وفد طارق بن عبداللہ
وفد طارق بن عبد اللہ (المحاربی) کا وفد تھا وہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سوق المجاز (یعنی بازار مجاز) سے گزرتے ہوئے دیکھا اور میں بھی خرید و فروخت کرنے کے لیے وہاں پر موجود تھا آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سرخ رنگ کا حلہ پہنے ہوئے تھے میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا آپ کہہ رہے تھے اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہو فلاح پاؤ گے۔ ایک آدمی آپ کے پیچھے یہ کہتا لوگو اسے سچا نہ سمجھو یہ جھوٹا ہے وہ پتھر مار رہا تھا جس سے آپ کے قدم خون آلود ہو گئے۔ (پتھر مارنے والا ابو لہب تھا) میں نے پوچھا یہ کون کون ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ بنی ہاشم کا ایک شخص ہے جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے اور دوسرا اس کا چچا عبد العزیٰ ہے۔
طارق بن عبد اللہ محاربی سے روایت کیا ہے، انھوں نے فرمایا : ” ہم ربذہ اور جنوب ربذہ سے ایک قافلہ کی صورت میں آئے اور مدینہ طیبہ کے قریب آ کر ہم نے پڑاؤ ڈالا اور ہمارے ساتھ ہماری ایک عورت پالکی میں بیٹھی ہوئی تھی، پس اس اثناء میں کہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ہمارے پاس ایک آدمی آیا اس پر دو سفید کپڑے تھے اور اس نے سلام کیا اور ہم نے بھی اس پر سلام کا جواب لوٹایا، تو اس نے پوچھا : یہ قافلہ کہاں سے آیا ہے؟ تو ہم نے کہا : ربذہ سے اور ربذہ کے جنوب سے، روای کہتے ہیں : اور ہمارے ساتھ ایک سرخ اونٹ تھا، تو اس نے پوچھا کیا تم مجھے اپنا یہ اونٹ بیچتے ہو؟ تو ہم نے کہا : ہاں۔ انھوں نے پوچھا : کتنے کے عوض؟ ہم نے کہا : کھجور کے اتنے اتنے صاع کے عوض، اس نے کہا : ہم اس میں سے کوئی شے کم نہیں کرائیں گے (یعنی پورا پورا ادا کریں گے) اور کہا : میں اسے پکڑ لوں، پھر اس نے اونٹ کو سر سے پکڑا یہاں تک کہ وہ مدینہ طبیہ میں داخل ہو گیا اور ہم سے اوجھل ہو گیا اور ہم آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور ہم نے کہا : تم نے اپنا اونٹ ایسے آدمی کو دے دیا ہے جسے تم پہچانتے ہی نہیں، تو اس پالکی میں بیٹھی ہوئی عورت نے کہا : تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو میں نے اس آدمی کا چہرہ دیکھ لیا ہے وہ نہیں ہے کہ وہ تمھارے ساتھ بے وفائی کرے، میں نے کسی آدمی کا چہرہ اس کے چہرہ سے بڑھ کر چودھویں رات کے چاند سے زیادہ مشابہ نہیں دیکھا، تو جب شام ہوئی تو ہمارے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا : السلام علیکم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے قاصد کی حیثیت سے تمھارے پاس آیا ہوں اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے تمھیں حکم فرمایا ہے کہ تم اس سے کھاؤ (بطور ضیافت) یہاں تک کہ تم خوب سیر ہوجاؤ اور تم اپنا وزن (قیمت) کر لو یہاں تک کہ تم اپنا حق پورا کر لو، اس نے بیان کیا : پس ہم نے کھایا یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور ہم نے خیال کیا یہاں تک کہ ہم نے اپنا حق پورا کر لیا۔ جب ہم شہر میں داخل ہوئے وہی شخص منبر پر خطبہ دے رہا تھا ہم نے یہ الفاظ سنے
تَصَدَّقُوا فَإِنَّ الصَّدَقَةَ خَيْرٌ لَكُمْ، الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ وَأَدْنَاكَ أَدْنَاكَ
لوگو خیرات دیا کرو خیرات دینا تمھارے لیے بہتر ہے، اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے، ماں کو، باپ کو، بہن کو، بھائی کو، پھر قریبی کو، دوسرے قریبی کو دو۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ رحمۃ للعالمین، جلد اول، صفحہ 183، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری، مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد