پاسبان کے لفظی معنی حفاظت کرنے والا اور نگہبان کے ہیں۔ اسی مناسبت سے پاکستان میں سن 1988اور 90 کے درمیان نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم کی گئی جس کا نام پاسبان رکھا گیا۔ اس تنظیم کا نعرہ اور منشور "ظلم کے خلاف" تھا۔ اپنے ابتدائی ادوار میں تنظیم کی سرپرستی جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے کی۔ تنظیم نے پولیس مظالم اور بالخصوص تھانوں میں غریب مرد و خواتین پر پولیس کے ظالمانہ تشدد، عصمت دری اور قتل کے خلاف آواز اٹھائی جس کے باعث یہ مقبولیت کی بلندیوں پر جا پہنچی۔ پولیس کے مظالم اور زیادتیوں کے خلاف پاسبان کا نام بدعنوان افسران کے لیے ایک ہیبت کی علامت بن گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پولیس کے کئی بدعنوان اہلکاروں کو پاسبان کی شکایت پر معطل یا برخاست کیا گیا تھا۔

تنظیم کا بنیادی خاکہ کراچی کے علاقے سوسائٹی میں این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کے سابق طلبہ اور یونین کے رہنماؤں ں نے تیار کیا تھا جن میں الطاف شکور، ڈاکٹر مسعود محمود خان ڈاكتر بشیر لا كھا نی اور ان کے دیگر ساتھی شامل تھے۔

تنظیم کے باقاعدہ قیام تک تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار ہو چکی تھی جس نے کراچی شہر میں اپنی سرگرمیاں شروع کردی تھی۔

یہ تنظیم اپنے بام عروج پر پہنچے کے بعد مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ پاکستان کے قومی ہیروز اور کھیلوں سے متعلق بھی اس کی سرگرمیاں جدت کے ساتھ جاری رہیں۔

پاسبان نے ایسے منفرد فلاحی و عوامی کام کیے جو منفرد ہونے کے علاوہ مقبول بھی ہوئے۔ ان میں سب کچھ درج ذیل ہیں:

  • غریب و نادار لڑکیوں کے لیے جہیز ( پہلے اجتماع میں دس ہزار لڑکیوں کو جہیز دیا گیا مگر اس کی خاص بات یہ تھی کہ کسی بھی خاتون کی تصویر نہیں لی گئی تاکہ غریبوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو)
  • اجتماعی شادیوں کا اہتمام
  • کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی کے خلاف حکومتی فیصلوں کی عدالت کے ذریعے متعدد بار منسوخی
  • کرکٹ ورلڈ کپ کے موقع پر کرکٹ کا سب سے بڑا بلا تیار کرنا
  • نوجوان کی پبلک اسمبلی کا قیام
  • اسلامی بم کے ماڈل کی تیاری اور نمائش۔

تنظیم کے مرکزی صدر الطاف شکور ہیں۔ جو ایک کاروباری فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے این ای ڈی یونیورسٹی سے مكینیكل انجینئری کی ڈگریمكمل كی ہے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔