علّامہ وصی احمد مُحَدِّث سُورتی قادری

آپ بَر صغیر کے ان عُلما میں سے ایک تھے جِنہوں نے جَہالت کی تَاریکیوں میں عِلم کے بے شُمار چراغ روشن کیے۔

ولادت ترمیم

آپ کی وِلادت 1251ھ بمطابق 1836ء میں صوبہ گجرات کے شہر ”سُورت“ میں ہوئی۔[1]

تحصیلِ علم ترمیم

بنیادی تعلیم اپنے والد مولانا محمد طَیّب سُورتی سے حاصل کی۔ ان کے وصال کے بعد  حُصُولِ علمِ دین کے لیے رَخْتِ سفر باندھا اور وقت کے جَلیلُ القَدر علمائے کرام سے فقہ و تفسیر، عُلومِ عَقلیّہ اور دیگر عُلوم حاصل کیے[2]۔

دورۂ حدیث شریف میں پِیر مِہر علی شاہ گولڑوی بھی آپ کے ہم سبق تھے اور دونوں کو ایک ہی سال سَندِ حدیث ملی[3]۔

اَساتذہ کی نظر میں ترمیم

آپ کے اَندر چُھپے ہوئے مستقبل کے عظیم مُحَدِّث کو اَساتِذہ نے پہلے ہی پہچان لیا چُنانچہ آپ کے اُستاذ وشیخ حضرت فضلِ رحمٰن گنج مُراد آبادی آپ پر خُصوصی عِنایت فرماتے اوردوسرے طلبہ سے کہتے:ان کی عزّت کرو یہ ہندوستان میں فرمانِ رَسولِ مَقبول کے مُحافظ قرار پائیں گے[4]۔

فنِ حدیث میں مقام ترمیم

آپ کو کئیی عُلُوم وفُنُون بالخُصوص عِلمِ حدیث میں دَسترس حاصل تھی۔ بے شمار اَحادیث مع اَسناد یاد تھیں۔آپ نے چالیس سال تک حَدیث شریف  کا دَرس دیا جس میں  نہ صرف طلبہ بلکہ دُور دُور سے عُلما بھی حاضر ہوتے تھے۔علمِ حَدیث کی تَرویج واِشاعت کے لیے آپ نے ”مَدرسۃ الحَدیث“ کے نام سے ایک مَدرسہ قائم کیا، جس کی بُنیاد اعلیٰ امام احمد رضاخان نے بَدایوں اور مصطفےٰ آباد( رامپور) کے بڑے بڑے عُلما کی موجودگی میں رکھی۔اس مَوقع پر اعلیٰ حضرت نے فَنِّ حَدیث پر تین گھنٹے بیان فرمایا[5]۔

فتویٰ نَویسی ترمیم

مُحَدِّث سُورتی ایک عظیم مُحَدِّث ہونے کے ساتھ ساتھ باکمال فِقیہ اور مُفتی بھی تھے۔آپ نے 1285ھ میں فَتویٰ نَویسی کا آغاز فرمایا اور آخِری عمر تک (تقریباً 49 برس )یہ فَرِیضہ اَنجام دیتے رہے[6]۔

تَصانیف ترمیم

آپ نے عُلومِ نَقلیّہ وعَقلیّہ پر کئیی تَصانیف اور تفسیر و حدیث کی کتب پر شُروحات وحَواشی بھی لکھے۔ جن میں سے چند یہ ہیں:

  • حاشیہ نسائی
  • حاشیہ مشکوٰۃ،
  • حاشیہ طَحاوی،
  • التعلیقُ المُجَلِّی علٰی مُنِیّۃِ المُصلّی،
  • جامع الشواہد  وغیرہ[7]۔

فَروغِ تعلیم میں کردار ترمیم

مِلّتِ اِسلامیہ کے لیے آپ کی اور بھی بہت سی خدمات ہیں آپ نے  فَروغِ تعلیم کے لیے عُلمائے کرام کے ایک وَفد کی قیادت فرمائی، جس نے پورے مُلک  کا دَورہ کرکے دِینی دَرسگاہوں کا نظام قائم کیا[8]۔

خِدمات کا اِعتراف ترمیم

خِدمتِ دین کے لیے آپ کی مُجاہدانہ کوششوں کا اِعتراف کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان نے آپ کو ”اَلْاَسَدُ الْاَسَدُ الْاَشَدّ“ کا لقب عطا فرمایا[9]۔ نیز ایک جگہ آپ کو ”فَاضلِ کامِل، کوہِ اِستقامت، کنزِ کَرامت، ہمارے دوست اور مَحبوب“ جیسے دِلنشین اَلفاظ سے یاد فرمایا[10]۔

تلامذہ ترمیم

آپ کے شاگردوں میں قُطبِ مدینہ مولانا سید ضیاء الدین احمد مدنی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، ملک العلماء مولانا ظفر الدین بِہاری اور دیگر کئیی ایسے اَکابر عُلمائے کرام شامل ہیں جن کے عِلم و فضل کی ایک دُنیا مُعترف ہے [1]۔

تواضُع ترمیم

اِتنے بُلند عِلمی مَرتبہ کے باوجود آپ عاجزی واِنکساری کا پَیکرتھے اور خود کو دِین کا طالبِ علم تصور کرتے۔ چُنانچہ آپ کے پاس ایک تَھیلا تھا۔جب کوئی شخص آپ سے تھیلے کے بارے میں بَتانے کااِصرار کرتا تو فرماتے:یہ وہ تَھیلا ہے جو میری والدہ نے سِیا(یعنی سلائی کیا) تھا اور جس میں پہلی مَرتبہ یہ سپارہ لے کر پڑھنے گیا تھا، یہ تَھیلاجہاں میری والِدہ کی نِشانی ہے وہاں اس کی مَوجودگی مُجھے یہ اِحساس دِلاتی ہے کہ میں بُنیادی طور پر ’’طالبِ عِلم‘‘ ہوں، جس دن یہ اِحساس میرے دل سے مَعدُوم ہو گیا، اس دن میرے عِلم اور جَہالت میں کوئی حَدِّ فاصل نہیں رہے گی[11]۔

وِصال ترمیم

8جمُادَی الاخری 1334ھ بمُطابِق 12 اپریل 1916ء تہجد کے وَقت آپ خالِقِ حَقیقی سے جاملے[12]۔

تدفین ترمیم

آپ کا مَزارِ فائض الاَنوار یوپی(ہند)کے شہر پیلی بھیت  کی بیلوں والی مَسجد سے مُتّصِل قَبرستان میں ہے[13]۔

  1. ^ ا ب سورتی وصی احمد۔ منیۃ المصلی۔ مبارک پور، اعظم گڑھ: مجلس برکات۔ صفحہ: 8 
  2. اعظمی ڈاکٹر محمد عاصم۔ محدثین عظام حیات و خدمات۔ لاہور: النوریہ رضویہ پبلیکیشنز۔ صفحہ: 660، 661 
  3. خواجہ رضی حیدر (1981ء)۔ تذکرہ محدث سورتی۔ کراچی: سورتی اکیڈمی۔ صفحہ: 58 
  4. خواجہ رضی حیدر (1981ء)۔ تذکرہ محدث سورتی۔ کراچی: سورتی اکیڈمی۔ صفحہ: 58 
  5. ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی۔ محدثین عظام حیات وخدمات۔ لاہور: النوریہ رضویہ پبلیکیشنز۔ صفحہ: 663 
  6. خواجہ رضی حیدر (1981ء)۔ تذکرہ محدث سورتی۔ کراچی: سورتی اکیڈمی۔ صفحہ: 86 
  7. محمود احمد قادری (1992)۔ تذکرہ علمائے اہلسنت۔ فیصل آباد: سنی دار الاشاعت علویہ رضویہ۔ صفحہ: 261 
  8. خواجہ رضی حیدر (1981ء)۔ تذکرہ محدث سورتی۔ کراچی: سورتی اکیڈمی۔ صفحہ: 70 
  9. احمد رضا خان بریلوی۔ فتاویٰ رضویہ۔ 16۔ لاہور: رضا فاؤنڈیشن۔ صفحہ: 202 
  10. المعتقد المنتقد۔ مبارکپور: المجمع الاسلامی۔ صفحہ: 219 
  11. خواجہ رضی حیدر۔ تذکرہ محدث سورتی۔ کراچی: سورتی اکیڈمی۔ صفحہ: 189 
  12. خواجہ رضی حیدر۔ تذکرہ محدث سورتی۔ کراچی: سورتی اکیڈمی۔ صفحہ: 192 
  13. خواجہ رضی حیدر۔ تذکرہ محدث سورتی۔ کراچی: سورتی اکیڈمی۔ صفحہ: 197