وادی سندھ کے لوگ کون تھے۔ وادی سندھ کے طول و عرض میں کون سی نسل یا نسلیں آباد تھیں۔ اس بارے میں پرانا تصور ہے کہ یہ لوگ دراوڑ تھے، مغربی ایشیائ سے آئے تھے اور تہذیب سندھ کے زوال کے ساتھ ہی جنوب و مشرق کی طرف چلے گئے ۔

لیکن موجودہ نظریہ اس سے مختلف ہے۔ اس میں اختلاف ان کی نسلی ساخت کے بارے میں ہے۔ دراوڑ کہلانے کے بارے میں نہیں۔ ان لوگوں کی نسل جاننے کے بارے میں دو بڑے ماخذ ہیں ۔

(1 ) اصل انسانی ڈھانچے جو کھدائیوں سے دستیاب ہوئے۔ ان کی تعداد کوئی سوا سو کے قریب ہے۔ ہڑپہ کے مدفن ( 37-R ) سے 75 ڈھانچے۔ موہنجودڑو سے پچاس اور لوتھل سے دس ڈھانچے اس دور کے ملے ہیں۔ ہڑپہ مدفن ( H ) بعد کے دور کا ہے۔ ایک ڈھانچہ نال سے ملا ہے اور چند چنھودڑوسے ۔

( 2 ) پتھر اور کانسی کے انسانی مجسمے

ہڑپہ کا قبرستان مدفن ( 37-R ) قلعے کے جنوب کی طرف ہے۔ اس میں سے کل 57 لاشیں نکلی ہیں۔ دو کے سوا یہ سب عام لوگوں کی لاشیں ہیں۔ دو لاشیں دولت مند طبقے کی سمجھی جا سکتی ہیں۔ کیوں کہ ان میں سے ایک جو عورت کی تھی اور دیودار کی لکڑی کے تابوت میں بند تھی۔ دوسری لاش کی قبر کے چاروں طرف اینٹوں کی دیوار بنائی گئی تھی ۔

باقی ماندہ لاشوں میں سے پندرہ بالغ مرد اور انیس بالغ عورتیں ہیں۔ دو شیر خوار بچے ہیں۔ اکیس مرد کاکیشائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنہیں پروٹو آسٹریلائڈ بھی کہتے ہیں۔ ان کا قد پانچ فٹ آٹھ انچ ہے اور سر لمبوترا ہے۔ دس افراد بحیرہ روم کی نسل جو ہند یورپی بھی کہلاتی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو آج بھی لائبریا سے برصغیر پاک و ہند تک کئی ممالک میں پھیل ہوئی تھی ہے۔ پگٹ کا خیال ہے کہ یہی لوگ نو دس ہزار سال پہلے فلسطین میں آباد تھے اور بعد میں شمالی افریقہ اور ایشیائ میں مختلف شکلوں میں یہی نسل ظاہر ہوئی۔ مصر میں شاہی نظام سے پہلے یہی لوگ آباد تھے اور یہ نسل اپنی خالص ترین شکل میں مشرق وسطی کے ممالک میں آباد ہے۔ یعنی عرب قوم ان کی جسمانی خصوصیات میں درمیانے سے لے کر لمبا قد، جلد کا رنگ سانولے سے لے کر کھلتا ہوا گندمی رنگ تک۔ سر اور چہرہ لمبوترا، تنگ اور اونچی ناک، سر کے بال سیاہ سے بھورے تک۔ آنکھیں عموماً بڑی اور کھلی ہوئی قدیم مغربی ایشیائ میں دور دور تک یہ نسل پھیلی ہوئی ہے ۔

بالغ افراد کی عمر بیس اور چالیس کے درمیان تھی۔ زیادہ تر تیس سال کے قریب تھے ۔

موہنجودڑو میں باقیدہ قبریں نہیں ملی ہیں۔ پانچ جگہوں پر لاشیں یکجا ملی ہیں اور لگتا ہے کہ یہ سب لوگ قتل ہوئے ہیں اور لاشیں اپنی جگہ پڑی پڑی مرود ایام سے دفن ہوگئیں۔ ویلر کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے باقیدہ قربرستان شہر کے مضافات میں کہیں ہوگا۔ جسے اب تک کھودا نہیں گیا۔ لیکن جو ڈھانچے اب تک ملے ہیں وہ آخری قتل عام کے مقتولین لگتے ہیں۔ ان میں سے تین کاکیشائی ( پروٹو آسٹریلائڈ ) ہیں۔ ان کے قد چھوٹے، سر لمبوترے اور ناک چوڑی تھی۔ ان کا نچلا جبڑا قدرے آگے کو بڑھا ہوا تھا۔ ان کے علاوہ چھ ڈھانچے رومی یا ہند یورپی یا خضری یا کیپسیئن نسل کے ہیں۔ ( جو ایک ہی نسل کے متفرق نام ہیں ) ان کے سر لمبوترے، مگر زیادہ نہیں، ناک لمبائی میں کم، تنگ اور اونچی تھی۔ ان کے نقوش تیکھے اور نفیس تھے۔ ان میں ایک مرد کا قد پانچ فٹ ساڑھے چار انچ۔ ایک عورت کا قد 4 فٹ 6 انچ ہے اور ایک دوسری عورت کا قد 4 فٹ 1/2 4انچ ہے ۔

چار ڈھانچے غالباً الپائن نسل کے ہیں اور ایک ڈھانچہ الپائن نسل کی منگولیائی شاخ کا تھا۔ یہ واحد مرد یا تو کوئی مسافر تھا یا پردیسی ۔

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور