ہدایت کار: نذرالسلام

کہانی : سید نور

اداکار۔ فیصل الرحمن اور شبنم

1980میں یہ فلم ریلیز ہوئی۔ کہانی کے اعتبار سے یہ فلم یقیناً ایک آرٹ مووی تھی کیونکہ اس میں کہیں بھی بارہ مصالحے والی فلمی کہانی کا فارمولہ نظر نہیں آتا۔

فیصل رحمان گاؤں سے آیا ہوا ایک سیدھا سادہ طالبعلم ہے اور اسی بھولپن میں اپنے سے کئی سال بڑی عورت (شبنم) کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے، لیکن جب شادی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو وہی شبنم جو اتنی مہرومحبت سے پیش آیا کرتی تھی، یک دم طیش میں آجاتی ہے اور اسے گھر سے نکل جانے کو کہتی ہے۔ اب فیصل پر انکشاف ہوتا ہے کہ شبنم تو اسے اپنے چھوٹے بھائی کی جگہ سمجھتی تھی جس کا بچپن ہی میں انتقال ہو چکا تھا۔

فیصل اس انکشاف پر اتنا بددل ہوتا ہے کہ خودکشی کی کوشش کرتا ہے لیکن بروقت امداد اور والدین کی بھاگ دوڑ اور کوشش سے اس کی جان بچ جاتی ہے۔ اس نئی عطا ہونے والی زندگی میں فیصل ایک بالکل نیا انسان بن کر نمودار ہوتا ہے۔ وہ ساری توجہ پڑھائی پر صَرف کر دیتا ہے اور جب اس کی زندگی میں آرزو نامی ایک نوجوان شوخ اور چنچل حسینہ داخل ہوتی ہے جو ہر لحاظ سے اس کے جوڑ کی ہے تو فیصل ایک لمحے کو کچھ سوچتا ہے۔۔۔ اور دِل میں لڑکی کو قبول کر لیتا ہے، لیکن تعلیم ختم کرنے سے پہلے وہ عشق کے چّکر میں نہیں پڑنا چاہتا، چنانچہ لڑکی کو صرف اتنا جواب دیتا ہے:’نہیں۔ ابھی نہیں‘ اور یہی اس فلم کا ٹائٹل ہے۔

اس کہانی میں کسی کمرشل فارمولے پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ عنفوانِ شباب کی سرمستی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ کہانی اُس وقت کے اُبھرتے ہوئے رائٹر سیّد نور نے لکھی تھی جو چار سال قبل فلم ’ سوسائٹی گرل‘ کااسکرپٹ لکھ کر فلمی مصنّفین کے قافلے میں شامل ہوئے تھے اور ایک ہی برس پہلے انھوں نے ٹی وی ڈرامے’ دبئی چلو‘ کو فلمی تقاضوں کے مطابق ایک سکرین پلے کی شکل میں ڈھال کر اپنی قوتِ تحریر کا لوہا منوایا تھا۔