وفد عبد القیس دو ہیں پہلا وفد جبکہ دوسرا وفد 9ھیا 10ھ [1] میں آیا۔
اس دوسرے وفد میں لوگوں کی تعداد 40 تھی جس میں علاء بن جارود عبدی بھی تھا پہلے مسیحی تھا بعد میں مسلمان ہو گیا اور بہت اچھا مسلمان ہوا[2]

جارود بن بشر بن المعلی (جو مسیحی مذہب کا تھا) نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اب بھی ایک مذہب پر ہوں اگر ہم اسے چھوڑ کر آپ کے دین میں داخل ہو جائیں تو کیا آپ ہمارے ضامن بنتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں میں ضامن بنتا ہوں کیونکہ جس مذہب کی میں تمھیں دعوت دیتا ہوں یہ اس مذہب سے بہتر ہے جس پر تم اب ہو جارود کے ساتھ اور بھی مسیحی مسلمان ہو گئے۔[3]
جب دوسری دفعہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "معشر عبد القيس، ما لي أَرَى وجُوهَكُمْ قَدْ تَغَيَّرَتْ" اے عبد القیس کے لوگو! کیا وجہ ہے کہ میں تمھاری رنگتوں کو بدلا ہوا دیکھتا ہوں[4] اس وفد میں جارود بن بشر بن المعلی کی وجہ سے بعض سیرت نگاروں نے اسے وفد جارود بن معلى بھی تحریر کیا ہے۔[1] جارود بن معلی کو ابن علاء بھی کہتے ہیں لیکن صحیح ابن معلی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وفد عبد القیس سے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ اللہ وحدہ پر ایمان لانا کیا ہے؟ انھوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے‘ آپ نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں‘ محمد اللہ کے رسول ہیں‘ اور نماز قائم کرنا‘ زکوۃ ادا کرنا‘ رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے خمس ادا کرنا۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب الأغصان الندیہ مؤلف: ابو اسماء محمد بن طہ ناشر: دار ابن حزم القاہرہ
  2. الرحیق المختوم، صفحہ597، صفی الرحمن مبارکپوری مکتبہ سلفیہ لاہور
  3. رحمۃ للعالمین، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری، صفحہ 180، مرکز الحرمیں الاسلامی فیصل آباد
  4. صحيح ابن حبان، مؤلف:أبو حاتم، الدارمی، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت
  5. صحیح مسلم