وفد رعیہ السحیمی 10ھ میں بارگاہ رسالت میں مسلمان ہوکر حاضر ہوئے ان کے اہل و عیال کو واپس کر دیا گیا[1]
یہ قبیلہ سحیمہ سے تعلق رکھتے تھے جو عرنیہ کی ایک شاخ ہے اسی وجہ سے بعض لوگ انھیں عرنی کہتے ہیں[2]
رعیہ سحیمی سے مروی ہے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سرخ چمڑے پر لکھا ہوا ایک خط آیا انھوں نے اسے اپنے ڈول کا پیوند بنا لیا، کچھ عرصے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے علاقے میں ایک لشکر روانہ فرما دیا جس نے ان کے پاس کچھ بھی نہ چھوڑا نہ اہل خانہ اور نہ مال و دولت بلکہ سب کچھ لے گئے وہ برہنہ ایک گھوڑے پر " جو پالان سے محروم تھا " جان بچا کر بھاگے اور اپنی بیٹی کے پاس پہنچے جس کی شادی بنو ہلال میں ہوئی تھی اور اس کے گھر والوں کے ساتھ اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کے گھر کا صحن لوگوں کی بیٹھک ہوتا تھا اس لیے وہ گھوم کر پچھلے حصے سے گھر میں داخل ہوئے، ان کی بیٹی نے انھیں اس حال میں دیکھ کر پہننے کے لیے کپڑے دیے اور پوچھا کہ کیا ہوا؟ انھوں نے جواب دیا کہ تیرے باپ پر بڑی سخت مصیبت آئی، اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہا اہل خانہ اور نہ مال و دولت، سب کچھ چھین لیا گیا اس نے پوچھا کہ آپ کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی؟ لیکن انھوں نے اس کا جواب دیے بغیر پوچھا کہ تمھارا شوہر کہاں ہے؟ اس نے بتایا اونٹوں کے پاس ہیں۔ پھر وہ اپنے داماد کے پاس گئے اس نے بھی پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا؟ انھوں نے وہی جواب دیا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے اہل خانہ اور مال کے تقسیم ہونے سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤں، اس نے کہا کہ پھر آپ میری سواری لے جائیں انھوں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں پھر اس نے چرواہے کا ایک جوان اونٹ لیا اور ایک برتن میں پانی کا توشہ دے کر روانہ کر دیا ان کے جسم پر ایک کپڑا تھا لیکن وہ اتناچھوٹا تھا اگر اس سے چہرہ ڈھانپتے تو جسم کا نچلا حصہ برہنہ ہوجاتا اور اگر نچلے حصے کو ڈھانپتے تو چہرہ نظر آتا تھا اور وہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ انھیں کوئی شناخت کر لے۔ بہرحال ! وہ مدینہ منورہ پہنچے اپنی سواری کو باندھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب نماز فجر سے فارغ ہوئے تو انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہاتھ بڑھائیے کہ میں آپ کی بیعت کروں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا جب انھوں نے اپنا ہاتھ اس پر رکھنا چاہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا دست مبارک پیچھے کھینچ لیا تین مرتبہ اسی طرح ہوا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ عرض کیا کہ میں رعیہ سحیمی ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بلند کیا اور فرمایا اے گروہ مسلمین ! یہ رعیہ سحیمی ہے جس کی طرف میں نے خط لکھا تھا اور اس نے میرا خط پکڑ کر اپنے ڈول کا پیوند بنا لیا تھا۔ پھر انھوں نے نہایت عاجزی سے عرض کیا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے اہل خانہ اور میرا مال واپس کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تمھارا مال تو تقسیم ہو چکا البتہ تمھارے جو اہل خانہ تمھیں مل جائیں وہ تمھارے ہی ہیں چنانچہ وہ باہر نکلے تو ان کا بیٹا ان کی سواری کو پہچان کر کے اس کے پاس کھڑا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بلال! اس کے ساتھ جاؤ اس لڑکے سے پوچھو کہ کیا یہ تیرا باپ ہے؟ اگر وہ اقرار کر لے تو اسے ان کے حوالے کر دو چنانچہ بلال اس کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نے ان دونوں میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے مل کر آنسو بہاتے ہوئے نہیں دیکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہی تو دیہاتیوں کی سخت دلی ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد دوم صفحہ 232،ابن حجر عسقلانی، مکتبہ رحمانیہ لاہور
  2. اسد الغابہ ،جلد سوم ،صفحہ 765،ابن اثیر، المیزان لاہور
  3. مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 2503