اورہر ایک نے اپنے حکم کے ساتھ چارہزار آدمیوں کی جمعیت ساتھ کردی، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے ساتھ جو فوج گئی تھی اس کے افسر شریح بن ہانی اورمذہبی نگران حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ تھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نہایت نیک طینت وسادہ مزاج تھے وہ جب تخلیہ میں حضرت عمروبن العاص ؓ سے کسی فیصلہ پر متفق ہوکر باہر تشریف لائے تو حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے ان سے کہا، خدا کی قسم! مجھے یقین ہے کہ عمرو نے آپ کو دھوکا دیا ہوگا اگر کسی رائے پر اتفاق ہوا ہو توآپ ہرگز اعلان میں سبقت نہ کیجئے گا وہ نہایت چالاک ہیں، کیا عجب ہے کہ آپ کے بیان کی مخالفت کربیٹھیں، بولے، ہم دونوں ایک ایسی رائے پر متحد ہوئے ہیں کہ اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں، غرض دوسرے روز مسجد میں مسلمانوں کا مجمع ہوا، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے حضرت عمرو بن العاص ؓ کے اصرار پر کھڑے ہوکر یہ متفق علیہ فیصلہ سنایا۔ صاحبو!ہم نے علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں کو معزول کرکے پھر نئے سرے سے مسلمانوں کو مجلسِ شوریٰ کے انتخاب کا حق دیا وہ جس کو چاہے اپنا امیر بنائے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ نہایت صحیح ثابت ہوا، عمروبن العاص ؓ نے قرارداد سے منحرف ہوکر کہا، صاحبو! بے شک علی ؓ کو جیسا کہ ابوموسیٰ نے معزول کیا، میں بھی معزول کرتا ہوں؛ لیکن معاویہ ؓ کو اس منصب پر قائم رکھتا ہوں؛ کیونکہ وہ امیر المومنین عثمان ؓ کے ولی اورخلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ ؓ اس خلاف بیانی پر ششدرہ گئے، چلاکرکہنے لگے یہ کیا غداری ہے؟ یہ کیا بے ایمانی ہے؟افسوس !ابن عباس ؓ نے مجھے عمروکی غداری سے ڈرایاتھا؛لیکن میں نے اس پر اطمینان رکھا، مجھے کبھی یہ گمان نہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی خیر خواہی پر کسی چیز کو ترجیح دیں گے، غرض اسی ثالثی نے گتھی کو سلجھانے کی بجائے اورزیادہ الجھادیا، جناب امیر ؓ کے اعوان وانصار میں تفریق واختلاف کی ہوا چل گئی اورایک بڑی جماعت نے لشکر حیدری سے کنارہ کش ہوکر خارجی فرقہ کی بنیاد ڈالی، اس کا عقیدہ تھا کہ معاملاتِ دین میں حکم مقرر کرنا کفر ہے، اس بنا پر دونوں حکم اوران کے انتخاب کرنے والے کافر ہیں۔ [16]
حضرت علی ؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو خارجیوں کے پاس بھیجا کہ بحث ومباحثہ سے ان کی ضلالت دورکردیں، لیکن قلوب تاریک ہوچکے تھے، آنکھوں پر ضلالت وگمراہی کا پردہ پڑچکا تھا، اس لیے ارشادوہدایت کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ معرکہ نہروان خارجیوں نے نہروان میں مجمتع ہوکر عملاً سرکشی اختیار کی اورتمام ملک میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کر دیا، حضرت علی ؓ دوبارہ شام پر فوج کشی کے خیال سے روانہ ہوچکے تھے، ان سرکشوں کا حال سن کر نہروان کی طرف پلٹ پڑے، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ گورنری کے عہد پر بصرہ پہنچ گئے تھے، وہ وہاں سے تقریباً ًسات ہزار کی جمعیت فراہم کرکے مقام نخیلہ میں افواجِ خلافت سے مل گئے اورنہروان پہنچ کر نہایت بہادری وپامردی کے ساتھ سرگرم پیکار ہوئے۔ [17]
ایران کی حکومت ترميم
جنگِ نہروان نے گوخارجیوں کا زورتوڑدیا تھا تاہم ان کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے فارس، کرمان اورایران کے دوسرے اضلاع میں پھیل کر ایک عام شورش برپا کردی اورذمیوں کو بھڑکا کر آمادہ بغاوت کر دیا، چنانچہ ایران کے اکثر صوبوں میں عمال نکال دیے گئے، اورعجمیوں نے خراج اداکرنے سے قطعاً انکار کر دیا، حضرت علی ؓ نے اپنے تمام عمال کو بلا کر اس شورش کے متعلق مشورہ طلب کیا، حضرت عبد اللہ ؓ نے کہا میں ایران میں تسلط قائم کرنے کا ذمہ لیتا ہوں؛ چونکہ بصرہ ایران کے باغی اضلاع سے بالکل متصل تھا اوروہ ایک عرصہ سے وہاں کامیابی کے ساتھ گورنری کے فرائض انجام دے رہے تھے، اس لیے حضرت علی ؓ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اوران کو تمام ایران کا حاکم اعلیٰ بنادیا۔ [18]
بغاوت کا استیصال ترميم
حضرت عبد اللہ ؓ نے بصرہ پہنچ کر زیاد بن ابیہ کو ایک زبردست جمعیت کے ساتھ ایران کی بغاوت فروکرنے پر مامور فرمایا، چنانچہ انہوں نے بہت جلد کرمان، فارس اورتمام ایران میں امن وسکون پیدا کر دیا۔ [19]
مکہ میں عزلت نشینی ترميم
ایک روایت کے مطابق40ھ یعنی حضرت علی ؓ کی زندگی ہی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بصرہ کے عہد امارت سے مستعفی ہوکر مکہ میں عزلت نشینی اختیار کرلی، وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور ابواسوددئلی قاضیِ بصرہ میں باہم مخالفت تھی، ابو الاسود نے بارگاہ خلافت میں ان کی شکایت لکھی کہ انہوں نے بیت المال میں تصرف بے جا کیا ہے، حضرت علی ؓ نے ان سے جواب طلب کیا تو انہوں نے لکھا: ان الذی بلغک وباطل وانی لماتحت یدی ضابط قائم لدولد حافظ فلا تصدق الظنون آپ کو جو خبر ملی ہے وہ قطعا غلط ہے، میرے قبضہ میں جو کچھ ہے میں اس کا محافظ ونگہبان ہوں، آپ ان بدگمانیوں کو باورنہ فرمائیں۔ حضرت علی ؓ نے اس کے جواب میں ان سے بیت المال کا تمام وکمال حساب طلب کیا، عبد اللہ بن عباس ؓ کو یہ ناگوار گزار، انہوں نے برداشتہ خاطر ہوکر لکھا۔ فهمت تعظيمك مرزأة ما بلغك أني رزأتہ من مال أهل هذا البلد فابعث إلى عملك من أحببت فإني ظاعن عنہ والسلام [20] میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس شکایت کو کہ میں نے اس شہروالوں کے مال میں کچھ خورد برد کیا ہے، زیادہ اہمیت دینا چاہتے ہیں، اس لیے آپ اپنے کام پر جس کو چاہے بھیج دیجئے میں اس سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔ ایک دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے جب زیادہ باز پرس کی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ ابھی میں نے اپنا پورا حق نہیں لیا ہے اور بیت المال سے ایک بڑی رقم لے کر مکہ چلے گئے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ حضرت علی ؓ کی شہادت تک بصرہ کی گورنری پر مامور تھے، البتہ جب حضرت امام حسین ؓ اورامیر معاویہ ؓ میں مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی تو انہوں نے بطور حفظ ما تقدم پہلے ہی امیر معاویہ ؓ کو خط لکھ کر جان و مال کی امان حاصل کی اورمکہ جاکر گوشہ نشین ہو گئے۔ [21]
حضرت امام حسین ؓکو کوفہ جانے سے منع کرنا ترميم
60ھ میں امیر معاویہ ؓ کے بعد جب یزید مسند نشین حکومت ہوا تو شیعانِ علی مرتضیٰ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو اس انقلاب سے فائدہ اٹھانے پر ابھارا اورکوفہ آنے کی دعوت دی، چنانچہ وہ مدینہ سے مکہ آئے اوریہاں سے عازم کوفہ ہوئے۔ چونکہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کوفیوں کی غداری کا دیرینہ تجربہ رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو بہ اصرار کوفہ جانے سے منع کیا اورکہا: عبد اللہ بن عباسؓ: اے ابن عم میں اپنے دل کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں؛لیکن وہ نہیں ہوتا، اس طریقہ سے جانے میں مجھ کو تمہاری ہلاکت وتباہی کا خوف ہے، اہل عراق نہایت غدار ہیں، تم ان کے قول وقرار پر اعتبار نہ کرو، تم اہل حجاز کے سردار ہو، اس لیے کوفہ جانے سے یہاں مقیم رہنا زیادہ مناسب ہے، ہاں اگر اہل کوفہ درحقیقت تمہارے عقیدت کیش ہیں تو ان کو لکھو کہ وہ پہلے اپنے ملک سے دشمن کو نکال باہرکریں، پھران کے پاس جاؤ، اگر یہ منظور نہ ہوتو یمن کی راہ لو، وہاں بہت سے قلعے اورگھاٹیاں ہیں، ملک نہایت وسیع وفراخ ہے اورتمہارے والد کا اثر بھی خاصہ ہے، علاوہ ازیں دشمن کے دورہونے کے باعث لوگوں سےمراسلت ومکاتبت کرسکتے ہو اورتمام ملک میں اپنے داعی پھیلا سکتے ہو، مجھے امید ہے کہ اس طرح زیادہ آسانی واطمینان کے ساتھ تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ حضرت امام حسین ؓ: اے ابن عم! خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ آپ میرے سچے خیر خواہ مہربان ہیں؛لیکن اب سفر کوفہ کی تیاریاں ہوچکی ہیں اور میں نے وہاں جانے کا عزم مصمم کر لیا ہے۔ عبد اللہ بن عباس ؓ اگر تم جاتے ہو تو خدارا بیوی، بچوں کو ساتھ نہ لے جاؤ، خدا کی قسم مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم بھی اس طرح نہ شہید کیے جاؤ جس طرح حضرت عثمان ؓ اپنی عورتوں اوربچوں کے سامنے ذبح کیے گئے۔ لیکن مشیتِ الہی میں کس کو دخل تھا، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے ضدواصرار کے باوجود حضرت امام حسین ؓ اپنے تمام خاندان کے ساتھ راہی کوفہ ہوئے اورمیدان کربلانے وہ خونیں منظر پیش کیا جس سے جگرپاش پاش ہوتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو اپنے خاندان کی تباہی کا جو روح فرسا صدمہ ہوا ہوگا اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے؟ وہ بیس سال سے گوشہ نشین تھے؛ لیکن اس واقعہ کے بعد تمام دنیا ان کے سامنے تیرہ و تار تھی، بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اخیر عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔[22]شاید اسی جگر خراش سانحہ کا اثر ہو۔ عبد اللہ بن زبیر ؓ کی بیعت سے انکار اسی سال حضرتِ عبد اللہ بن زبیر ؓ نے مکہ میں خلافت کا دعویٰ کیا، چونکہ حجازوعراق میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے معتقدین کی ایک بڑی جماعت تھی، اس لیے انہوں نے ان سے بیعت کے لیے بے حد اصرار کیا اوربصورتِ انکار آگ میں جلادینے کی دھمکی دی، لیکن وہ تمام جھگڑوں سے کنارہ کش ہوچکے تھے، اس بناپر انہوں نے نہایت سختی سے انکار کیااور ابوطفیل کو کوفہ بھیج کر اپنے معتقدین سے مدد طلب کی۔ ابو طفیل کا بیان ہے کہ ہم کوفہ سے چارہزار جان نثاروں کی ایک جماعت لےکر نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو عبد اللہ بن زبیر ؓ نے غلافِ کعبہ تھام کر پناہ حاصل کی، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے مکان کے ارد گرد لکڑیوں کا انبار لگایا جاچکا تھا، ہم نے ان سے کہا اگر آپ اجازت دیجئے تو اس شخص سے مخلوقِ الہی کو نجات دیں، بولے نہیں یہ حرم ہے، یہاں کشت وخون جائز نہیں، تم صرف میری حفاظت کرو اورمجھے پناہ دو۔ [23] حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ درحقیقت بنوامیہ کی بہ نسبت حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کو خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتے تھے، ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا، کیا آپ ابن زبیر ؓ سے لڑکر حرم الہی کو حلال کرنا چاہتے ہیں؟ بولے معاذ اللہ!حرم میں خونریزی کرناتو صرف بنوامیہ اورابن زبیر ؓ کی قسمت میں لکھا ہے، میں خدا کی قسم کبھی ایسی جرأت نہ کروں گا، میں نے کہا لوگ ابن زبیر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں، معلوم نہیں ان کو خلافت کا دعویٰ کس بنا پر ہے؟ فرمایا، کیوں نہیں ان کے والد زبیر ؓ حواری رسول ﷺ تھے، ان کے نانا ابوبکر ؓ آنحضرت ﷺ کے رفیق غار تھے، ان کی ماں اسماء ؓ ذات النطاق تھیں، ان کی خالہ عائشہ ؓ ام المومنین تھیں، ان کے والد کی پھوپھی خدیجہ ؓ آنحضرت ﷺ کی حرم محتر تھیں، اوران کی دادی صفیہ ؓ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں، پھر وہ ایک خود بھی پاک باز مومن اوقاریِ قرآن ہیں، خدا کی قسم! اگر وہ میرے ساتھ کوئی احسان کریں گے تو ایک رشتہ دار کا احسان ہوگا اوراگر وہ میری پرورش کریں گے تو یہ اپنے ایک ہمسر محترم کی پرورش ہوگی۔ [24]
طائف منتقل ہونا ترميم
لیکن اس دلی ہمدردی وجانبداری کے باوجود انکار بیعت سے جو مخالفت پیدا ہو گئی تھی، اس کی بنا پر مکہ میں ان کا رہنا خطرہ سے خالی نہ تھا، اس لیے کوفی معاونین کی حفاظت میں مکہ سے طائف منتقل ہو گئے اور بقیہ زندگی کے دن وہیں پورے کیے۔
علم وفضل ترميم
فضل وکمال کے اعتبار سے ابن عباس ؓ اس عہدِ مبارک کے ممتاز ترین علما میں تھے ان کی ذات ایسی زندہ کتاب خانہ تھی، جس میں تمام علوم ومعارف بہ ترتیب جمع تھے، قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، شاعری، وغیرہ کوئی ایسا علم نہ تھا جس میں ان کو یدِطولیٰ حاصل نہ رہا ہو۔
تفسیر ترميم
باالخصوص قرآن پاک کی تفسیر وتاویل میں جو مہارت اورآیات قرآنی کے شانِ نزول اورناسخ و منسوخ کے علم میں جو وسعت ان کو حاصل تھی وہ کم کسی کے حصہ میں آئی، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جو علم و فضل میں ان کے ہمسر تھے، فرماتے تھے کہ عبد اللہ بن عباس ؓ قرآن کے کیا اچھے ترجمان ہیں، شقیق تابعی راوی ہیں کہ ایک مرتبہ حج کے موسم میں عبد اللہ بن عباس ؓ نے خطبہ دیا اوراس میں سورۂ نور کی تفسیر بیان کی میں کیا بتاؤں وہ کیا تفسیر تھی، اس سے پہلے نہ میرے کانوں نے سنی تھی، نہ آنکھوں نے دیکھی تھی، اگر اس تفسیر کو فارس اورروم والے سن لیتے تو پھر اسلام سے ان کو کوئی چیز نہ روک سکتی۔ [25] حضرت عمرؓ کی علمی مجلسوں میں یہ برابر شریک ہوتے تھے اور قرآن پاک کے فہم میں وہ اکثر بڑے بڑے صحابہ سے بازی لے جاتے تھے، ایک دن فاروق اعظم کے حلقۂ مجلس میں اکابر صحابہ کا مجمع تھا، ابن عباسؓ بھی موجود تھے، حضرت عمرؓ نے اس آیت کا مطلب پوچھا: "أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ" [26] کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرےگا کہ اس کا کھجور اورانگور کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں رواں ہوں، اس کے لیے ہر قسم کے پھل اس میں موجود ہوں، اوراس شخص پر بڑھاپا آگیا ہو اوراس کے ناتواں بچے ہوں، اس حالت میں اس باغ میں ایسا بگولہ آیا، جس میں آگ بھری تھی، اس نے باغ کو جلادیا، اسی طریقہ سے اللہ تمہارے لیے کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتا ہے، شاید تم بچو۔ لوگوں نے کہا واللہ اعلم!حضرت عمرؓ کو اس بے معنی جواب پر غصہ آگیا، بولے اگر نہیں معلوم تو صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ نہیں معلوم، ابن عباس ؓ جھجکتے ہوئے بولے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، فرمایا تم اپنے کو چھوٹا نہ سمجھو جو دل میں ہو بیان کرو، کہا اس میں عمل کی مثال دی گئی ہے، جواب گو صحیح تھا، تاہم ناکافی تھا، حضرت عمرؓ نے پوچھا کیسا عمل؟ ابن عباس ؓ نے اس سے زیادہ نہ بتاسکے، تب خود حضرت عمرؓ نے بتایا کہ اس میں اس دولت مند کی تمثیل ہے جو خدا کی اطاعت بھی کرتا ہے، لیکن اس کو شیطانی وسوسہ گناہوں میں مبتلاکردیتا ہے، اوراس کے تمام اچھے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ [27] حضرت عمرؓ ان کی ذہانت اورذکاوت کی وجہ سے ان کو شیوخ بدر کے ساتھ مجلسوں میں شریک کرتے تھے، بعض صحابہؓ کو اس سے شکایت پیدا ہوئی، انہوں نے کہا کہ ان کو ہمارے ساتھ مجلسوں میں کیوں شریک کرتے ہو، ان کے برابر تو ہمارے لڑکے ہیں، فرمایا تم لوگ ان کا مرتبہ جانتے ہو، اس کے بعد ان کی ذہانت کا مشاہدہ کرانے کے لیے ایک دن ان کو بلا بھیجا اورلوگوں سے پوچھا کہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [28] کے بارہ میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ کسی نے جواب دیا کہ نصرت و فتح پر ہم کو خدا کی حمد وثناء کا حکم دیا گیا ہے، کوئی خاموش رہا، پھر ابن عباسؓ سے پوچھا کہ ابن عباسؓ! تمہارا بھی یہی خیال ہے، انہوں نے کہا نہیں پوچھا پھر کیا ہے؟ عرض کیا اس میں آنحضرتﷺ کی وفات کا اشارہ ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا جو تم کہتے ہو یہی میرا بھی خیال ہے۔ [29] درحقیقت حضرت ابن عباسؓ کی فہم تفسیر قرآن میں ایسی دقیقہ رس تھی کہ وہاں تک مشکل سے دوسروں کا خیال پہنچ سکتا تھا؛چنانچہ اس سورہ کا مقصد خاص محرمان اسرار کے علاوہ عام لوگ کم سمجھ سکتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو اکثر صحابہؓ میں مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی کہ اس میں خدانے فتح و نصرت اور اسلام کی مقبولیت کے ایفائے عہد پر حمدو ثناء کا حکم دیا ہے، لیکن مقرب بارگاہ رسالت، محرمِ اسرار نبوت، ثانی اثنین فی الغار حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھوں سے جوئے اشک رواں ہو گئی کہ اس کی صبح وصل کا نور چھنتا ہو اورشام فراق کی تاریکی چھاتی ہوئی نظر آگئی تھی۔ (بخاری) بظاہر اس سورہ کو آنحضرتﷺ کی وفات سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا ؛لیکن اگر انسان کے مقصدِ حیات کو پیش نظر رکھ کر اس کی ترتیب اوراس کے معنی پر غور کیا جائے تو مطلب واضح ہوجاتا ہے، دنیا میں انسان ایک نہ ایک مقصد لے کر آتا ہے اور اس کے حصول کے بعد اس کے آنے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے، پھر قیام کی ضرورت باقی نہیں رہتی، آنحضرتﷺ دین الہیٰ کی تبلیغ کے لیے دنیا میں تشریف لائے تھے وہ پوری ہوچکی تو خدانے فرمایا کہ جب خدا کی مدد اوراس کی فتح آچکی اورتم نے دیکھ لیا لوگ جوق درجوق خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اب تم خدا کی تحمید و تقدیس کرو، اس سے مغفرت چاہو وہ بڑاتوبہ قبول کرنے والا ہے، یعنی خدا کو کچھ کام تمہارے ذریعہ لینا تھا وہ لے چکا اب تم کو اس سے ملنے کی تیار کرنی چاہیے۔ حضرت ابن عباس ؓ تفسیر میں ہمیشہ عام، جامع اورقرینِ عقل شق کو اختیار کرتے تھے، سورۂ کوثر کی تفسیر خود آنحضرت ﷺ سے حضرت عائشہ ؓ اورمتعدد اکابر صحابہ ؓ کے ذریعہ سے منقول ہے، حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے سورۂ کوثر کے نزول کے وقت پوچھا جانتے ہو کوثر کیا چیز ہے، لوگوں نے عرض کیا خدا اوراس کا رسول خوب جانتا ہے، فرمایا خدانے مجھ سے ایک نہر کا وعدہ کیا ہے جس میں بے شمار بھلائیاں ہیں، قیامت کے دن اس حوض پر میری امت آئے گی[30] حضرت عائشہ ؓ اور حضرت انس ؓ کوثر سے مراد نہر لیتے ہیں اورحضرت ابن عباس ؓ "خیر کثیر"مراد لیتے ہیں(بخاری کتاب التفسیر انا اعطینک الکوثر)حضرت ابن عباس ؓ کی اس تفسیر سے عطیہ الہی کی وسعت اورعظمت بہت بڑھ جاتی ہے، اوردوسری تفسیریں بھی اس کے تحت میں آجاتی ہیں، اورقرآن پاک کے سلسلہ کلام کا بھی یہی اقتضا ہے کہ کوثر سے مراد"خیر کثیر" لیا جائے، تاکہ اس کے بعد کفار سے برأت (قل یاایھا الکافرون) اورفتح ونصرت(فتح مکہ) کی بشارت اسی سلسلہ میں داخل ہوجائے۔ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى [31] کہدواے محمد :تبلیغ رسالت کے عوض میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا، صرف یہ کہ قرابت داری کی محبت ملحوظ رکھو۔ عام مفسرین"قربیٰ"سے مراد خاص آنحضرت ﷺ کے اہل بیعت لیتے ہیں، لیکن ابن عباس ؓ قریش کے تمام قبائل کو اس میں شامل کرتے ہیں، ایک مرتبہ کسی نے ان سے "مودۃ فی القربی" کی تفسیر پوچھی، سعید بن جبیر بولے اس سے مراد آنحضرت ﷺ کی قرابت ہے، یعنی آپ کے اہل بیت کی قرابت، ابن عباس ؓ نے کہا تم نے جلد بازی سے کام لیا، قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے آنحضرت ﷺ کی قرابت نہ رہی ہو، اس آیت میں یہ سب شامل ہیں۔ [32] تفسیر قرآن اورفہم قرآن کے فطری ملکہ کے علاوہ شانِ نزول اورناسخ ومنسوخ کے بارہ میں اس قدر حاضر المعلومات تھے کہ بمشکل کوئی ایسی آیت نکل سکے گی جس کے تمام جزئیات اورمَالَہ وماعلیہ سے پوری ان کو واقفیت نہ ہو۔
لَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا [33] اے مسلمانو!(اظہار اسلام کے لیے)جو تم کو سلام کرے، اس کو تم خواہ مخواہ نہ کہو تو مسلمان نہیں ہے۔ بظاہر یہ ایک عام حکم ہے اس کی تفسیر بھی ابن عباس ؓ کی ممنونِ احسان ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ کسی غزوہ میں ایک شخص کچھ مالِ غنیمت لیے ہوئے تھا، مسلمانوں کا سامنا ہوا تو اس نے سلام کیا، ان لوگوں نے (شبہ میں) مارڈالا، اورمالِ غنیمت چھین لیا، اس پر یہ حکم نازل ہوا۔ [34] اسی طریقہ سے اس آیت: وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ (حجر:24) ہم نے تم میں سے بعض ان لوگوں کو جو آگے بڑھ کر کھڑے ہوتے ہیں جان لیا ہے اوران کو بھی جو پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک خوبصورت عورت جماعت کی نماز میں شریک ہوتی تھی، بعض محتاط اشخاص اگلی صف میں چلے جاتے تھے کہ اس پر نظر نہ پڑے اوربعض دیکھنے کی نیت سے پیچھے رہتے تھے اوررکوع میں بغل کے راستہ سے نظر ڈال لیتے تھے، ان کی اس خیانت پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [35] قرآن مجید کا یہ حکم : "لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ" [36] اورجو لوگ اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اورجو نہیں کیا ہے اس پر تعریف چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کی نسبت ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے، بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ بظاہر انسانی فطرت کے کس قدر خلاف ہے، کیونکہ ہرشخص اپنے کیے پر خوش ہوتا ہے اورجو نہیں کرتا ہے اس پر بھی تعریف کاخواہاں رہتا ہے، اگر بہت بلند اخلاق کا شخص ہے تو زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہ دوسرا جذبہ اس میں نہ ہوگا، اس تہدیدی حکم کے استفسار کے لیے مروان نے اپنے دربان کو عبد اللہ بن عباس ؓ کے پاس بھیجا کہ ان سے جاکر پوچھو کہ ہم میں سے کون ایسا ہے، جس کے دل میں یہ جذبہ نہ ہو، اس حکم کے مطابق تو ہم سب عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ اس کو ہم لوگوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک خاص موقع پراہل کتاب کے بارہ میں نازل ہوئی تھی، پھر یہ آیت۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ [37] جب خدانے ان لوگوں سے جن کو کتاب دی ہے یہ وعدہ لیا کہ وہ اسے لوگوں کو کھول کھول کے سنائیں گے۔ تلاوت کرکے کہا کہ ان کو یہ حکم ملاتھا، مگر انہوں نے بالکل اس کے برعکس عمل کیا، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان سے کسی بات کے متعلق استفسار فرمایا، انہوں نے اصل جواب جوان کی کتاب میں تھا چھپا ڈالا اوراپنے حسب منشا دوسرافرضی جواب دے کر آنحضرت ﷺ پر ظاہر کیا کہ انہوں نے اصل جواب دیا ہے اور پھراس فعل پر آنحضرت ﷺ سے خوشنودی کے طالب ہوئے اوراپنی اس چالاکی پر شاداں وفرحاں ہوئے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو لوگ اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں(جیسا کہ اہل کتاب اپنی چالاکی پر خوش ہوئے تھے) اورجو نہیں کیا ہے اس پر تعریف کے خواہاں ہوتے ہیں (جیسا کہ یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی خوشنودی کے خواہاں ہوئے تھے) تو ایسے لوگوں کے لیے عذاب سے چھٹکارا نہیں ہے اوران کے لیے دردناک عذاب ہے۔ [38] ذیل کے واقعہ سے ان کی فراست، طباعی، دقیقہ سنجی، اور قوتِ استنباط کا اندازہ ہوگا، ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓ کے مجمع میں سوال کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے اخیر عشرہ کی ایک طاق رات ہے، تم لوگ اس سے کون سی طاق رات سمجھتے ہو؟ کسی نے ساتویں کسی نے پانچویں، کسی نے تیسری بتائی، ابن عباس ؓ سے فرمایا تم کیوں نہیں بولتے، عرض کیا اگر آپ فرماتے ہیں تو مجھ کو کیا عذر ہوسکتا ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا میں نے بولنے ہی کے لیے تمہیں بلایا ہے، کہا میں اپنی ذاتی رائے دوں گا، فرمایا ذاتی رائے تو پوچھتا ہی ہوں، کہا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات کے عدد کو بہت اہمیت دی ہے، چنانچہ فرمایا ہے کہ سات آسمان، سات زمین، ایک دوسرے موقع پر فرمایا ہے کہ ہم نے زمین کو پھاڑا اوراس میں غلہ، انگور، شاخ، زیتون، کھجور، کے درخت، گنجان باغ، اورمیوے اُگائے، یہ بھی سات باتیں ہیں، حضرت عمرؓ نے یہ جواب سن کر فرمایا کہ تم لوگ اس بچہ سے بھی گئے گذرے ہوئے، جس کے سرکے گوشہ بھی ابھی درست نہیں ہوئے، یہ جواب کیوں نہ دیا، [39]گو بعض دوسرے صحابہ ؓ نے بھی سات کی تعیین کی تھی، لیکن کسی استدلال کے ساتھ نہیں، سبھوں نے ایک ایک طاق رات اپنے اپنے قیاس و فہم کے مطابق لی، کسی نے سات کی شب بھی لی، لیکن ابن عباس نے قرآن سے اس کی تائید پیش کی، حضرت ابن عباس ؓ تفسیر میں نہایت دلیری سے کام لیتے تھے، بعض محتاط صحابہ ؓ اس دلیری کو ناپسند کرتے تھے، لیکن بالآخر ان کو بھی ان کی مہارتِ تفسیر کا اعتراف کرناپڑا۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عمر ؓ کے پاس ایک شخص آیا، اوراس نے آیت "کانتا رتقا ففتقنا" کا مطلب پوچھا، انہوں نے امتحان کی غرض سے ابن عباس ؓ کے پاس بھیج دیا کہ ان سے پوچھ کر بتاؤ، اس نے جاکر پوچھا، انہوں نے بتایا کہ آسمان کا فتق یہ ہے کہ پانی نہ برسائے زمین کا فتق یہ ہے کہ نباتات نہ اگائے، سائل نے واپس آکر یہ جواب حضرت ابن عمرؓ کو سنایا انہوں نے کہا ابن عباس ؓ کو نہایت سچا علم مرحمت ہوا ہے، مجھ کو تفسیر قرآن میں ان کی دلیری پر حیرت ہوتی تھی ؛لیکن اب معلوم ہوا کہ درحقیقت علم ان ہی کا حصہ ہے، [40] حضرت ابن عمرؓ اس کے بعد قرآن کے سائلین کو خود جواب نہ دیتے تھے، بلکہ ابن عباس ؓ کے پاس بھیج دیتے تھے، ایک مرتبہ عمروبن حبشی نے ایک آیت کے متعلق ان سے استفسار کیا، انہوں نے کہا ابن عباس ؓ سے پوچھو، قرآن کے جاننے والے جو لوگ باقی رہ گئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ معلومات وہی رکھتے ہیں۔ [41] علومِ قرآنی میں علم النسخ کی اہمیت بالکل عیاں ہے، حضرت ابن عباس ؓ اس بحرزخار کے بھی شناور تھے، اورتمام ناسخ اورمنسوخ احکام ان کے ذہن میں مستحضر تھے، یہ اس علم کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بغیر اس پر حاوی ہوئے وعظ کی لب کشائی کی اجازت نہ دیتے تھے، ایک مرتبہ کسی راستہ سے گزر رہے تھے، ایک اور واعظ وعظ کہہ رہا تھا، اس سے پوچھا ناسخ منسوخ جانتے ہو کسے کہتے ہیں، اس نے کہا نہیں، فرمایا: تو تم خود بھی ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔ [42] گو حضرت ابن عباس ؓ قرآن کی تعلیم میں بخل نہ کرتے تھے، اوران کا دروازہ ہر طالب قرآن کے لیے کھلا ہوا تھا، تاہم وہ اس نکتہ سے بھی بے خبر نہ تھے کہ جب کثرت سے قرآن کی اشاعت ہوگی اورہر کس وناکس فہم قرآن کا مدعی ہوجائے گا توامت میں اختلاف کا دروازہ کھل جائے گا، ان کی اس نکتہ رسی کا اعتراف حضرت عمرؓ کو بھی کرنا پڑا، حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں سارے ممالک محروسہ میں حافظِ قرآن مقرر کر دیے تھے کہ وہ مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم دیں، ایک دن ابن عباس ؓان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، حاکم کوفہ کا خط آیا کہ کوفہ والوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا، حضرت عمرؓ نے یہ مژدہ سنکر تکبیر کا نعرہ لگایا، لیکن ابن عباس ؓ بولے کہ اب ان میں اختلاف کا تخم پڑ گیا، حضرت عمرؓ نے غصہ سے پوچھا تم کو کیسے معلوم ہوا، اس واقعہ کے بعد یہ گھر چلے آئے، لیکن حضرت عمرؓ کے دل میں ان کا کہنا کھٹکتا رہا، چنانچہ آدمی بھیج کر ان کو بلا بھیجا، انہوں نے عذر کر دیا، دوبارہ پھر آدمی بھیجا کہ تم کو آنا ہوگا، اس تاکید پر یہ چلے آئے، حضرت عمرؓ نے پوچھا تم نے کوئی رائے ظاہر کی تھی، انہوں نے کہا پناہ بخدا اب میں کبھی دوبارہ کوئی خیال نہ ظاہر کروں گا، حضرت عمرؓ نے کہا میں طے کرچکا ہوں کہ جو تم نے کہا تھا اس کو کہلوا کر رہوں گا، اس اصرار پر انہوں نے کہا کہ آپ نے جب کہا کہ میرے پاس خط آیا ہے کہ کوفہ والوں نے اتنا اتنا قرآن یاد کر لیا، اس پر میں نے کہا کہ ان لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا، حضرت عمرؓ نے کہا یہ تم نے کیسے جانا، انہوں نے سورۂ بقرہ کی یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ، وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ، وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ [43] اے محمد لوگوں میں سے بعض ایسے آدمی بھی ہیں جن کی باتیں تم کو دنیاوی زندگی میں بھلی معلوم ہوتی ہیں اوروہ اپنی دلی باتوں پر خداکو گواہ بناتا ہے، حالانکہ وہ دشمنوں میں بڑا جھگڑالو ہے اورجب وہ تمہارے پاس لوٹ کر جائے تو ملک میں پھرے تاکہ اس میں فساد پھیلائے اورکھیتی اورنسل کو تباہ کرے اوراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا اورجب اس سے کہا جائے کہ خداسے ڈرو تو اس کو عزت نفس گناہ پر آمادہ کرے، ایسے شخص کے لیے جہنم کافی ہے اوروہ بہت بُراٹھکاناہے اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی رضاجوئی کے لیے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اوراللہ بندوں پر شفقت کرنے والا ہے۔ یہ آیتیں سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم نے سچ کہا۔ [44]
حدیث ترميم
حضرت ابن عباس ؓ مخصوص صحابہ ؓ میں ہیں جو علم حدیث کے اساطین سمجھے جاتے ہیں، اگر حدیث کی کتابوں سے ان کی روایتیں علاحدہ کرلی جائیں تو اس کے بہت سے اوراق سادہ رہ جائیں گے، ان کی مرویات کی مجموعی تعداد 2660 ہے، ان میں 75 متفق علیہ ہیں، یعنی بخاری اورمسلم دونوں میں ہیں، ان کے علاوہ 18 روایتوں میں بخاری منفرد ہیں اور49 میں مسلم۔ [45] ان کی روایات کی کثرت اور معلومات کی وسعت خود ان کی ذاتی کاوش وجستجو کا نتیجہ ہیں، گوبہت سی روایتیں براہِ راست خود زبانِ وحی والہام سے لی ہیں، لیکن آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر14، 15 سال سے زائد نہ تھی، ظاہر ہے کہ اس عمر میں علم کا اتنا سرمایہ کہاں سے حاصل کرسکتے تھے، ان کے ذوقِ علم اور تلاش وجستجو کا اندازہ ذیل کے واقعات سے ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ایک انصاری سے کہا کہ آنحضرت ﷺ وفات پاگئے، مگر آپ ﷺ کے اصحاب زندہ ہیں چلو ان سے تحصیل علم کریں، انہوں نے کہا ابن عباس ؓ! مجھو کو تم پر حیرت ہوتی ہے، تم دیکھتے ہو کہ لوگ علم میں خود تمہارے محتاج ہیں، پھر تم دوسروں کے پاس جاتے ہو، یہ جواب سن کر ان کو چھوڑدیا اورتنہا جہاں کہیں سراغ ملتا کہ فلاں شخص نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے، فوراً مشقت اٹھا کر اس کے پاس پہنچتے اوراطلاع دیتے وہ گھر سے نکل آتا اورکہتا کہ تم نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے، وہ کہتا: اے ابن عم رسول ﷺ !آپ نے کیوں زحمت گوارا کی، کسی دوسرے کو بھیج دیا ہوتا، کہتے نہیں یہ میرا فرض تھا، اس طریقہ سے عرب کے گوشہ گوشہ سے ایک ایک دانہ چن چن کر خرمنِ علم کا انبار لگایا، جب ان کے فضل وکمال کا چرچا زیادہ ہوا، اس وقت ان انصاری نے جنھوں نے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا تھا، ندامت کے ساتھ اقرار کیا، ابن عباس ؓ ہم سے زیادہ عقل مند تھے۔ [46] ابوسلمہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ کہتے تھے جس شخص کے متعلق مجھ کو پتہ چلتا کہ اس نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے تو میں خود اس کے مکان پر جاکر حاصل کرتا ؛حالانکہ اگر میں چاہتا تو راوی کو اپنے یہاں بلواسکتا تھا۔ [47] ابو رافع ؓ آنحضرت ﷺ کے غلام تھے، اس لیے ان کو آنحضرت ﷺ کے افعال دیکھنے اوراقوال سننے کا زیادہ موقع ملتا تھا، ابن عباس ؓ ان کے پاس کاتب لے کر آتے اور پوچھتے کہ آنحضرت ﷺ نے فلاں فلاں دن کیا کیا کیا، ابو رافع ؓ بیان کرتے اورکاتب قلمبند کرتا جاتا۔ [48] اسی تلاش وجستجو نے ان کو اقوال وافعال نبوی کا سب سے بڑا حافظ بنادیا تھا، اکثراکابر صحابہ ؓ کو جوعمر اورمرتبہ میں ان سے کہیں زیادہ تھے، ان کے مقابلہ میں اپنے قصورِعلم کا اعتراف کرنا پڑتا تھا، یہ فتویٰ دیتے تھے کہ حائضہ طواف رخصت کیے بغیر لوٹ جائے، حضرت زید بن ثابت ؓ انصاری کاتب وحی کو معلوم ہوا تو انہوں نے پوچھا تم حائضہ عورت کو یہ فتویٰ دیتے ہو، انہوں نے کہا ہاں، زید بن ثابت ؓ نے کہا یہ فتویٰ نہ دیا کرو، انہوں نے کہا میں تو یہی دوں گا، اگر آپ کو شک ہے تو فلاں انصاریہ سے جاکر پوچھ لیجئے کہ اس کو یہ حکم دیا تھا یا نہیں، زید بن ثابت ؓ نے جاکر پوچھا تو ابن عباس ؓ کا فتویٰ صحیح نکلا، چنانچہ ہنستے ہوئے واپس آئے اور بولے تم نے سچ کہا تھا۔ [49] اسی طریقہ سے ایک مرتبہ ان میں اور مسوربن مخرمہ میں محرم کے سردھونے کے بارہ میں اختلاف ہوا، یہ کہتے تھے محرم سردھوسکتا ہے، مخرمہ اس کے خلاف تھے، اس پر عبد اللہ بن عباس ؓ نے عبد اللہ بن حنین کو حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے پاس تحقیق کے لیے بھیجا، یہ اس وقت کپڑا آڑ کیے ہوئے کنوئیں پر نہا رہے تھے، عبد اللہ نے سلام کیا، انہوں نے پوچھا کون؟ کہامیں ہوں عبد اللہ بن حنین، ابن عباس ؓ نے پوچھا ہے کہ آنحضرت ﷺ احرام کی حالت میں کسی طرح سردھوتے تھے، ابوایوب ؓ نے عملا ًنقشہ کھینچ کر بتادیا۔ [50] جب صحابہ کرام ؓ میں آنحضرت ﷺ کے کسی قول وفعل کے بارہ میں اختلاف ہوتا تو وہ ابن عباس ؓ کی طرف رجوع کرتے، اس بارہ میں کہ آنحضرت ﷺ نے کہاں سے احرام باندھا؟ صحابہ ؓ میں بہت اختلاف ہے، سعید بن جبیر نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ ابو العباس مجھ کو حیرت ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اصحاب ؓ میں آپ کے احرام باندھنے کی جگہ کی تعیین میں بہت زیادہ اختلاف ہے، انہوں نے کہا میرے معلومات اس بارہ میں سب سے زیادہ ہیں، چونکہ آنحضرت ﷺ نے ایک ہی حج کیا ہے، اس لیے لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا، اس کا سبب یہ ہے کہ جب آپﷺ نے ذو الحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد احرام باندھا اورلبیک کہنا شروع کیا، جولوگ اس وقت موجود تھے انہوں نے اسی کو یادرکھا، پھر جب آپ ﷺ اونٹنی پر سوار ہوئے اور وہ چلی تو پھر آپ نے لبیک کہا، اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ یہ سمجھے کہ آپ نے یہیں ابتدا کی ہے، چنانچہ وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب آپﷺ اونٹنی پر سوار ہوکر چلے اسی وقت سے لبیک کہنا شروع کیا، اس کے بعد جب آپ ﷺ بلندی پر چڑھے اس وقت سے کہنا شروع کیا، لیکن میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ نے مسجد میں احرام باندھا، اس کے بعد جب اونٹنی چلی تب، اورجب بلند مقام پر چڑھے تب دونوں مرتبہ لبیک کہا۔ [51]
روایتوں میں احتیاط ترميم
عموماًکثیر الروایت راویوں کے متعلق یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ روایت کرنے میں محتاط نہیں ہوتے اوررطب ویابس کا امتیاز نہیں رکھتے، لیکن ابن عباس ؓ کی ذات اس سے مستثنی اوراس قسم کے شکوک وشبہات سے ارفع واعلیٰ تھی، وہ حدیث بیان کرتے وقت اس کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے کہ کوئی غلط روایت آنحضرت ﷺ کی جانب نہ منسوب ہونے پائے، جہاں اس قسم کا کوئی خفیف سا بھی خطرہ ہوتا، وہ بیان نہ کرتے تھے، چنانچہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم اس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علی وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے، جب تک جھوٹ کا خطرہ نہ تھا، لیکن جب سے لوگوں نے ہر قسم کی رطب ویابس حدیثیں بیان کرنا شروع کر دیں، اس وقت سے ہم نے روایت ہی کرنا چھوڑدیا، [52]لوگوں سے کہتے کہ تم کو قال رسول اللہ کہتے وقت یہ خوف نہیں معلوم ہوتا کہ تم پر عذاب نازل ہوجائے، یا زمین شق ہوجائے اورتم اس میں سما جاؤ، [53]اسی احتیاط کی بناپر فتویٰ دیتے تو آنحضرت ﷺ کا نام نہ لیتے تھے، [54] کہ آپ کی طرف نسبت کرنے کا بار نہ اٹھانا پڑے۔
حلقہ درس ترميم
حضرت ابن عباس ؓ کاحلقہ درس بہت وسیع تھا، سینکڑوں طلب گار روزانہ ان کے خرمنِ کمال سے خوشہ چینی کرتے تھے، ان کی زندگی کا ہر لمحہ درس و تدریس کے لیے وقف تھا کبھی کوئی شخص ان کے چشمہ فیض سے ناکام واپس نہ ہوا، اس عام فیض کے علاوہ بعض مجلسیں خصوصیت کے ساتھ درس وتدریس اورعلمی مذاکروں کے لیے مخصوص تھیں اوران میں باقاعدہ ہر علم وفن کی جدا جدا تعلیم ہوتی تھی، ابوصالح تابعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ کی طرف ایک ایسی علمی مجلس دیکھی کہ اگر سارا قریش اس پر فخر کرے تو بھی بجا ہوگا، اس مجلس کا یہ حال تھا کہ عبد اللہ بن عباس ؓ کے مکان کے سامنے آدمیوں کا اتنا ازدحام تھا کہ ان کی کثرت سے آمدورفت مشکل تھی، میں نے جاکر اس ازدحام کی اطلاع دی تو مجھ سے پانی مانگا، میں پانی لایا، انہوں نے وضو کیا، وضو کرکے بیٹھ گئے، پھر مجھ سے کہا جاؤ قرآن کے جس شعبہ کے متعلق جو سائل ہوں ان کو اطلاع دو، میں نے اطلاع دی، دیکھتے دیکھتے سائلوں سے سارا گھر اورتمام حجرے بھرگئے، جس نے جو سوال کیا اس کے سوال سے زیادہ اس کو جواب دے کر رخصت کیا، پھر مجھ سے کہا جاؤ حرام وحلال اورفقہ کے سائلوں کو بلاؤ میں نے ان لوگوں کو اطلاع دی، چنانچہ ان کا جم غفیر آیا اور جن کو جو سوالات کرنا تھے پیش کیے، فرداً فرداً سب کو نہایت تشفی بخش اوران کے سوالات سے زیادہ جواب دے کر رخصت کیا، پھر فرمایا کہ اب تمہارے دوسرے بھائیوں کی باری ہے، اس کے بعد فرائض وغیرہ کے سائلوں کو بلایا، ان کی تعداد بھی اتنی بڑی تھی کہ پورا گھر بھر گیا، ان کے پیشرؤوں کی طرح ان کے سوالات سے زیادہ جوابات دے کر فارغ ہوئے تو مجھے سے کہا عربی زبان، شعر وشاعری اورادب وانشاء کے سائلوں کو بلا لاؤ، چنانچہ میں نے اطلاع دی، یہ لوگ آئے، ان کے ہجوم کا بھی وہی حال تھا، ان لوگوں نے جو سوالات کیے، ان کے سوالات سے زیادہ جوابات دیے، ابوصالح یہ واقعہ بیان کرکے کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کی اتنی بڑی مجلس نہیں دیکھی تھی۔ [55] درس کے ان مستقل حلقوں کے علاوہ کبھی کسی نماز کے بعد تقریر اورخطبہ کے ذریعہ سے تعلیم دیتے، عبد اللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ابن عباس ؓ نے عصر کے بعد ہم لوگوں کے سامنے تقریر کی اوراتنی دیر تک کرتے رہے کہ آفتاب غروب ہو گیا اورتارے نکل آئے، لوگوں نے نماز نماز کی آوازیں بلند کرنا شروع کیں، ایک تمیمی نے مسلسل نماز کہنا شروع کیا، ابن عباس ؓ جھنجھلا کر بولے "لاام لک" تو مجھ کو سنت کی تعلیم دیتا ہے میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا ہے، آپﷺ ظہر، عصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھتے تھے، عبد اللہ بن شقیق کے دل میں یہ بات کھٹکتی رہی، انہوں نے جاکر حضرت ابوہریرہ ؓ سے پوچھا حضرت ابوہریرہؓ نے کہا ہاں صحیح ہے۔ [56] حضر کے علاوہ سفر میں بھی ان کا یہ چشمہ فیض جاری رہتا تھا، چنانچہ جب چند دنوں کے لیے حج کی غرض سے مکہ معظمہ تشریف لے جاتے تھے، اس وقت بھی ان کی قیامگاہ طالبانِ علم کی درسگاہ بن جاتی۔ [57]
ترجمان کا تقرر ترميم
اسلامی فتوحات کے بعد جب اسلام عرب کے حدود سے نکل کر ایران ومصروغیرہ میں پھیلاتو وہ قومیں اسلام کے حلقہ اثر میں آئیں جن کی زبان عربوں سے جدا تھی، ابن عباس ؓ نے ان کی آسانی کے لیے مخصوص ترجمان رکھے کہ ان کو سوال میں زحمت نہ ہو۔ [58]
تلامذہ ترميم
ان کی اس فیض رسانی و علم وعرفان کی بارش نے ان کے تلامذہ کا دائرہ بہت وسیع کر دیا تھا، جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے، مشہور تلامذہ اورشاگردوں کی مختصر فہرست یہ ہے۔ بیٹوں میں محمد اور علی، پوتوں میں محمد بن علی، بھائیوں میں کثیر، بھتیجوں میں عبد اللہ بن عبیداللہ، اورعبداللہ بن معبد، عام لوگوں میں عبد اللہ بن عمر، ثعلبہ بن حکم، مسور بن مخرمہ، ابو الطفیل، ابوامامہ بن سہل، سعید بن مسیب، عبد اللہ بن حارث، عبد اللہ بن عبد اللہ، عبد اللہ بن شداد، یزید بن اصم، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابو حمزہ ضبعی، ابومجلز لاحق بن حمید، ابورجاء عطاردی، قاسم بن محمد، عبید بن اسباق، علقمہ بن وقاص، علی بن حسین، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، عکرمہ، عطاء، طاؤس، کریب، سعید بن جبیر، مجاہد، عمروبن دینار، ابوالجوزاء، اوس بن عبد اللہ ربعی، ابوالشعثا، جابر بن زید، بکر بن عبد اللہ مزنی، حصین بن جندب، حکم بن اعرج، ابوالجویرہ، حطان بن خفاف، حمید بن عبدالرحمن بن عوف، رفیع ابوالعالیہ، مقسم، ابوصالح السمان، سعد بن ہشام، سعید بن ابوالحسن بصری، سعید بن حویرث، سعید بن ابی ہند، ابوالحباب سعید بن یسار، سلیمان بن یسار، ابوزمیل سماک بن ولید، سنان بن سلمہ، صہیب، طلحہ بن عبد اللہ بن عوف، عامر الشعبی، عبد اللہ بن ابی ملیکہ، عبد اللہ بن کعب بن مالک، عبد اللہ بن عبید، عبید بن حنین، عبدالرحمن بن مطعم، عبدالرحمن بن وعلہ، عبدالعزیز بن رفیع، عبدالرحمن بن عاص نخعی، عبیداللہ بن عبد اللہ بن ابی ثور، عبیداللہ بن یزید الملکی، علی بن ابو طلحہ، عمرو بن مرہ، عمرو بن میمون، عمران بن حطان، عماربن ابی عمار، محمد بن عبادبن جعفر، مسلم بن صبیح، سلم القریر، موسیٰ بن سلمہ، میمون بن مہران جزری، نافع بن جبیر بن مطعم، ناعم، نضر بن انس، یحییٰ بن یعمر، ابوالبختری الطائی، ابوالحسن الاعرج، یزید بن ہرمز، ابوحمزہ قصاب، ابوالزبیرمکی، ابوعمر البہرانی، ابو المتوکل الناجی، ابولنضرہ العبدی، فاطمہ بنت حسین، محمد بن سیرین وغیرہم۔[59]
فقہ وفرائض ترميم
حضرت ابن عباس ؓ کے فتاویٰ فقہ کی سنگ بنیاد ہیں، اس کی تشریح کے لیے ایک دفتر چاہیے، اس لیے ہم ان کو قلم انداز کرتے ہیں، تاہم ان کی فقہ دانی کا سرسری اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ابوبکر محمد بن موسیٰ خلیفہ مامون الرشید کے پر پوتے نے جو اپنے زمانہ کے امام تھے، ان کے فتاویٰ 20 جلدوں میں جمع کیے تھے۔ [60] مکہ میں فقہ کی بنیادان ہی نے رکھی، وہ تمام فقہا جن کا سلسلہ مکہ کے شیوخ تک پہنچتا ہے، وہ سب بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کے خوشہ چین تھے، ایک فقیہ ومجتہد کے لیے قیاس ناگزیر ہے، کیونکہ وقتاً فوقتاً بہت سے ایسے نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں جو حضرت حامل شریعت علیہ السلام کے عہد میں نہ تھے اوران کے متعلق کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے، ایسے وقت میں مجتہد کا یہ فرض ہے کہ وہ منصوصہ احکام اوران میں علت مشترک نکال کر ان پر قیاس کرکے حکم صادر کرے، ورنہ فقہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا، حضرت ابن عباس ؓ کے سامنے جب کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو وہ پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے، اگر اس سے جواب مل جاتا تو فبہا، ورنہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی طرف رجوع کرتے، اگر اس سے بھی مقصد برآری نہ ہوتی، توحضرت ابوبکر ؓ وعمرؓ کا فیصلہ دیکھتے، اگر اس سے بھی عقدہ حل نہ ہوتا تو، پھر اجتہاد کرتے، [61] مگر اسی کے ساتھ قیاس بالرائے کو برا سمجھتے تھے، چنانچہ وہ اس کی مذمت میں کہتے ہیں کہ جو شخص کسی مسئلہ میں ایسی رائے دیتا ہے جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ میں نہیں ہے، تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب وہ خدا سے ملے گا تو اس کے ساتھ کیا معاملہ پیش آئے گا۔ [62] حضرت علی ؓ کے عہدِ خلافت میں کچھ لوگ مرتد ہو گئے، حضرت علی ؓ نے ان کو زندہ جلادیا، ابن عباس ؓ کو معلوم ہواتو کہا اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو جلانے کی بجائے قتل کی سزا دیتا؛کیونکہ میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہےکہ جو شخص مذہب تبدیل کرے اس کو قتل کردو، پھر فرمایا کہ :جو عذاب خدا کا مخصوص ہے اس کو تم لوگ نہ دو، یعنی آگ میں کسی کو نہ جلاؤ، حضرت علی ؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا ابن عباس ؓ پر افسوس ہے۔ [63] فقہ کے ساتھ ساتھ فرائض میں بھی درک تھا، اگرچہ وہ اس فن میں حضرت معاذ بن جبل ؓ، زید بن ثابت ؓ اورعبداللہ بن مسعود ؓ کے برابر نہ تھے، تاہم عام صحابہ ؓ میں حضرت ابن عباس ؓ بھی اس فن میں ممتاز درجہ رکھتے تھے، عبید اللہ بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ حساب اورفرائض میں ابن عباس ؓ ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ [64]
دیگر علوم ترميم
ان مذہبی علوم کے علاوہ ان تمام علوم میں جو اس زمانہ میں لازمہ شرافت سمجھے جاتے تھے کافی دستگاہ اورناقدانہ نظر رکھتے تھے، اوپر گذرچکا ہے کہ مذہبی علوم کے علاوہ ان کے حلقۂ درس میں عربی شعروشاعری اورادب وانشاء کے طالبین بھی آتے تھے، عربوں میں شاعری لازمہ شرافت تھی، بالخصوص قریش کی آتش بیانی مشہورتھی، ابن عباس ؓ نہ صرف سخن سنج تھے، بلکہ خود بھی اشعار کہتے تھے، ابن رشیق نے ان کے یہ چند اشعار کتاب العمدہ میں نمونہ کے طورپر نقل کیے ہیں۔ اذاطارقات الہم ضاجعت الفتی واعمل فکر اللیل واللیل عاکر جب رات کے آنے والے غم کسی جواں مرد کے ساتھ ہم خواب ہوتے ہیں اورشب کے آخر حصہ میں تفکرات اپنا عمل کرتے ہیں۔ وباکرنی فی صاحبۃ لم یجد بھا سوای ولا من نکبۃ الدھر ناصر اوروہ صبح کو میرے پاس اسی حالت میں اپنی حاجت لے کر آتا ہے کہ اس میں اوراس کی زمانہ کی بدبختیوں میں اس کا کوئی مدد گار نہیں ہوتا۔ فرجت بمالی ھمہ من مقامہ ونائلہ ہمّ طروق مسام تو میں اپنے مال کے ذریعہ اس کا غم دور کرتا ہوں اوراس کے رات کی آنے والی تفکرات دور ہو جاتے ہیں۔ وکان لہ فضل علی بظنّہ بی الخیرانی للذی ظن شاکر اورمیں اسی کا ممنون ہوں کیونکہ وہ میرے ساتھ حسن ظن رکھتا ہے اور جو شخص میرے ساتھ حسن ظن رکھتا ہے اس کا میں مشکور ہوتا ہوں۔ شعر گوئی کے ساتھ فصیح و بلیغ بھی تھے، اگرچہ خطیب کی حیثیت سے انہوں نے کوئی شہرت نہیں حاصل کی ؛تاہم ان کی روزانہ کی گفتگو بھی ادب کی چاشنی سے خالی نہ ہوتی تھی، مسروق کا بیان ہے کہ جب ابن عباس ؓ گفتگو کرتے تھے تو فصیح ترین آدمی معلوم ہوتے تھے۔ [65] حضرت حسن ؓ کی وفات کے بعد ان میں اور امیر معاویہ ؓ میں جو گفتگو ہوئی ہے، وہ حسن بیان کا ایک دل آویز نمونہ ہے۔ [66] معاویہ ؓ: اجرک اللہ ابا العباس فی ابی محمد الحسن بن علی معاویہ ؓ: ابوالعباس خدا تمہیں ابی محمد الحسن بن علی کی موت پر اجر دے۔ فقال ابن عباس ؓ: اناللہ وانا الیہ راجعون وغلبہ البکاء فردہ ثم قال لایسد داللہ مکانہ حفرتک ولایزید موتہ فی اجلک واللہ لقد اصبنا بمن ہواعظم منہ فقد فما صنیعاواللہ بعدہ ابن عباس ؓ: ابن عباس ؓ نے انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور آنسو ضبط کرکے بولے، خداکی قسم ان کی موت سے تمہاری قبر پرنہ ہوجائے گی اورنہ ان کی موت سے تمہاری زندگی میں کچھ اضافہ ہوگا، خدا کی قسم ہم کو ان سے بڑے کی موت کا صدمہ اٹھانا پڑا، خدا کی قسم اس کے بعد ہمارا کیا چارہ تھا۔ معاویہ ؓ: کم کانت سنہ معاویہ ؓ:کتنی عمر تھی۔ ابن عباس ؓ: مولدہ اشھرمن ان تتعرف سنہ ابن عباس ؓ:ان کی ولادت اتنی مشہور ہے کہ تم کو ان کی عمر معلوم کرنے کی ضرورت نہیں۔ معاویہ ؓ: احسبہ ترک اولادا صفارا معاویہ ؓ: میرا خیال ہے کہ انہوں نے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے۔ ابن عباس ؓ: کان کائنا صغیرافکسر ولئن اختاراللہ لا بی محمد ما عندہ وقبضہ الی رحمتہ لقد ابقی اللہ اباعبداللہ وفی مثلہ الخلف الصالح ابن عباس ؓ: ہم سب چھوٹے تھے، پھر بڑے ہوئے، اگر خدانے ابو محمد حسن ؓ کو اپنی رحمت کی طرف بلالیا اورابھی اس نے ابو عبد اللہ (حسین ؓ) کو زندہ رکھا ہے اور ان کے ایسے لوگ خلف صالح ہوتے ہیں۔ تقریر اس قدر شیریں ہوتی تھی کہ بے ساختہ سننے والوں کی زبانوں سے مرحبا نکل جاتا، ہم نے مستدرک حاکم کے حوالہ سے اوپر کہیں نقل کیا ہے کہ شقیق بیان کرتے تھے کہ ابن عباس ؓ نے ایک مرتبہ حج کے موسم میں سورۂ نور کی تفسیر اس اچھوتے انداز سے بیان کی تھی کہ اس سے بہتر نہ میرے کانوں نے سنی تھی، نہ آنکھوں نےد یکھی تھی اگر اس کو فارس وروم سن لیتے تو پھر ان کو اسلام سے کوئی چیز نہ روک سکتی، ابن ابی شیبہ کی روایت میں اتنا اوراضافہ ہے کہ ایک شخص بولا کہ ابن عباس ؓ کی شیریں بیانی اورحلاوت پر میرابے اختیار دل چاہتا تھا کہ ان کا سرچوم لوں۔ [67]
ابن عباس ؓ کی جامعیت ترميم
اوپر کی تفصیل سے ان کی جامعیت کا اندازہ ہوا ہوگا، عبد اللہ بن عبد اللہ کے اس تبصرہ سے اس کا پورا اندازہ ہوگا وہ کہا کرتے تھے کہ اس زمانہ کے علوم میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا، معاملہ فہمی اوراصابت رائے میں وہ سب پر فائق تھے، نسب دانی اور تاویلِ قرآن کے بڑے ماہر تھے، احادیث نبوی اورابوبکر ؓ عمر ؓ اورعثمان ؓ کے فیصلوں کا ان سے زیادہ کوئی واقف کار نہ تھا، شعرو شاعری، ادب، تفسیر، حساب اورفرائض میں ممتاز درجہ رکھتے تھے اوران سب میں ان کی رائے بے نظیر ہوتی تھی، ان کے علمی مذاکرے کے دن مقرر تھے، کسی دن فقہ کا درس دیتے تھے، کسی دن تاویل قرآن پر روشنی ڈالتے، کسی دن مغازی کے واقعات کا تذکرہ کرتے، کسی دن ایامِ عرب کی داستان سناتے، کسی دن شعر وشاعری کا چرچا ہوتا، غرض ان کا چشمہ معرفت فیض ہر دن نئے رنگ سے اُبلتا تھا، میں نے کسی بڑے سے بڑے عالم کو نہیں دیکھا جو تھوڑی دیر کے لیے ان کی صحبت میں بیٹھا ہو اوران کے کمالِ علم کے سامنے اس کی گردن نہ جھک گئی ہو، کسی علم کے متعلق کوئی سوال بھی کرتا اس کو اس کا جواب ضرور ملتا۔ [68]
معاصرین کا اعتراف ترميم
حضرت ابن عباس ؓ صحابہ ؓ کی جماعت میں گو عمر میں بہت چھوٹے تھے مگر ان کا علم سب سے بڑا تھا، ان کے تمام معاصرین جن میں سے بڑے بڑے صحابہ ؓ تک تھے ان کے فضل وکمال کے معترف تھے۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے :ابن عباس ؓ ادھیڑ عمر والوں میں نوجوان ہیں، ان کی زبان سائل اوران کا ذہن رسا ہے، مجاہد تابعی کہتے تھے کہ میں نے ابن عباس ؓ کے فتاویٰ سے بہتر کسی شخص کا فتویٰ نہیں دیکھا، علاوہ اس شخص کے جو قال رسول اللہ کہتا ہے، طاؤس کہتے تھے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کے پانچ سو اصحاب ؓ کو دیکھا ہے کہ جب وہ کسی مسئلہ میں ابن عباس ؓ سے مباحثہ کرتے اوردونوں میں اختلافِ رائے ہوتا توآخر میں ابن عباس ؓ ہی کی رائےپر فیصلہ ہوتا۔ عبید اللہ بن عباس ؓ کہتے تھے کہ میں نے عبد اللہ بن عباس ؓ سے زیادہ سنت کا عالم، ان سے زیادہ صائب الرائے، ان سے بڑادقیق النظر کسی کو نہیں دیکھا، حضرت عمرؓ باوجود اپنے ملکہ اجتہاد اورمسلمانوں کی خیر خواہی کے ابن عباس ؓ کو مشکلات کے لیے تیار کرتے تھے، قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ ہم نے ابن عباس ؓ کی مجلس میں کبھی کوئی باطل تذکرہ نہیں سنا اوران سے زیادہ کسی کا فتویٰ سنتِ نبوی ﷺ کے مشابہ نہیں دیکھا۔ [69] طاؤس تابعی حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ بہت رہا کرتے تھے، ابوسلیم نے ان پر اعتراض کیا کہ آنحضرت ﷺ کے اکابر صحابہ ؓ کو چھوڑ کر تم اس چھوکرے سے کیوں چمٹے رہتے ہو؟ انہوں نے کہا میں نے آنحضرت ﷺ کے ستر اصحاب ؓ کو دیکھا ہے جب وہ کسی مسئلہ میں گفتگو کرتے تھے تو آخر میں ان کو ابن عباس ؓ ہی کے قول کی طرف رجوع کرنا پڑتاتھا، [70] حضرت زید بن ثابت ؓ کا انتقال ہوا تو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا آج اس امت کا عالم اُٹھ گیا، امید ہے کہ خدا ابن عباس ؓ کو ان کا قائم مقام بنائے گا، [71] مشہور عالم صحابی ابی بن کعب ؓ کے بیٹے محمد روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ ایک دن میرے والد کے پا س بیٹھے ہوئے تھے، جب وہ اُٹھ کر چلے تو میرے باپ نے کہا کہ ایک دن یہ شخص اس امت کا حبر [72] ہوگا، [73] حضرت ابی بن کعب ؓ کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اورابن عباس ؓ اپنے کثرت علم کی وجہ سے حبرالامہ کہلانے لگے۔
معاصرین کی عزت ترميم
اس ذاتی علم وفضل کے باوجود دوسرے علما کی بڑی عزت کرتے تھے، اوران سے نہایت تواضع اورانکسارسے پیش آتے تھے، ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت ؓ سوارہوئے، تو ابن عباس ؓ نے احتراماً ان کی رکاب تھام لی، زید بن ثابت ؓ نے کہا اے ابن عمِ رسول ایسا نہ کیجئے، فرمایا ہم کو اپنے علما کا ایسا ہی احترام کرنا چاہیے، زید بن ثابت ؓ نے ان کا ہاتھ چوم کر کہا ہم کو اپنے نبی کے اہل بیت کا ایسا ہی احترام کرناچا ہئے۔ [74]
بدعت سے نفرت ترميم
عقیدہ کی صحت مذہب کی روح ہے، اس میں جہاں رخنہ پیدا ہوا، مذہب کی بنیادیں ہل جاتی ہیں، تقدیرکا مسئلہ مذہب میں ایسا نازک اورپیچیدہ ہے کہ اس میں ادنے افراط و تفریط سے عظیم الشان فتنوں کا دروازہ کھل جاتا ہے، صحابہ ؓ کے آخرزمانہ میں نو مسلم عجمیوں کے ذریعہ سے خیر و شر اورقضاء وقدر کی بحث عراق میں پیدا ہو چلی تھی، ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ کو معلوم ہوا کہ ایک شخص تقدیر کا منکر ہے، اس وقت ان کی آنکھوں کی بصارت زائل ہوچکی تھی پھر بھی لوگوں سے کہا کہ مجھ کو اس شخص تک پہنچادو، لوگوں نے پوچھا آپ اس کے ساتھ کیا طرزِ عمل اختیار کریں گے؟ بولے اگر ہو سکا تو اس کی ناک کاٹ ڈالوں گا اور اگر گردن ہاتھ میں آگئی تو اس کو توڑدوں گا، میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ میں بنو فہر کی عورتوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ خزرج کا طواف کررہی ہیں اورسب کی سب اعمالِ شرک میں مبتلا ہیں، تقدیر کا انکار اس امت کا پہلا شرک ہے، میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایسے لوگوں کی بُری رائے یہیں تک نہ محدود رہے گی، بلکہ جس طرح انہوں نے خدا کو شر کی تقدیر سے معطل کر دیا ہے، اسی طرح اس کی خیر کی تقدیر سے منکر ہوجائیں گے۔ [75]
رسول کی محبت ترميم
حضرت ابن عباس ؓ کو ذات نبوی ﷺ کے ساتھ غیر معمولی شیفتگی اورگرویدگی تھی، آپ کی وفات کے موقع کے ایک واقعہ کویاد کرتے تو روتے روتے بیقرار ہوجاتے ہیں، سعید بن جبیر تابعی روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا، پنجشنبہ کا دن کون پنجشنبہ اتنا کہنے پائے تھے، ابھی مبتدا کی خبر نہ نکلی تھی کہ زار وقطار رونے لگے اور اس قدر روئے کہ سامنے پڑے ہوئے سنگ ریزے ان کے آنسوؤں سے تر ہو گئے، ہم لوگوں نے کہا ابوالعباس ؓ پنجشنبہ کے دن میں کیاخاص بات تھی، بولے اس دن آنحضرت ﷺ کی بیماری نے شدت پکڑی تھی، آپ نے فرمایا، لاؤ میں تم لوگوں کو ایک پرچہ پر لکھ دوں کہ گمراہی سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاؤ، اس پر لوگ جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی ﷺ کے پاس جھگڑا مناسب نہیں ہے اور کہنے لگے کہ (بیماری کی تکلیف سے) ہذیان ہو گیا ہے اور آپ سے بار بار پوچھتے تھے کہ یہ حکم آپ حواس کی حالت میں دے رہے ہیں، یا ہذیان ہے، آپ نے فرمایا میرے پاس سے ہٹ جاؤ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف مجھے لے جانا چاہتے ہو۔ [76]
رسول کی خدمت ترميم
ام المومنین حضرت میمونہ ؓ ان کی خالہ تھیں، یہ ان کے پاس بہت رہا کرتے تھےٍ، اکثر راتوں کو بھی رہ جاتے تھے، اس لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت گزاری کا بھی انہیں موقع ملتا رہتا تھا، ایک دن آنحضرت ﷺ حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں تشریف فرما تھے، ابن عباس ؓ نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھا، حضرت میمونہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ ابن عباس ؓ نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھا ہے، آپ نے دعادی خدایاان کو دین میں سمجھ اورقرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جائے ضرور ت سے فارغ ہوکر تشریف لائے، تو ایک طشت پانی ڈھکا ہوارکھا دیکھا پوچھا کس نے رکھا ہے، ابن عباس ؓ نے عرض کیا میں نے، فرمایا: خدایا ان کو قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما، [77] کبھی کبھی آپ ﷺ خود بھی ان سے کام لیا کرتے تھے، ایک دفعہ یہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا، سمجھ گئے کہ میرے پاس آ رہے ہیں، بچپن کا زمانہ تھا بھاگ کے ایک مکان کے دروازے کی آڑ میں چھپ رہے، آنحضرت ﷺ نے پشت سے آکر پکڑلیا اورفرمایا جاؤ معاویہ ؓ کو بلالاؤ، معاویہ ؓ اس وقت آپ کے کاتب تھے ابن عباس ؓ نے جاکر کہا کہ نبی ﷺ کو تمہاری ضرورت ہے، فوراً چلو۔ [78]
رسول کا احترام ترميم
آنحضرت ﷺ کا اتنا احترام کرتے تھے کہ نماز میں بھی آپ کے برابر گھڑا ہونا گستاخی سمجھتے تھے، ایک مرتبہ آخر شب میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ابن عباس ؓ آکر پیچھے کھڑے ہو گئے، آنحضرت ﷺ نے ان کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے برابر کر لیا، اس وقت تو یہ ساتھ کھڑے ہو گئے، مگر جیسے ہی آپ نے نماز شروع کی ابن عباس ؓ ہٹ کر اپنی جگہ پر آگئے، نمازختم کرنے کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا کہ میں نے تم کو اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا تم پیچھے کیوں ہٹ گئے، عرض کیا کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر نماز پڑھے، آنحضرت ﷺ اس معقول عذر پر خوش ہوئے اوران کے لیے فہم و فراست کی دعا فرمائی۔ [79]
امہات المومنین کا احترام ترميم
آنحضرت ﷺ کے ساتھ اس غیر معمولی عقیدت کا فطری اقتضا یہ تھا کہ وہ امہات المومنین کے ساتھ بھی اس عزت وتکریم سے پیش آتے تھے، جب حضرت میمونہ ؓ کا انتقال ہوا اورلوگ مقام شرف میں جنازہ کی شرکت کے لیے جمع ہوئے تو انہوں نے کہا کہ :لوگو یہ آنحضرت ﷺ کی حرم محترم کا جنازہ ہے، نعش آہستہ اٹھاؤ ہلنے نہ پائے۔ [80] یہ احترام حضرت میمونہ ؓ کی ذات کے ساتھ مخصوص نہ تھا، بلکہ تمام امہات المومنین ؓ کے ساتھ وہ اسی تعظیم سے پیش آتے تھے، البتہ خاندانی مناقشوں کی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ سے کچھ بد مزگی ہو گئی تھی، مگر ان کی وفات سے پہلے خود ان کے درِ دولت پر حاضر ہوکر صفائی کرلی۔ ذکوان حضرت عائشہ ؓ کے حاجب بیان کرتے تھے کہ حضرت عائشہ ؓ کے مرض الموت میں ابن عباس ؓ آئے اورحضوری کی اجازت چاہی میں نے حضرت عائشہ ؓ سے جاکر عرض کیا، اس وقت حضرت عائشہ ؓ کے بھتیجے عبد اللہ بن عبدالرحمن ان کے سرہانے بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے بھی کہا کہ ابن عباس ؓ آنے کی اجازت چاہتے ہیں، بولیں ان کو آنے کی ضرورت نہیں عبد اللہ بن عبدالرحمن نے کہا، اماں :ابن عباس ؓ آپ کے سعادت مند بیٹے ہیں، وہ سلام کرتے ہیں اوررخصت کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں ان کو اجازت دیجئے، فرمایا خیر اگر تم چاہتے ہو تو بلالو، چنانچہ ان کو باریابی کی اجازت مل گئی، بیٹھنے کے بعد عرض کیا، آپ کو بشارت ہو(یعنی آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچاچاہتی ہیں) حضرت عائشہ ؓ نے جواب میں فرمایا، تم کو بھی بشارت ہو، اس خوش آیند سلسلہ کلام کے بعد ابن عباس ؓ نے عرض کیا کہ اب آپ کے اورآنحضرت ﷺ اورآپ کے اعزہ واحباب سے ملنے میں صرف روح کو جسم کا ساتھ چھوڑنے کی دیر ہے، آپ آنحضرت ﷺ کی محبوب ترین بیوی تھیں اورآنحضرت ﷺ ہمیشہ طیب ہی چیز کو محبوب رکھتے تھے، پھر حضرت عائشہ ؓ کے فضائل بیان کیے۔ [81]
ذکاوت و ذہانت ترميم
عمر کا ابن عباس کو گورنری سے دور رکھنا مسعودی نے ابن عباس سے نقل کیا کہ عمر نے مجھے بلایا اور کہا:حمص کا گورنر فوت ہو گیا ہے وہ نیکوکار تھا اور نیکوکار کم ہيں اور مجھے امید ہے کہ تو ان میں سے ہو لیکن میرا تیرے بارے میں میرے دل میں ایک خدشہ ہے، تمہارا کیا خیال ہے؟ ابن عباس:میں ہرگز گورنری قبول نہیں کروں گا جب تک مجھے اپنے خدشے کے بارے میں نہ بتاو۔ عمر: تجھے اس سے کیا غرض ہے؟ ابن عباس:میں اس کو جاننا چاہتا ہوں، اگر وہ خطرناک ہو تو مجھے بھی اس کے خطرے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے جیسے آپ میرے بارے میں فکر مند ہوئے ہيں اور آکر میں اس سے بری ہوں اور مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ مجھ میں وہ برائي نہيں تو اس کام کو قبول کروں گا، میں نے آپ کو کم دیکھا جس چيز کے بارے میں فکر مند ہوں اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ عمر:اے ابن عباس!میں اس چيز سے خوف زدہ ہوں کہ تیری گورنری میں کوئی حادثہ پیش آئے کہ تمہاری حکومت میں اس کو ہونا ہے کہ تو لوگوں سے کہنے لگے:ہماری طرف آؤ اور تم اپنے بنی ہاشم کے سوا کسی کو قبول نہيں کرو گے، لیکن میں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا تھا کہ تمہیں دور رکھا اور دوسروں کو کام پہ لگایا۔ ابن عباس:تجھے خدا کی قسم!اگر ایسا ہے تو گورنری کیوں دیتے ہو؟ عمر:خدا کی قسم!معلوم نہيں کیا تم گورنری کے لیے مناسب تھے اور تم سے حسد و بدبینی کی وجہ سے تمہيں دور رکھا یا وہ ڈر گئے کہ تمہاری بیعت کریں تو معاملہ مشکل ہو جائے کہ ایسا ہی ہوا، بہرحال تمہاری رائے کیا ہے؟ ابن عباس:میرا خیال ہے کہ میں تمہارے لیے کام نہ کروں؟ عمر:کیوں؟ ابن عباس:اگر میں اس حالت میں تمہارے لیے کام کروں کہ تم میرے بارے میں مطمئن نہیں ہو تو ہمیشہ میں تمہاری آنکھوں کا کانٹا بنا رہوں گا۔ عمر: پس اس معاملے میں کوئی مشورہ دو۔ ابن عباس:کسی ایسے شخص کو کام پر لگاو جو تمہاری نظر میں اور تمہارے لیے زیادہ صالح ہو۔
- ابن عبد ربہ اس کو ابو بکر بن ابی شیبہ م235ھ سے دوسری طرح نقل کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ خلیفہ ثانی کے ابن عباس کو گورنر نہ بنانے کی وجہ یہ بتائے کہ ابن عباس سہم ذوی القربی کے بارے میں بے جا تاویلیں کی ہوئي تھیں اور اس کے لیے امام علی کی طرف منسوب خط کو تائید کے لیے پیش کرتا ہے ابو بکر بن ابی شیبہ نے یہ نقل کیا :ابن عباس عمر کے ہاں سب سے زيادہ محبوب تھے اور عمر انہيں دیگر اصحاب نبوی سے مقدم کرتے تھے لیکن ان کو ہرگز گورنری نہيں دی ان سے ایک دن کہا:شاید میں تجھے گورنر بنادیتا لیکن مجھے ڈر ہے کہ تو تاویل کرکے مال فیئ کو حلال سمجھ لے پس جب امام علی کا دور آیا اور آپ نے ابن عباس کو بصرہ کا والی بنایا تو ابن عباس نے آیت خمس کی تاویل کرکے فیئ کو حلال کر لیا۔
تبصرہ: ابن ابی شیبہ کی تصریح کے مطابق نبی اکرمﷺکے زمانے سے لیکر عمر کی خلافت کے آخری سال تک سہم ذوی القربی کے متولی امام علی بن ابی طالب تھے، بات ابن عباس جیسے دانشمند افراد سے پوشیدہ نہيں تھی پس وہ کس طرح امام علیؑ کی رائے کے بغیر سہم ذوی القربی میں تصرف کرسکتے تھے ثانیا اگر ابن عباس کے بارے میں تاویل کا خوف انہيں گورنر بنانے سے روکتا تھا تو معاویہ کو شام کی حکومت کے لیے کیوں انتخاب کیا کہ ان کے مالیات میں تاویلیں کرنے کے باوجود باقی رکھا؟ ثالثا ابن عبد ربہ نے جس خط کو تائید کے لیے پیش کیا وہ جعلی ہے اس سے ہرگز استدلال نہيں کیا جاسکتا۔[82]
حدیث بیان کرنے میں احتیاط ترميم
امام علی کے فضائل کا بیان عمرو بن میمون کا بیان ہے کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا تھا، آپ کے پاس نو گروہ آئے، ان سے ساتھ چلنے یا خلوت میں بات کرنے کی فرمائش کی، ابن عباس ساتھ چلنے پر راضی ہو گئے، ابن عباس اس وقت نابینا نہيں ہوئے تھے ایک جمع جمع ہوکر باتیں کیں، ہمیں ان کی باتوں کا علم نہيں ہو سکا وہاں سے ابن عباس دامن جھاڑتے ہوئے آئے اور بولے :افسوس! ان لوگوں نے ایسے شخص پر سبّ و شتم کیا ہے جس کے دس فضائل کا حامل کوئي نہيں ہے:
- جس کے لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:میں علم دیکر ایسے شخص کو روانہ کروں گا جو خدا کو محبوب اور وہ خدا کو دوست رکھتا ہے، کسی نے طمع کی نگاہ سے حضور کو دیکھا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: علی کہاں ہيں؟ کہا گیا کہ: وہ آٹا پیسنے میں مصروف ہيں۔
آپ نے فرمایا: کیا ان کے سوا آٹا پیسنے والا کوئی نہيں تھا؟ ایسے میں امام علیؑ آئے تو آشوب چشم میں مبتلا تھے حضور نے لعاب دہن لگایا اور پرچم کو تین بار جھٹکا دیکر امام علی کے حوالے کیا، امام علیؑ صفیہ بنت حییّ کو لیکر واپس ہوئے۔
- نبی اکرم ﷺنے فلاں کو سورہ توبہ دیکر بھیجا پھر پیچھے امام علی ؑکو روانہ کیا، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: سورہ توبہ کی تبلیغ کا حق یا مجھے ہے یا اس کو جو مجھ سے ہو۔
- نبی اکرم ﷺ نے اپنے چچا زاد بھائيوں سے پوچھا:تم میں سے کون ہے جو مجھے دنیا اور آخرت میں دوست رکھتا ہے؟سب ہچکچائے، امام علی نے جواب دیا، نبی اکرم ﷺ نے بار بار امام کے جواب سے چشم پوشی کرتے ہوئے سب سے پوچھا لیکن ہربار امام علیؑ کا جواب ملا تو نبی اکرم ﷺ نے امام علی سے فرمایا: تم دنیا و آخرت میں میرے محبوب ہو۔
- امام علی خدیجہ کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔
- نبی اکرم ﷺ نے اپنی چادر علی و فاطمہ اور حسن و حسین پر ڈالی اور آیت تطہیر کی تلاوت کی۔
- امام علی نے اپنی جان بیچ ڈالی، نبی اکرم ﷺ کا لباس پہن کر آپ کے بستر پر سوئے، ابو بکر آئے اور رسول اکرم ﷺ کو پکارا امام علیؑ نے جواب دیا:آپ بئر میمون کی طرف چلے گئے ہيں ان کے پیچھے جاو، چنانچہ ابو بکر، نبی اکرم ﷺ کے ساتھ غار میں داخل ہو گئے، مشرکین نے آکر امام علی ؑپر پتھر برسانا شروع کر دیے جس طرح نبی اکرم ﷺ پر برساتے تھے، امام علیؑ بسترپر پہوو بدلتے رہے، صبح تک چادر نہيں ہٹائی، صبح کو مشرکین نے علی ؑکی استقامت پر تعجب کیا۔
- نبی اکرم ﷺ نے جنگ تبوک میں امام علی کو ساتھ نہيں لیا تو آپ رونے لکے تو حدیث منزلت فرمائي؛کیا تو اس پر راضی نہيں کہ تیری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہيں، اورمیرے لیے جانا مناسب نہيں سوائے یہ کہ تو میرا خلیفہ ہو۔
- نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:اے علی! تم ہر مومن اور مومنہ کے ولی ہو۔
- نبی اکرم ﷺ نے امام علی کے سوا سب کے دروازے مسجد سے بند کر دیے۔
- نبی اکرم ﷺنے غدیر خم میں امام علیؑ کے بارے میں فرمایا:جس جس کا میں مولا ہو اس اس کے علی مولا ہيں۔[83]
غدیر کی گواہی ترميم
عبداللہ بن جعفر بن ابیطالب کا بیان ہے کہ میں، امام حسن و امام حسین کے ساتھ معاویہ بن ابی سفیان کے پاس موجود تھا اور وہاں عبد اللہ بن عباس و فضل بھی تھے، معاویہ میری طرف متوجہ ہوکر بولا:
تم حسن و حسین کی بڑی تعظیم کرتے ہو، حالانکہ نہ وہ تم سے بہتر ہيں اور نہ ان کے باپ تیرے باپ سے بہتر، اوراگر دختر رسولؐ فاطمہ زہراءؑ نہ ہوتيں تو میں کہتا کہ تمہاری ماں اسماء بنت عمیس ان کی ماں سے کمتر ہے؟
میں نے کہا: خدا کی قسم! تمہاری معلومات ان کے اور ان کے والدین کے بارے میں بہت کم ہيں، خدا کی قسم یہ دونوں مجھ سے بہتر ہيں، ان کے والدین میرے والدین سے بہتر ہيں، اے معاویہ! جو کچھ میں نے ان کے متعلق اور ان کے والدین کے متعلق رسول اکرم ﷺ سے سنا اور اسے یاد کیا ہوا ہے اس سے تو قطعی غافل ہے۔
معاویہ بن ابی سفیان: اچھا تو وہ سب بیان کرو، تم نہ جھوٹے ہو، نہ تم پر تہمت لگائی جاسکتی ہے۔
ابن جعفر: میرا خیال تمہارے خیال سے بہت بلند ہوگا۔
معاویہ بن ابی سفیان: ٹھیک ہے، چاہے وہ احد و حراء پہاڑ سے بھی بڑا ہو، اس وقت تو خدا نے ان کو قتل کر دیا اور تمہاری جمعیت پراگندہ کردی، خلاقت کو اس کے مستحق تک پہنچا دیا، فضائل بیان کرنے میں کوئی حرج نہيں ہے اور نہ اس سے مجھے نقصان ہوگا۔
ابن جعفر:جب یہ آیت[اور(اے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ وقت یاد کریں)جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے اور وہ درخت جسے قرآن میں ملعون ٹھہرایا گیا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کی آزمائش قراردیا اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ تو ان کی بڑی سرکشی میں اضافے کا سبب بنتا جاتا ہے ] نازل ہوئي لوگوں کے استفسار پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں اپنے منبر پر بارہ گمراہی کے سرداروں کوچڑھتے اور اترتے دیکھا اور مات کو الٹے پیر واپس کرنے کی سعی کرتے دیکھا میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا کہ وہ ابو العاص کے بیٹے ہيں، جب ان کی تعداد پندرہ تک پہنچ جائے گی تو کتاب خدا میں تحریف، بندگان خدا کو غلام اور مال خدا کو شخصی ملکیت سمجھنے لگیں گے۔
اے معاویہ! میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا، آپ منبر پر تھے اور میں آپ کے پہلو میں موجود تھا، نبر کے سامنے عمربن ابی سلمہ، اسامہ بن زيد، سعد بن ابی وقاص، سلمان فارسی، ابوذر، مقداداور زبیر بن عوام بھی تھے، آپ نے فرمایا: کیا میں مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ بااختیار نہيں ہوں؟
سب نے کہا: یقینا ہيں، اے خدا کے رسولؐ!
پھر فرمایا:کیا میری بیویاں تمہاری مائيں نہيں ہیں؟
سب نے کہا:یقینا ہيں۔
پھر فرمایا: جس جس کامیں مولا ہوں اس کے نفس پر علیؑ اس سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں۔
پھر امام علی کے شانے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:خدایا! جو ان سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو اس کو دشمن رکھ۔
اے لوگو! میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ بااختیار ہوں، مومنین پر صرف یہی میرا امر ہے ان کے بعد میرا بیٹا حسنؑ مومنین پر اولی بالتصرف ہے اور مومنین پر صرف یہی اس کا امر ہے۔
دوبارہ لوگوں سے خطاب فرمایا:جب میں دنیا سے رخصت ہوجاوں تو علی تمہارے نفسوں پر زیادہ مختار کل ہوں گے، جب علی دنیا سے رخصت ہوجائيں تو میرا بیٹا حسن مالک و مختار ہے، حسن کے بعد میرا فرزند حسین مالک و مختار ہے۔
آخر میں عبد اللہ کا بیان ہے کہ معاویہ کہنے لگا:اے فرزند جعفر!تم نے بڑی بات کہی ہے اگر تمہاری بات سچ ہے تو تمہارے خاندان والوں کے سوا سبھی ہلاک ہو گئے، نہ مہاجر باقی بچے نہ انصار۔
ابن جعفر: خدا کی قسم جو کچھ میں نے کہا وہ حق و حقیقت ہے میں نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے۔
معاویہ بن ابی سفیان نے امام حسن و حسین نیز عبد اللہ بن عباس کی طرف رخ کرکے کہا: فرزند جعفر کیا کہہ رہے ہيں؟
ابن عباس نے جواب دیا: اگر تمہيں ان کے بیان پر ایمان نہين تو انہوں نے جن لوگوں کا نام لیا ان سے پوچھ لو۔
معاویہ بن ابی سفیان نے عمر بن سلمہ و اسامہ کے پاس آدمی بھیجا تو انہوں نے گواہی دی کہ فرزند جعفر نے جو کچھ کہا اسے ہم لوگوں نے بھی سنا ہے۔
آخر میں عبد اللہ بن جعفر نے کہا: ہمارے رسول ؐنے یقینا بہترین افراد کو غدیر خم میں اور دوسرے مواقع پر امت کی ہدایت کے لیے متعین فرمایا، ان پر حجت قرار دیا، ان کی اطاعت کا حکم دیا، انہيں سمجھا دیا کہ علی کی نسبت رسول سے وہی ہے جو ہارون کو موسیؑ سے تھی اور یہ کہ نبی اکرمﷺ کے بعد وہ تمام مومنین کے ولی ہيں اولی بالتصرف ہيں رسول ؐکی طرح، علی جانشین رسول ؐ ہيں، ان کے وصی ہيں، ان کی اطاعت خدا کی اطاعت، ان کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے، ان کی دوستی خدا کی دوستی ہے، ان سے کینہ خدا سے کینہ ہے۔[84]
ابن زبیر کے مقابلے میں فرزند عباس کی قدردانی ترميم
عبد اللہ صفوان بن امیہ کا بیان ہے کہ ابن زبیر کے عہد حکومت میں میرا گزر مکہ کی ایک گلی سے ہوا تو میں نے ایک دروازے پر لوگوں کے ہجوم کو دیکھا، معلوم ہوا کہ یہ تمام لوگ عبد اللہ بن عباس سے تفسیر و حدیث اور فقہ حاصل کرنے کے لیے جمع ہیں۔ میں یہ منظر دیکھ کر آگے روانہ ہوا تو میں نے ایک وسیع مکان میں لوگوں کی آمد و رفت ملاحظہ کی، معلوم ہوا کہ یہ عبید اللہ بن عباس کا مکان ہے جہاں غرباء و مساکین کو مفت کھانا کھلایا جاتا ہے۔ میں یہ دونوں منظر دیکھ کر عبد اللہ بن زبیر کے پاس آیا اور کہا: یہ عجیب بات ہے کہ تو نے خلافت کا دعوی کیا ہوا ہے لیکن تیری کنجوسی پورے عرب میں ضرب المثل بن چکی ہے جبکہ عباس کے دو بیٹوں نے تیرے لیے فضیلت کا کوئی موقع باقی نہيں رکھا، ایک بھائی تفسیر و حدیث اور فقہ کا معلّم ہے اور ہزاروں طلاب اس سے صبح و شام مستفید ہو رہے ہيں جبکہ دوسرے بھائی کا دستر خوان ہر غریب و مسافر کے لیے بچھا ہوا ہے۔ یہ سن کر ابن زبیر سخت پریشان ہوا اور اس نے دونوں بھائيوں کو بلا کر خوب سرزنش کی اور کہا:آئندہ تمہارے دروازوں پر یہ لوگوں کا ہجوم نہ ہو۔ یہ طرفہ سن کر ابو طفیل عامر بن وائل کنانی نے چند اشعار کہے جن میں اس نے عباس کے دونوں بیٹوں کی تعریف کی اور ابن زبیر کا شکوہ کیا۔ میراث میں "عول" کی مخالفت ایک دن ابن عباس نے کہا: جو شخص "عول" کے مسئلے میں نزاع کرے میں اس سے مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ کسی نے کہا: اے فرزند عباس!تم اس وقت بڑی شد و مد کے ساتھ اس کی مخالفت کر رہے ہو جبکہ عمر کے دور میں تم خاموش تھے، اس کی کیا وجہ ہے؟ ابن عباس نے کہا:وہ بہت خوفناک آدمی تھے، میں نے ان کے ڈر سے عول کی مخالفت نہيں کی تھی۔ ابن عباس کا خطبہ بصرہ اور انجام کا بیان شیخ طوسی نے امالی میں اپنی سند سے یونس بن عبد الوارث کی زبانی ابن عباس کی یہ تقریر نقل کی ہے۔ ابن عباس نے بصرہ کے منبر پہ یہ خطبہ دیا:اے اپنے دین میں حیران و پریشان ہونے والی امت! خدا کی قسم اگر تم اسے مقدم رکھتے جسے خدا نے مقدم کیا تھا اور اسے موخر کرتے جسے اللہ نے موخر کیا تھا اور ولایت و وراثت کو وہاں رکھتے جہاں اللہ نے اسے رکھا تھا تو اللہ کا کوئی فرض آج ضائع نہ ہوتا اور آج کوئی بھی خدا کا دوست تنگ دست نہ ہوتا، اب جوکچھ تم کرچکے ہو اس کا ذائقہ چکھو اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔ قاضی شوشتری نے فرمایا: روایات سے ظاہ رہے کہ امام علی نے ابن عباس کو طلحہ و زبیر سے اتمام حجت کے لیے بھیجا اور انہوں نے بڑے روشن دلائل سے امیر المومنینؑ کی حقانیت کو ثابت کیا، امام علیؑ نے ان کے انداز دلیل کو دیکھ کر فرمایا:جس کا ابن عباس جیسا چچا زاد بھائي ہو تو اللہ تعالی نے اس کو آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کی ہے۔ معاویہ بن ابی سفیان سے بحث اور اہل بیت ؑکی مرجعیت کا بیان طبرسی نے احتجاج میں سلیم بن قیس کی کتاب سے ابن عباس کی معاویہ سے یہ گفتگو اس طرح نقل کی ہے: ایک مرتبہ معاویہ بن ابی سفیان مدینہ آئے اور وہ جہاں جہاں سے گزرتے لوگ ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے، اس کا گزر قریش کے مجمع سے ہوا اور اس گروہ میں عبد اللہ بن عباس موجود تھے، تمام مجمع نے اٹھ کر اس کی تعظیم کی لیکن ابن عباس بدستور بیٹھے رہے، معایہ نے انہیں مخاطب ہوکر کہا: میں جانتا ہوں کہ جنگ صفین کا کینہ تیرے دل میں ہے اسی لیے تو نے میری تعظیم نہيں کی اس کے باوجود میں درگزر کروں گا کیونکہ میں اس عثمان کا رشتہ دار ہوں جسے ظلم سے قتل کیا گیا۔ ابن عباس نے کہا: کیا کیا جائے عمر بن خطاب بھی قتل ہوئے تھے اور وہ بھی مظلوم ہوکر قتل ہوئے (مگر ان کے بارے میں ایسا نہيں کرتے ہو)۔ معاویہ بن ابی سفیان نے کہا: دونوں میں بڑا فرق ہے عمر کو ایک کافر نے قتل کیا تھا جبکہ عثمان کو مسلمانوں نے قتل کیا تھا۔ ابن عباس نے کہا:اس سے تیرا تمام دعوی ہی باطل ہوجاتا ہے۔ ابن عباس کا یہ جواب سن کر معاویہ شرمندہ ہوا۔ پھر اس نے ابن عباس سے کہا: میں نے پورے ملک میں تحریر حکم جاری کیا ہے کہ کوئي شخص علی اور اہل بیت کے فضائل بیان نہ کرے اور میں تجھے بھی یہی حکم دیتا ہوں کہ علی کے فضائل بیان نہ کرنا۔ ابن عباس نے کہا: کیا تو مجھے قرآن کی تلاوت سے روکنا چاہتا ہے؟ معاویہ نے کہا:ہاں میں ایسا ہی کرنا چاہتا ہوں۔ ابن عباس نے کہا: پھر اس کا مقصد تو یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھیں اور مفہوم قرآن کو سمجھنا چھوڑ دیں اور اس پر عمل بھی نہ کریں۔ معاویہ نے کہا: مفہوم قرآن کے لیے ایسے افراد سے سوال کرو جو تیری اور اہل بیت کی بیان کردہ تفسیر و تاویل کی مخالفت کرتے ہوں۔ ابن عباس نے کہا: مگر اللہ تعالی نے قرآن کو اہل بیت کے گھر میں نازل کیا ہے اور میں تفسیر کے لیے اہل بیت کو چھوڑ کر آل ابی سفیان کی طرف رجوع کروں؟ معاویہ نے کہا:ابن عباس! اپنی زبان پر قابو رکھو اور اگر تو نے ایسا کرنا ہے تو اپنی خاموشی سے کرو کہ کوئي دوسرا تجھ سے سننے نہ پائے۔[85]
ابن عباس کی ابن زبیر سے بحث ترميم
ایک دفعہ ابن زبیر نے ابن عباس سے کہا: تو نے ام المومنین حرم نبی سے جنگ کی اور تو نے متعہ کے حلال ہونے کا فتویٰ جاری کیا؟ ابن عباس نے جواب دیا: حرم نبی کو تواور تیرا باپ اور تیرا ماموں گھر سے باہر نکال لائے تھے جبکہ وہ ہماری وجہ ہی سے امّ المومنین کہلاتی تھیں اور ہم اس کے نیک بیٹے تھے اور ویسے تجھے حیا آنی چاہیے کیونکہ تو نے اور تیرے باپ نے امیر المومنین سے جنگ کی تھی اور تم نے لوگوں کو گمراہ کیا تھا اور انہيں امام علی کے مقابلے میں لائے تھے۔ اگر تم علی بن ابی طالب کو مومن مانتے ہو تو تم نے ایک مومن کے خلاف تلوار اٹھا کر اپنے لیے دوزخ خریدی ہے اور اگر خدانخواستہ تم امام علی کو کافر سمجھتے ہو تو ایک کافر کے سامنے تم نے پشت دکھا کر اللہ کے غضب کو دعوت دی اور یوں تیرا ٹھکانہ جہنم ہے جہاں تم ہمیشہ رہو گے۔ اور متعہ کو میں نے حلال نہيں کیا بلکہ متعہ کو نبی اکرم ﷺ نے حلال قرار دیا تھا اسی لیے میں نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے۔ امام حسن کی روضہ نبوی میں تدفین سے ممانعت پر تبصرہ امام حسن مجتبیٰ کی شہادت کے بعد امام حسین اپنے بھائی کی میت کو دفن کرنے کے لیے روضہ رسول کی طرف لے جا رہے تھے کہ عائشہ بنت ابی بکر خچر پر سوار ہوکر آئيں اور دفن سے منع کیا، ابن عباس یہ دیکھ کر برداشت نہ کرسکے اور کہنے لگے: تجمّلتِ، تبغّلتِ و ان عِشتِ تفیّلتِ لکِ التُسعُ مِنَ الثُّمنِ وَ بِالکُلِّ تَمَلَّکتِ۔ تو اونٹ پر بیٹھی، خچر پر سوار ہوئي اور اگر زندہ رہی تو ہاتھی پر بھی بیٹھے گی جبکہ تیرا حصہ آٹھویں میں سے نواں ہے یعنی 72/1 حصہ اور تو نبی پاک کی تمام جائداد کی مالک بن بیٹھی ہے۔
ابن عباس کا عمرو بن عاص کو جواب خط ترميم
معاویہ نے عمر و عاص سے کہا:علی کے بعد سب سے مشہور و معروف شخیتت ابن عباس کی ہے اگر وہ کوئی بات کہے تو علیؑ اس کی مخالفت نہیں کریں گے، جتنی جلدی ہو کوئی تدبیرکروکیونکہ یہ جنگ ہم لوگوں کو ختم کردیگی، ہم ہرگز عراق نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ شام کے لوگ نابود ہوجائیں۔ عمر و عاص نے کہا:ابن عباس دھوکا نہیں کھا سکتے اگر اس کو دھوکا دے دیا تو علیؑ کو بھی دھوکا دے سکتے ہو، معاویہ کے بے حد اصرار پر عمر و عاص نے ابن عباس کو خط لکھا اور خط کے آخر میں کچھ شعر بھی لکھے، جب عمروعاص نے اپنا خط او ر اپنا کہے ہوئے شعر معاویہ کو دکھائے تو معاویہ نے کہا لاٰ أریٰ کتابک علیٰ رقّةِ شعرِک یعنی تیراخط تیرے شعر کے پائے کا نہیں ہے! دھوکا بازوں کے سردار نے اس خط اور اشعار میں ابن عباس اور ان کے خاندان کی تعریف اور مالک اشتر کی برائی کی تھی اور آخر میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر جنگ ختم ہو گئی تو ابن عباس شوریٰ کے ایک ممبر ہوگے جس کے ذریعے سے امیر اور خلیفہ معین ہوگا، جب یہ خط ابن عباس کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کودکھایا اس وقت امام نے فرمایا۔ خدا وند عالم عاص کے بیٹے کو موت دے، کیسا دھوکا دینے والا خط ہے جتنی جلدی ہو اس کاجواب لکھو اور اس کے شعر کے جواب کے لیے اپنے بھائی سے شعر لکھواؤ کیونکہ وہ شعر کہنے میں ماہ رہے۔
- ابن عباس نے خط کے جواب میں لکھا: میں نے عربوں کے درمیان میں تجھ جیسا بے حیا نہیں دیکھا، اپنے دین کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا اور دنیا کو گناہگاروں کی طرح بہت بڑاسمجھا اور ریاکاری کے ذریعے تقویٰ نمایاں کرتا ہے، اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کو راضی کرے، تو سب سے پہلے مصر کی حکومت کی ہوس اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر واپس چلاجا۔
علی اور معاویہ ایک جیسے نہیں ہیں، معاویہ نے ناحق جنگ شروع کی ہے اور اب خونریزی کا اسراف کر رہا ہے اور عراق اور شام کے لوگ برابر نہیں ہیں، عراقیوں نے بہترین مخلوق کی بیعت کی ہے اور شامیوں نے بدترین مخلوق کی بیعت کی ہے، تو اور میں بھی اس سلسلے میں برابر نہيں ہيں، میں نے خدا کی مرضی چاہی ہے اور تو نے مصر کی حکومت اور پھر ان اشعار کو جو ان کے بھائی فضل نے عمروعاص کے اشعار کے وزن پر کہے تھے اس خط میں لکھا: اے عمرو! تیرے حیلوں کا صرف یہی علاج ہے کہ مسلسل تیرے نرخروں پر ضرب لگائي جائے تاکہ تیرا غرور ٹوٹے، امام علی کو خدا نے برتری دی ہے تم جنگ سے باز آجاو تو ہم بھی ہاتھ کھینچ لیں گے۔ اور ابن عباس نے امام علی کو خط دکھایا، امام علی نے کہا: اگر وہ عقلمند ہوگاتو تمھارے خط کا جواب نہیں دے گا۔ جب عمرو عاص کو خط ملا تو اس نے معاویہ کو دکھایا اور کہا: تو نے مجھے خط کی دعوت دی لیکن نہ تجھے کوئی فائدہ ہوا اور نہ مجھے فائدہ ہوا۔ معاویہ نے کہا: علی اور ابن عباس کا دل ایک ہی جیسا ہے اوردونوں عبد المطلب کے بیٹے ہیں۔
- جب معاویہ بن ابی سفیان نے احساس کیا کہ علی بن ابی طالب کے سپاہی پہلے سے کچھ زیادہ آمادہ ہو گئے ہیں اور محاصرہ تنگ ہو گیا ہے اورقریب ہے کہشکست کھا جائیں تو اس نے خود براہ راست ابن عباس کو خط لکھا اور یا د دلایا کہ یہ جنگ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان میں بغض وعداوت کی بھڑکتی ہوئی چنگاری ہے اور انہیں اس کام کے انجام سے ڈرایا، اس خط میں اس نے ابن عباس کو لالچ دلائی اور کہا : اگر لوگ تمھارے ہاتھ پر بیعت کریں تو ہم بھی تمھار ی بیعت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جب ابن عباس کو خط ملا تو آپ نے ٹھوس او ر دندان شکن جواب معاویہ کو لکھا، ایسا جواب کہ معاویہ اپنے خط لکھنے پربہت شرمندہ ہوا اور کہا یہ خود میر ے کام کا نتیجہ ہے اب ایک سال تک اُسے خط نہیں لکھوں گا۔
ابن عباس اور عمرو بن عاص کی گفتگو ترميم
ایک دن راستے میں عمرو بن عاص کی ابن عباس سے ملاقات ہو گئی، عمرو نے جل بھن کر کہا:ابن عباس! جب بھی مجھے دیکھتے ہو ناپسندیدہ ہی نظردیکھتے ہو جیسے تمہاری آنکھوں میں زخم ہو لیکن جب لوگوں کے سامنے ہوتے ہو تو نادانی، کمزوری اور وسواس کا مظاہرہ کرتے ہو۔ ابن عباس:کیونکہ تم دوغلے ہو، قریش نیک شعار ہيں، باطل و جہالت سے پرہیز کرتے ہيں، حق پہچاننے کے بعد چھپاتے نہيں، معنوی بزرگی بھی ہے، تم قریش سے کہاں ہو؟ تم تو دو بستروں سے پیدا ہوئے ہو، بنی ہاشم و بنی عبد الشمس میں سے کوئی تمہيں اپنانے پر آمادہ نہيں ہے، تم تو گمراہ، حرامی اور گمراہ کرنے والے ہو، معاویہ نے حکومت دے دی تو تم پھولنے لگے۔ عمرو:میں جب بھی تمہيں دیکھتا ہوں خوش ہوتا ہوں۔ ابن عباس:میں حق کی طرف مائل اور حق کا پرستار ہوں۔ عبد اللہ بن جعفر، معاویہ کی مجلس میں وارد ہوئے، وہاں ابن عباس و عمرو بن عاص بھی موجود تھے، عبد اللہ کو آتے دیکھ کر عمرو نے طعن و تشنیع شروع کردی، ابن عباس نے اسے آڑے ہاتھوں لیااور کہا: خدا کی قسم! تم جھوٹے ہو، یہ تو ذکر خدا، نعمتوں کے شکر گزار، برائيوں سے کنارہ کش، سخی، شریف اور سردار ہيں، یہ شریف النسب ہيں، حرامی نہيں اور نہ ہی کم ظرف ہیں۔ یہ ایسے بھی نہيں جن کے متعلق قریش کے آوارہ لوگوں نے دعوی کیا ہو، پھر ایک قصاب بازی لے جائے۔ ہاں عبد اللہ ان ذلیل لوگوں کی طرف نہيں جن کے متعلق دو خاندان والے جھگڑا کر لیں کہ نہ معلوم کس محلے کا نوزائیدہ ہے۔ پھر عمرو کی طرف رخ کیا :کاش میں سمجھ سکتا کہ تم کس پاک نسب و عظیم شخصیت کو چھیڑ رہے ہو، کمینے، حرامی! اپنی حد میں رہنے کی کوشش کر۔ عبد اللہ نے ابن عباس سے کہا:خدا کی قسم! اب رہنے دیجئے، آپ نے اچھی طرح میرا دفاع کیا ہے۔[86]
وصال ترميم
ابن عباس آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے اور مکہ میں زندگی بسر کرتے تھے، انہیں عبد اللہ بن زبیر اور عبد الملک بن مروان کی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ عبد اللہ بن زبیر نے آپ سے بیعت طلب کی لیکن ابن عباس نے انکار کر دیا؛ لہذا ابن زبیر نے انہیں طائف جلا وطن کر دیا۔ مشہور یہ ہے کہ ابن عباس کا انتقال سن 68 ہجری میں ستر سال کی عمر میں طائف میں ہوا اور محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ آپ کی وفات سن 69 ہجری میں نقل ہوئی ہے۔ ابن عباس آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے لہذا ان اشعار کو پڑھا کرتے تھے:
ان یاخذ اللہ من عینی نورھما ففی لسانی و قلبی منھما نور
اگر خدا نے میری آنکھوں کی بینائی لے لی ہے تو میری زبان اور کان کا نور تو ابھی باقی ہے۔
قلبی ذکی و عقلی غیر ذی دخل و فی فمی صارم کالسیف ماثور
میرا دل ذکی اور عقل سالم ہے میرے منہ میں تیز شمشیر کی مانند زبان ہے۔
اولاد ترميم
آپ کے پانچ بیٹے تھے[87]
حوالہ جات ترميم
- ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118925857 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb120855658 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ General Diamond Catalogue ID: https://opac.diamond-ils.org/agent/16273 — بنام: ʿAbd Allāh ibn ʿAbbās Ibn ʿAbbās
- ^ ا ب عنوان : Абдуллах ибн Аббас
- ↑ بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb120855658 — اخذ شدہ بتاریخ: 12 نومبر 2021 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ زندگیاں صحابہ کی: ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا
- ↑ حضرت عبد اللہ بن عباس کے سو قصّے: مولانا اویس سرور ص 19
- ↑ وصححہ الألباني في " السلسلة الصحيحة " ( 6 / 173 )
- ↑ البخاري ( 143 )، ومسلم ( 2477 )
- ↑ الإمام أحمد في " المسند " ( 4 / 225 )
- ↑ (بخاری :2/615)
- ↑ (ایضاً:651)
- ↑ (اصابۃ تذکرہ عبد اللہ بن عباس ؓ)
- ↑ (طبری واقعات 35ھ)
- ↑ (طبری صفحہ 3085)
- ↑ (یہ تمام واقعات طبری سے ماخوذ ہیں)
- ↑ (تاریخ الطوال)
- ↑ (تاریخ طبری: 3449)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (تاریخ طبری:ذکر ماکان فیھامن الاحداث)
- ↑ (طبری ذکر بیعت حسن بن علی ؓ)
- ↑ (اسد الغابہ:3/195)
- ↑ (اسد الغابہ:3/195)
- ↑ (بخاری :2/672)
- ↑ (مستدرک حاکم :3/537)
- ↑ (البقرۃ:266)
- ↑ (بخاری جلد، کتاب الفسیر باب قولہ ایود احدکم ان تکون لہ جنۃ الخ)
- ↑ (جب خدا کی نصرت اورفتح آگئی تو اے پیغمبر تو بہ اور استغفار کرنا)
- ↑ (بخاری:1/743،کتاب التفسیر، باب قولہ فسبح بحمد ربک الخ)
- ↑ (مسلم)
- ↑ (شوریٰ:23)
- ↑ (ایضاً باب قولہ تعالی قل لا الخ)
- ↑ (نساء:94)
- ↑ (بخاری باب قولہ تعالی، لاتقولوا، مسنداحمد بن حنبل:1/229)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل :1/305)
- ↑ (آل عمران:188)
- ↑ (آل عمران:187)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل :1/298)
- ↑ (مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 539)
- ↑ (اصابہ :4/ 96)
- ↑ (کتاب الناسخ والمنسوخ ابو جعفر نحاس)
- ↑ (کتاب النساسخ والمنسوخ ابو جعفر نحاس)
- ↑ (بقرہ:204تا 206)
- ↑ (مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 540 شرط شیخین)
- ↑ (تہذیب الکمال :202)
- ↑ (مستدرک حاکم جلد 3 فضائل ابن عباس ؓ سعی ابن عباس ؓ فی طالب العلم)
- ↑ (تذکرہ الحفاظ :1/5)
- ↑ (اصابہ:4/96)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل :1/ 226)
- ↑ (ابوداؤد کتاب المناسک باب الحرم یضل راسہ)
- ↑ (ابو داؤد کتاب المناسک باب وقت الاحرام)
- ↑ (مسند دارمی باب فی الحدیث عن الثقات)
- ↑ (ایضاباب ماتیقی من تفسیر حدیث النبی ﷺ )
- ↑ (مسند احمد ابن حنبل جلد1 صفحہ 350)
- ↑ (مستدرک حاکم:3/538)
- ↑ (مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصر ہا، باب الجمع بین الصلوٰتین فی الحضر)
- ↑ (استعاب :1/ 353)
- ↑ (مسلم:1 )
- ↑ (تہذیب التہذیب)
- ↑ (اعلام الموقعین:1/ 13)
- ↑ (اعلام الموقعین:1/13)
- ↑ (اعلام الموقعین:1/3)
- ↑ (مستدرک حاکم:3 /539)
- ↑ (اسد الغابہ:2/193)
- ↑ (کتاب العمدہ :5)
- ↑ (استیعاب :1/384)
- ↑ (اصابہ بحوالہ ابن ابی شیبہ تذکرہ عبد اللہ بن عباس ؓ)
- ↑ (اسد الغابہ:3/193،194)
- ↑ (یہ تمام اقوال استیعاب سے منقول ہیں:1/384)
- ↑ (اسد الغابہ : 3/194)
- ↑ (اصابہ:4/92)
- ↑ (زبردست عالم )
- ↑ (اصابہ :4/ 98)
- ↑ (مستدرک حاکم فضائل ابن عباس ؓ)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل :1/330)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل :1/330)
- ↑ (مستدرک حاکم :3/534،535)
- ↑ (مستدرک حاکم:3/534،537بشرط شیخین)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (مسلم کتاب الرضاع باب جواز ہبتہا الفرتہا)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل :1 / 276)
- ↑ العقد الفرید، ابن عبد ربہ، 4ص354-359 ۔
- ↑ مسند احمد بن حنبل 1 ص544 ح3052، مستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، 3ص143 ح4652، مناقب خوارزمی، موفق بن احمد، ص125ح140، الریاض النضرۃ، احمد بن عبد اللہ طبری، 3ص153، البدایۃ و النہایۃ، اسماعیل بن عمرابن کثیر، 7ص337و 7ص373 حوادث سنہ4ھ، مجمع الزوائد، ہیثمی، علی بن ابی بکر، 9ص، 119، کفایۃ الطالب، محمد بن یوسف گنجی شافعی، ص241،ب62، الاصابۃ 2ص509، کنز العمال متقی ہندی، 11ص603 ح32916، تفسیر ثعلبی؛ الکشف البیان آیت 67سورہ مائدہ، تفسیر رازی، 12ص49، تفسیر نیشاپوری 6ص194، خصائص نسائی ص47ح24، سنن نسائی، 5ص15ح8409، الاربعین فی فضائل امیر المومنین ص40ح13۔
- ↑ کتاب سلیم بن قیس ہلالی 2ص834،ح42۔
- ↑ مجالس المومنین قاضی نور اللہ شوشتری، ص316، ترجمہ محمد حسن جعفری، ط اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ کراچی، بی تا۔
- ↑ وقعہ صفین، ابن مزاحم، 550،کتاب صفین، ص414۔41٠، الامامةو السیاسةج1ص99۔98، شرح نہج البلاغۃ، ابن ابی الحدید، 8ص64خطبہ 124،الغدیر علامہ امینی، عبد الحسین، 2ص137۔
- ↑ تاریخ ابنِ کثیر جلد 7