قبل از اسلام خانۂ کعبہ کی تعمیر و مرمت کے دوران حجر اسود کی تنصیب کے معاملے پر عرب قبائل کا ایک دوسرے پر تلواریں سونت لینا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حسن تدبیر سے معاملے کا بہترین حل نکل آنا تاریخ میں واقعۂ تحکیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ خانۂ کعبہ کی دیواروں کی مرمت کا کام کیا گیا تھا جس میں بیشتر قبائل نے حصہ لیا۔ مرمت کا کام ہو چکا لیکن جب حجر اسود کو نصب کرنے کا وقت آیا تو قبائل میں اختلاف ہوا۔ ہر ایک اس پتھر کو اپنے ہاتھ سے نصب کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس مسئلے نے نازک صورت حال اختیار کرلی۔ اختلافات بڑھے اور ایک بڑی جنگ کے آثار پیدا ہونے لگے تھے کہ یہ تجویز پیش کی گئی کہ جو شخص کل صبح سب سے پہلے حرم میں داخل ہوگا اس کا فیصلہ قبول کر لیا جائے گا۔ دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے حرم میں داخل ہوا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔ آپ کو دیکھ کر سب نے پکارا "امین آگیا! اور ان کا فیصلہ ہمیں قبول ہوگا"۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ک حکم مقرر کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر بچھا کر اپنے دست مبارک سے اس پر حجر اسود رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں کو چادر پکڑنے کا حکم دیا۔ اس طرح تمام قبائل کے سرداروں نے چادر پکڑ کر اس جگہ رکھی جہاں یہ مبارک پتھر نصب کرنا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس کو اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ اس طرح ایک بڑی لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی اور ہر قبیلے کی خواہش بھی پوری ہو گئی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حسن تدبیر کا نتیجہ تھا۔ اس واقعے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 35 سال تھی۔