وفد بنو تمیم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔
اس وفد کو وفد قیس بن عاصم بھی مؤرخین نے تحریر کیا ہے۔
جب یہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور حجرہ کے باہر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آواز دی حجروں کے باہر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عیینہ بن حصین اور اقرع بن حابس نے پکارا تھا۔ یہی دونوں ستّر آدمیوں کو ساتھ لے کر دوپہر کے وقت مدینہ میں پہنچے تھے۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : محمد میں جس کی تعریف کر دوں تو اس کے لیے میری تعریف جمال آفریں ہوجاتی ہے اور کسی کو برا کہہ دوں تو میرا برا کہنا اس کے لیے موجب عیب ہوجاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ایسا تو صرف اللہ ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ(الحجرات:4)
بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آداب تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے۔

بنی تمیم کے کچھ خانہ بدوش‘ بدوی جن کی تعداد انیس تھی قیس بن عاصم، زبرقان بن بدر، اقرع بن حابس، سویا بن ہاشم، خالد بن مالک، عطا بن حابس، ققطع بن معبد، وکیع بن، عینیہ بن حصن، ان کے ہمراہ 80 یا 90 لوگ اور تھے انھوں نے دروازہ پر (پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو) آوازیں دی تھیں۔ دروازہ پر پہنچ کر انھوں نے پکار مچائی : محمد!(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)باہر نکل کر آؤ۔ دیہاتی بولے : ہم اپنے شاعر اور خطیب کو ساتھ لے کر آئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے ثابت بن قیس سے فرمایا : اٹھو! ان کو جواب دو۔ ثابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے خطیب تھے۔ حسب الحکم آپ نے بنی تمیم کے خطیب کو جواب دیا۔ پھر ان کا شاعر کھڑا ہوا اور اس نے کچھ اشعار پڑھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حسان بن ثابت کو حکم دیا‘ اٹھو! ان کو جواب دو۔ حسان نے اٹھ کر جواب دیا۔ یہ بات دیکھ کر اقرع بن حابس (تمیمی) نے کہا : محمد کے پاس تو ہر خیر جمع ہے۔ ہمارا خطیب بولا (تو ان کا خطیب بھی بولا اور ہمارے خطیب پر غالب آیا‘ پھر ہمارے شاعر نے کچھ اشعار پڑھے تو ان کے شاعر نے جواب دیا) پس (ہمارے شاعر سے ) تمھارا شاعر بہتر اور احسن ثابت ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب پہنچا اور بول پڑا : اَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُہٗ .(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اس کے رسول ہیں)حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا : اس سے پہلے (تجھ سے ) جو جرائم ہو گئے ہیں (وہ سب معاف ہو گئے) ان کا کوئی ضرر تجھے نہیں پہنچے گا (یعنی کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا) اس کے بعد ان سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (کچھ نقد اور) لباس عطا فرمایا۔ قافلہ میں ایک (بچہ) کمسنی کی وجہ سے رہ گیا تھا جس کا نام عمرو بن اصم تھا۔ (قافلہ کے مال اور جانوروں کی نگرانی کے لیے یہ لوگ اس کو چھوڑ آئے تھے) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو بھی اتنا ہی (حصہ) دیا‘ جتنا ان لوگوں میں سے ایک ایک کو دیا تھا۔ بعض لوگوں نے اس لڑکے کو (اپنے مقابلہ میں) حقیر قرار دیا (اور پورا حصہ دینے پر اعتراض کیا) اس پر ان کے آپس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے شوروغل ہونے لگا۔ اس وقت آیات :(الحجرات:2 تا5)تک نازل ہوئیں۔

بغوی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک جہادی دستہ عیینہ بن حصین فزاری کے زیر کمانڈ روانہ کیا۔ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ عیینہ کا رخ ہماری طرف ہے تو وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ عیینہ نے ان کے اہل و عیال کو قید کر لیا اور لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ کچھ وقفہ کے بعد ان کے مرد اپنے بچوں کو زر فدیہ ادا کر کے رہا کرانے کے لیے آ گئے‘ جس وقت وہ آئے تھے دوپہر کا وقت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی بی بی کے حجرہ میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ان کے بچوں نے جب اپنے باپوں کو دیکھا تو بے تاب ہو کر رونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہر بی بی کا ایک مخصوص حجرہ تھا۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برآمد ہونے سے پہلے ہی جلدی میں پکارنے لگے : محمد! باہر آئیے۔ غرض (شور مچا کر) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بیدار کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باہر تشریف لے آئے۔ ان لوگوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! فدیہ لے کر ہمارے اہل و عیال کو رہا کر دو۔ اس وقت جبرئیل ( علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا : اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اپنے اور ان لوگوں کے درمیان کسی تیسرے شخص کو (بطور پنچ) مقرر کر دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وحی پانے کے بعد فرمایا : سبرہ بن عمرو تمھارا ہم مذہب ہے۔ کیا تم لوگ اس کو میرے اور اپنے درمیان ثالث بنانا پسند کرو گے؟ ان لوگوں نے جواب دیا : جی ہاں۔ سبرہ نے کہا : جب تک میرا چچا اعور بن بشامہ یہاں موجود نہ ہوگا میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا (یعنی اعور سے فیصلہ کراؤں گا‘ خود کوئی فیصلہ نہیں کروں گا) لوگ راضی ہو گئے۔ اعور نے فیصلہ دیا کہ ان کے آدھے اہل و عیال کو بغیر معاوضہ کے آزاد کیا جائے اور باقی نصف کو فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میں اس پر راضی ہوں۔ چنانچہ نصف کو بلا معاوضہ اور نصف کو فدیہ لے کر رہا کر دیا اور اللہ نے آیت : (اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُھُمُ لَا یَعْقِلُوْنَ) (الحجرات:4) بے شک (وہ لوگ ) جو آپ کو پکارتے ہیں حجروں کے باہر سے ان کے اکثر عقل نہیں رکھتے۔ نازل فرما دی۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. طبقات ابن سعد، حصہ دوم، صفحہ50، محمد بن سعد، نفیس اکیڈمی کراچی