ماہر تعلیم + صحافی + کالم نگار

پروفیسر وارث میر 1985 میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہو گئے اور نوید فکر کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کر دیا۔ سنسرشپ کے اس دور میں چونکہ براہ راست حکومت پر تنقید سنسر کی نذر ہوجاتی تھی ،چنانچہ وارث میرماہر ابلاغ کار بن کر استعاراتی تحریروں کے ذریعے اپنا پیغام مخاطبین تک پہنچاتے۔

وارث میر جامعہ پنجاب کے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے لیکن جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آتے تھے[1]

وصیت ترمیم

یہ کالم عامر میر کی مرتب کردہ کتاب ’’وارث میر کہانی‘‘ میں بھی شامل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے 1977میں مارشل لا لگایا اور صحافت پر پابندیاں لگ گئیں تو پروفیسر وارث میر اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ وہ سٹی یونیورسٹی لندن میں دورانِ تعلیم بیمار پڑ گئے۔

ایک اسپتال میں ہرنیا کا آپریشن ہوا جو بگڑ گیا اور حالت بہت خراب ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اپنی وصیت لکھ دیں۔ پروفیسر وارث میر نے ایک مختصر وصیت تحریر کی جو کچھ یوں تھی ’’میں اپنی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائداد اپنی اہلیہ کے نام منتقل کرتا ہوں اور اپنے بچوں کو تاکید کرتا ہوں وہ اسلام اور پاکستان کی جنگ جاری رکھیں‘‘۔ یہ وصیت 1978میں لکھی گئی اور اُس وقت تمام بچے اسکول میں پڑھتے تھے لیکن وہ اپنے بچوں سے اسلام اور پاکستان کی جنگ جاری رکھنے کی توقع رکھتے تھے[2]

اعزازات ترمیم

وہ مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن کے خلاف تھے اور اپنی تحاریر میں بھی اس کا اظہار کیا،

2013ء میں حکومت بنگلہ دیش نے "فرینڈز آف بنگلہ دیش" کے اعزاز سے نوازا، آپ کا فرزند حامد میر بھی صحافی ہے،

پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے انڈر پاس کی نسبت پروفیسر وارث میر مرحوم سے کی گئی اور اس کا نام وارث میر انڈر پاس رکھا گیا،

وارث میر کی زیادہ تر انقلابی تحریریں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دورہی کی تخلیق ہیں جب صحافت پابند سلاسل تھی اورترقی پسندی، حریت اورخرد سے متعلق لکھنے والوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیا جاتا تھا۔ غداری کی یہ تہمت پروفیسر وارث میر پر بھی لگائی گئی لیکن جون 2020 میں سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں نے ان کے خلاف ایسے بیہودہ فتوؤں کو مسترد کرتے ہوئے ان کے حق میں قراردادیں منظور کر کے ان کے نظریاتی مخالفین کو جھوٹا ثابت کر دیا۔

وارث میر (حریت فکر کا مجاہد) کے نام سے فرخ سہیل گویندی نے ان کی سوانح حیات لکھی ہے، جو شائع ہو چکی ہے،

تصانیف ترمیم

  • فلسفہ خوشامد (پاکستان کی درباری سیاست و صحافت)
  • فوج کی سیاست

وفات ترمیم

9 جولائی 1987ء کو وہ پُراسرار حالات میں صرف 48 برس کی عمر میں اچانک انتقال کر گئے۔[3]

حوالہ جات ترمیم

حوالہ جات

  1. https://www.nawaiwaqt.com.pk/09-Jul-2019/1037316
  2. https://urdu.geo.tv/latest/223661
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 11 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2020