علم الوائرس
وائرسوں کے بارے میں تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیے وائرس
علم الوائرس کا واسطہ خرد حیاتیات (microbiology) کے شعبہ سے ہے جس میں حیاتی وائرسوں کے بارے میں درج ذیل تحقیق و مطالعہ شامل ہے:
- وائرسوں کی ساخت
- وائرسوں کی جماعت بندی
- وائرسوں کی خلیات پر عفونیت (infection) اور امراض پیدا کرنا
- ان کی بازیافت یعنی isolation اور اِستِـنبات یعنی culture
- ان کا تحقیق و علاج میں ممکنہ استعمال
وائرس (virus) کے مطالعے کو سُمیات یا علمُ الوائرس (Virology) کہتے ہیں۔ وائرس کا لفظ دراصل لاطینی اور اس سے قبل یونانی زبان سے آیا ہے جس کا مفہوم زہر ہے۔ عربی میں زہر کے لیے سُم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو اردو میں بھی مُستعمل ہے اس لیے وائرولوجی (Virology) کے لیے سُمیات کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ ایک اور اصطلاح ’’ٹاکسی کولوجی‘‘ (toxicology) کے لیے بھی عربی اور اردو میں ’’سمیات‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ کیونکہ لفظ ٹاکسین (toxin) بھی زہر (poison) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ وائرسز دراصل زیر خورد بینی (submicroscopic) جینیاتی مواد (genetic material) پر مشتمل وہ طفیلی ذرات (parasitic particles) ہوتے ہیں جن کے اوپر لحمیات (protein) کی تہ (coat) ہوتی ہے۔ علمِ سُمیات میں وائرس کی ساخت، جماعت بندی اور ارتقا کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ وائرس اپنے افزائشِ نسل (reproduction) کے لیے میزبان خلیے کو کیسے متاثر کرتا ہے اور اس بات کا تجزیہ کیا جاتا ہے کہ اس کے میزبان نامیہ (host organism) کے فعلیات (physiology) اور قوتِ مدافعت (immunity) سے باہمی عمل کا کیا نتیجہ ہے۔ اور یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ وائرسز کون کون سی بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ اور وہ کون سے طریقہ کار ہیں جن سے وائرسز سے پھیلنے والی بیماروں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ سُمیات، خرد حیاتیات (microbiology) کا ایک ذیلی شعبہ ہے۔
ساخت و جماعت بندی
ترمیم- وائرسوں کی جماعت بندی پر تفصیلی مضمون کے لیے وائرسوں کی جماعت بندی دیکھیے۔
وائرسوں کو ان کی مختلف اقسام کے خلیات میں عفونیت پیدا کرنے کے لحاظ سے بھی جماعت بند کیا جا سکتا ہے:
- حیوانی وائرس
- نباتی وائرس
- فنجی وائرس
- بیکٹیریوفیج وائرس
سُمیات کی بڑی شاخ ’’وائرس جماعت بندی‘‘ (virus classification) ہے۔ وائرس کی جماعت بندی ان کے میزبان خلیے (host cell) کے مطابق کی جاتی ہے۔ جیسے حیوانی وائرسز (animal viruses)، نباتاتی وائرس (plant viruses)، فُطری وائرس (fungal viruses) اور جراثیمی وائرسز (bacteriophages) ، (جراثیمی وائرسز وہ وائرسز ہیں جو جراثیم کو متاثر کرتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔) وائرسز کی جماعت بندی ان کی ہندسیاتی شکلوں (geometrical shape) سے بھی کی جاتی ہے۔ جیسے خولِیا وائرسز (capsid viruses)، حَلَزُونی وائرسز (helix viruses) اور بست پہلو وائرسز (icosahedron viruses) وغیرہ۔ اس کے علاوہ وائرسز کی ساخت کے لحاظ سے بھی ان کی جماعت بندی کی جاتی ہے جس میں وائرسز کے گرد شحمیاتی لفافے (lipid envelope) کی موجودگی اور غیر موجودگی کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ وائرسز کی جسامت 30 نینو میٹر سے 450 نینو میڑ تک ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ بصری خوردبین (optical microscope) سے نہیں دیکھے جا سکتے۔ وائرسز کی ساخت دیکھنے کے لیے الیکڑان خوردبینی (electron microscopy) یا نیوکلیائی مقناطیسی گُمکی طیف بینی (NMR spectroscopy) اور لاشعاعی قلم نگاری (X-ray crystallography) استعمال کی جاتی ہے۔ وائرسز کی جماعت بندی ان کے جینیاتی مواد (genetic material)، ان کے اس نیوکلیائی تُرشہ (nucleic acid) کی قسم جو وہ استمال کرتے ہیں اور وائرسی نقل پزیری (viral replication) کے اس طریقے کی بنیاد پر بھی کی جاتی ہے جس طریقے سے وہ مزید اپنی نقل تیار کرنے کے لیے اپنے میزبان خلیے (host cells) کو متاثر کرتے ہیں۔ جینیاتی مواد کی بنیاد پر وائرسز کو ڈی این اے وائرسز (DNA viruses) اور آر این وائرسز (DNA viruses) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ڈی این اے وائرسز وہ ہیں جو ڈے این اے جنیاتی مواد رکھتے ہیں۔ عام بیماریوں جیسے چیچک (smallpox)، خسرہ (chickenpox) اور چھالے (herpes) وغیرہ کا باعث ڈی این اے وائرسز ہوتے ہیں۔ اور آر این اے وائرسز وہ ہیں جو آر این اے جینیاتی مواد رکھتے ہیں۔ قابلِ ذکر انسانی بیماریاں جیسے ایبولا (Ebola virus disease)، سارس (SARS)، مرض الکلب (rabies)، زکام (common cold)، انفلوائنزا (influenza)، ہیپیٹائٹس سی (hepatitis C)، ہیپیٹائٹس ای (hepatitis E)، تب نیل غربی (West Nile fever)، پولیو (polio)، چھالے (measles) اور کوڈ 19 (COVID-19) وغیرہ کا باعث آر این اے وائرسز ہیں۔