نور محمد نجفی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی، پنجاب رجمنٹ کا ایک دستہ ایتھوپیا میں تعینات تھا۔ انھوں نے ایک جگہ حملہ کیا، لوگ افراتفری میں بھاگ گئے، اس افراتفری میں ایک ماں اپنے بچے کو سنبھال نہ سکی اور اسے پھینک کر خود جان بچا کر بھاگ گئی۔ تعجب ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آجاتا ہے، جب وہ اپنے محبوب ترین فرد کو بھی بوجھ محسوس کرتا ہے اور پھینک دیتا ہے، قیامت یقیناً ایسے ہی حالات کا نام ہے اور ایسے حالات کو درست قیامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آج جن بچوں کے لیے حلال و حرام کی تمیز ختم کر دی جاتی ہے، کل قیامت کی ہولناکیوں کو دیکھ کر انسان انھیں پہنچانے سے بھی انکاری ہو جائے گا۔ وہ بچہ فوجی مرکز لایا گیا، وہاں سے اسے ہندوستان بھیج دیا گیا۔
ہندوستان پہنچے پر پنجاب رجمنٹ کے جس کرنل صاحب نے اسے وصول کیا، وہ چکوال کے سید تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ بچہ بہت چھوٹا ہے تو ترس کھا کر اسے گھر لے آئے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس بچے کا کوئی نام نہیں تھا، ماں باپ نے تو یقیناً کوئی نام رکھا ہوگا، مگر وہ معلوم نہ تھا۔ کرنل صاحب نے اس بچے کا نام نور محمد تجویز کیا اور اپنے جد بزرگوار خاتم الانبیاء کے نام کو اس کے نام کا حصہ بنا دیا۔ بچے کو ملازمہ کے حوالے کر دیا کہ اس کی پرورش کرے۔ جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو اس وقت کا رائج پیشہ یعنی بھیڑ بکریاں چرانا شروع کر دیا۔ کرنل صاحب کے ننھال بھلوال کے تھے، انھوں نے کہلوا بھیجا ہمیں جانور چرانے کے لیے ایک بچے کی ضرورت ہے، یوں نور محمد چکوال سے 7 چک بھلوال پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے بھینسیں چرانا شروع کر دیں، ایک دن حسب معمول بھینسیں چرا رہے تھے کہ دار العلوم محمدیہ بھلوال کے پرنسپل مجاہد عالم دین مولانا غلام قنبر صاحب سر پر گندم کے دانوں سے بھری بوری اٹھائے وہاں سے گذرے، انھوں نے دیکھا ایک بڑا درخت ہے تو اس کے سائے میں بیٹھ گئے۔
قارئین کرام 7 چک سے بھلوال کافی سفر ہے، یہ عالم بزرگوار دانے مانگ کر یا گھر سے لے کر جا رہے تھے، تاکہ طالب علموں کے لیے روٹی کا انتظام ہو سکے۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد انھوں نے اس بھینس چراتے بچے سے کہا کہ گندم کے دانوں کی یہ بوری میرے سر پر رکھواو، بچے نے سر پر رکھوا دی، انھوں نے اگلے ہی لمحے وہ بوری نیچے رکھی اور پوچھا تم کون ہو؟ اس کی وجہ شائد یہ تھی کہ اہل افریقہ کا مجموعی رنگ کالا ہوتا ہے، ان کا رنگ ان سے بھی کالا تھا، دوسرا نقش و نین بھی خوبصورت نہ تھے۔ اس نے ساری کہانی سنا دی۔ مولانا قنبر صاحب نے فرمایا کہ تم درس پڑھو گے، اس نے کہا میں تو پڑھوں گا مگر ان بھینسوں کا کیا کروں؟ مولانا نے کہا یہ بھینسیں یہی رہیں گی، تم میرے ساتھ آو، یوں نور محمد مدرسہ دار العلوم محمدیہ بھلوال پہنچ گیا۔
کچھ عرصہ وہاں پڑھا، بچہ ذہین تھا، استاد نے مرکزی دار العلوم محمدیہ سرگودھا بھیج دیا، جہاں عالم بے بدل، بقول صاحب تذکرہ علمائے پنجاب سیبویہ زمان، اتقیٰ زمان، مفتی محبوب علی قبلہ کا دور دورہ تھا۔ انھوں نے دیکھا بچہ لاوارث اور محنتی ہے تو کلاسوں کے ساتھ ساتھ اسے ہنر کی تعلیم میں بھی شریک کر لیا۔ مفتی محبوب صاحب قبلہ مدرسہ سے تنخواہ نہیں لیتے تھے بلکہ کتابیں جلد کرتے، اس سے جو معاوضہ ملتا، اس سے گذر بسر کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ کی مجلد کتب جامعہ منتظر اور دیگر کئی علمی اداروں میں موجود ہیں۔ ایسی نابغہ شخصیت کی شاگردی نے نور محمد کو ادبیات کا ماہر بنا دیا، اب یہ فیصلہ ہوا کہ نور محمد کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بار گاہ مدینۃ العلم میں نجف جانا چاہیے، اس طرح وہ نجف اشرف پہنچ گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہاں استاد بن گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ علم و فضل اور تقویٰ کی وجہ سے جب وہ نجف کی کسی گلی سے گذر رہے ہوتے تھے تو لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے اور علما انھیں استاذ الکل فی الکل کہتے تھے۔
مولانا غلام جعفر نجفی صاحب نے بڑی خوبصورت بات کی کہ انسان کے دو تعارف ہوتے ہیں، ایک اس کا چہرہ کراتا ہے اور دوسرا اس کا علم و اخلاق کراتا ہے۔ نور محمد کے علم و اخلاق والا تعارف ان سے دس میٹر پہلے چلتا تھا، اس لیے لوگ احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے، شکل و صورت والا تعارف تو کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ آج بھی ان کی اولاد قم و اصفہان میں موجود ہے، جن میں بہت سے علما بھی ہیں۔ یوں وہ لاوارث نور محمد، اسم محمدﷺ کی برکت سے دین محمدی ﷺ کا خادم بن گیا اور باب العلم کے جوار میں رہ کر خدمت علم و طلاب کرتا رہا۔ یہ تو خدا کی عطا ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایتھوپیا میں اتفاق سے پنجاب رجمنٹ ہو، اس میں جس کرنل کے پاس بچہ پہنچے، وہ سید ہو، وہ سید اسے ترس کھا کر گھر لے آئے، پھر وہ بھلوال بھجوا دے، مولانا غلام قنبر سر پر رکھے دانے اتارے کر اس کا بازو تھام لیں اور پھر ابوذر زمان مفتی محبوب ؒ کی شاگردی نصیب ہو۔ یہ سب اتفاق محض نہیں، اگر انسان پاک طینیت ہو تو اللہ انعام دیتا ہے اور اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیتا ہے۔
سائیٹ {{{مضمون کا متن}}}