شمالی افریقہ (northern africa) یا (north africa) بحیرہ روم اور صحرائے اعظم کے درمیان میں گھرا ہوا براعظم افریقا کا شمالی علاقہ قدیم ترین تاریخ کا حامل ہے۔ 6 ہزار سال قبل یہاں دریائے نیل کے پہلو میں عظیم انسانی تہذیبوں نے جنم لیا۔ بعد ازاں رومی، عرب اور ترک اس علاقے میں اپنی اپنی ثقافت لائے۔ 19 ویں صدی میں اسپین، فرانس اور برطانیہ نے خطے میں نوآبادیات قائم کر لیں لیکن اب تمام خطہ آزاد ہے۔ اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق مندرجہ ذیل ممالک شمالی افریقہ کا حصہ ہیں:

شمالی افریقا
ملک
Time zonesمتناسق عالمی وقت±00:00
متناسق عالمی وقت+01:00
متناسق عالمی وقت+02:00
Population density of Africa (2000)
اقوام متحدہ اور جغرافیائی تعریف کے مطابق شمالی افریقہ کا نقشہ

جغرافیائی طور پر کبھی کبھار ماریطانیہ، مالی، نائجر، چاڈ، ایتھوپیا، ایریٹریا اور جبوتی کو بھی اس خطے میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ شمالی افریقہ کو عام طور پر مشرق وسطٰی کے ممالک میں شامل کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ممالک جنوب مغربی ایشیا کے ممالک سے زیادہ قریبی مذہبی و ثقافتی تعلق رکھتے ہیں جبکہ صحرائے اعظم کے پار کے ممالک سے ان کے روابط کم ہی رہے۔

مسلمانوں نے 7 ویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ فتح کیا۔ المغرب اور صحرائے اعظم کے افراد بربر اور عربی زبانیں بولتے ہیں اور تقریباً پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مصر قدیم تہذیبوں کی سرزمین ہے اور قبل از اسلام اور بعد از اسلام کی عظیم سلطنتوں کا مسکن رہی ہے۔

ان میں بربروں کی عظیم سلطنت موحدین قابل ذکر ہے جو 11 ویں صدی میں ایک مذہبی اصلاحی تحریک کے طور پر ابھری اور جلد ہی شمالی افریقہ کے مغربی علاقوں سے نکل کر اسپین تک پھیل گئی۔ اس عظیم تحریک کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلام کے اثرات آج بھی ان ممالک پر بدستور گہرے ہیں۔ قرون وسطٰی میں تقریبً پورا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگین آگیا البتہ مراکش تک عثمانیوں کے قدم نہ پہنچ سکے۔ 19 ویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کی گرفت کمزور پڑتے ہی فرانس، برطانیہ، اسپین اور اٹلی شکاریوں کی طرح ان ممالک پر جھپٹ پڑے اور ان کے وسائل کو نہ صرف بے دردی سے لوٹا بلکہ ان کی اسلامی شناخت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی جس کا اثر یہ ہوا کہ اس وقت سے اب تک یہاں اسلام پسندوں اور جدت پسندوں کے درمیان میں کشمکش جاری ہے۔ 1950ء، 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں تمام ممالک نے آزادی حاصل کرلی۔

شمالی افریقہ کے 90 فیصد رقبے پر دنیا کا سب سے بڑا صحرا صحرائے اعظم ہے جبکہ مغرب کی جانب کوہ اطلس پھیلا ہوا ہے۔

کوہ اطلس، دریائے نیل اور اس کی وادیاں اور بحیرہ روم کے ساحل کاشت کے لیے بہترین علاقے ہیں اور ان علاقوں میں کئی اقسام کے اناج، چاول اور کپاس کاشت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ زیتون، کھجور، رسیلے پھل بھی بحیرہ روم کے ساحلوں پر پیدا ہوتے ہیں۔ دریائے نیل کی وادی بہت زرخیز ہے اور مصر کی بیشتر آبادی اس کے کناروں کے ساتھ رہتی ہے۔

افریقہ کے خانہ بدوش بدو صحراؤں میں روایتی طرز سے زندگی گذارتے ہیں اور گلہ بانی کر کے اپنی گذر بسر کرتے ہیں۔

تیل اور قدرتی گیس کی دریافت کے باعث الجزائر اور لیبیا کی معیشتیں بہت مضبوط ہیں۔ مراکش فاسفیٹ اور زرعی مصنوعات کا بڑا برآمد کنندہ ہے جبکہ مصر اور تیونس میں سیاحت ملکی معیشت کے لیے اہم حیثیت رکھتی ہے۔ مصر علاقے میں سب سے بڑا صنعتی علاقہ رکھتا ہے اپنی برقی اور مہندسی صنعت کے لیے ٹیکنالوجی برآمد کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر کپاس کی کاشت کے باعث پارچہ بافی کی صنعت میں معروف مقام رکھتا ہے۔

لیبیا اور الجزائر میں تیل تلاش کرنے کے لیے صحراؤں میں بڑی صنعتیں لگا رکھی ہیں خصوصاً لیبیا کا تیل بہت مشہور ہے کیونکہ اس میں سلفر بہت کم ہوتا ہے جس سے وہ دیگر تیلوں کے مقابلے میں کم آلودگی پیدا کرتا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Mauritania | People, Culture, & Facts"۔ Encyclopedia Britannica 
  2. Philip Mattar (جون 1, 2004)۔ Encyclopedia of the Modern Middle East and North Africa۔ Macmillan Reference USA۔ ISBN 978-0-02-865769-1 
  3. درحقیقت government of parts of مغربی صحارا، claimant to the whole area)۔

بیرونی روابط

ترمیم