چین ادب کے ابتدائی خزانے میں قدیم پانچ کلاسیکی نگارشات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ ادبی شہ پارے کنفیوشس نے تقریبا 500 قبل مسیح میں مرتب کیے تھے۔ ان پانچ کلاسیکی ادبیات میں پہلی ای کنگ ہے جو حقیقتاً وان وانگ کے فکر کے نتائج ہیں۔ دوسری کلاسیکی کا نام پی کی ہے جس میں رسوم کے متعلق لکھا گیا ہے۔ تیسری کلاسیکی کا نام سو کنگ ہے جو تاریخ کتاب ہے جس میں سیاسی نظام کے متعلق درج ہے۔ چوتھی کلاسیکی کا نام شی کنگ ہے جس میں شاعروں کے مجموعے لکھے ہے اور ان میں 311 کنفیوشس کے لکھے ہوئے گیت ہے۔ پانچویں کلاسیکی کا نام چنگ سو ہے اور یہ کنفیوشس نے خود تحریر کی۔ اس میں کنفیوشس نے اپنے لو کے تاریخی احوال درج کیے ہے۔

ای کنگ ترمیم

پانچ کلاسیکی نگارشات میں سے پہلی کا نام ای کنگ ہے اس کا دوسرا نام تبدیلیوں کی کلاسیک بھی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ حقیقتاً وان وانگ کے فکر کے نتائج ہیں جسے 1143 قبل مسیح کسی جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے یہ کلاسیک تبھی تصنیف کی تھی۔ چینیوں کا خیال ہے کہ اس ابتدائی کلاسیک میں کتنے ہی قیمتی فلسفیان تصورات بھرے پڑے ہیں۔ کنفیوشس کا ایک قول نقل کیا جاتا ہے کہ اس نے بڑھاپے میں یہ کہا کہ اگر مجھے زندگی کے چند سال اور مل جاتے میں تو ای کا مزید مطالعہ کرتا اور تب میں غلطیوں کے ارتکاب سے بچ جاتا۔ آج کے نقادوں کا خیال ہے کہ کنفیوشس کی اس توضیح کے بعد ہی یہ کتاب ادبی لحاظ سے بے جان رہی ہے اوراسے کوئی اہمیت سوائے قدامت کے حاصل نہ ہو سکی۔

پی کی ترمیم

کلاسیکی کی دوسری کتاب پی کی ہے۔ دراصل اس میں رسوم کے متعلق بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کو بارہویں صدی قبل مسیح چاؤ کے ڈیوک نے قلم بند کیا تھا۔ اس میں آداب زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ زندگی سے متعلق پورے پورے طور طریقے درج کیے گئے ہیں مثلا حکمراں، دفتر کے لوگ، عوام، والدین، بچے، بیویاں، محبوبائیں نوکر وغیرہ کس طرح اپنی اپنی زندگیاں گزاریں اور ایک دوسرے سے رابطے کی نوعیت کیا ہو۔ پیدائش سے لے کر موت تک زندگی گزارنے کے طریقے اس کتاب میں درج ہیں۔ اس کتاب کی اہمیت یوں ہے کہ چینیوں کی معاشرت اورتہذیبی زندگی پر اس کے انتہائی دور رس رہے ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ان کے کردار کی تعمیر میں اس کتاب نے اہم رول سر انجام دیا ہے۔

سو کنگ ترمیم

تیسری کلاسیکی کی کتاب سوکنگ ہے یہ دراصل تاریخی دستاویز پر مشتمل ہے۔ قدیم چینیوں کے یہاں جو سیاسی نظام تھا اس پر یہ کتاب روشنی ڈالتی ہے۔ کتاب کا طریقہ اظہار دلچسپ ہے۔ بادشاہوں اور وزراء کے درمیان حکومت کرنے کے سلسلے اور اصول و ضوابط پر گفتگو کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں کچھ اعلان نامے اور کچھ حکم نامہ بھی درج ہیں۔ اس کتاب کی تاریخ 2450 قبل مسیح سے 721 قبل مسیح تک بتائی جاتی ہے۔ لیکن ان دونوں تاریخوں کے درمیان جو بعد ہے اس کا سلسلہ کسی دوسری کتاب سے نہیں ملتا ہے۔ بعد کے مورخوں نے بیچ کی کڑیاں ملانے کی کوشش کی ہیں لیکن سخت گیر مورخوں کا خیال ہے کہ یہ کڑیاں اس طرح ملائی گئی ہیں کہ ان کا تعلق حقائق سے نہیں ہے محض تخیلی افسانے ہیں۔

شی کنگ ترمیم

چوتھی کلاسیکی کتاب شاعروں کی ہے اس کا نام شی کنگ ہے۔ اس کتاب کی ادبی اہمیت یوں ہے کہ اس میں شاعری کے ابتدائی نمونے بیش از بیش مل جاتے ہیں۔ حالانکہ ایسی شاعری میں بھی بادشاه ، وزراء اور نظام مملکت سے متعلق دوسرے نکات شاعرانہ طریقے پر برتے گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بادشاہوں اور وزرار کے ساتھ موسیقار بھی رہتے تھے جن کا کام یہ تھا عوام کے گیتوں کو محفوظ رکھیں اور بادشاہوں اور وزراء کو ان گیتوں سے محظوظ کیا کریں۔ ایسے گیت بعد میں اس موسیقار کے سامنے پیش کیے جاتے جو خاص بادشاہ کا موسیقار ہوتا۔ اس کے ذمے یہ کام ہوتا کہ تمام گیتوں میں وہ گیت منتخب کرے جو اس کے نقطہ نظر سے محفوظ کر لینے کے قابل ہوں۔ گویا منتخب گیتوں کو حکومت کی مہر لگ جاتی اور وہ قومی امانت کی طرح محفوظ ہو جاتے۔ ایسے گیتوں میں 311 وہ گیت ہیں جو کنفیوشس نے منتب کیے تھے۔ یہی وہ گیت ہیں جنہیں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے اور جو شی کنگ کے نام سے معروف ہے۔ ان گیتوں کے مواد کا تعلق عوامی زبان سے ہے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے احساسات کو زیادہ تر زراعت اور جنگ و جدال سے تعلق رکھنے میں گیت بنائے گئے ہیں۔ غیروں اورحریفوں سے جنگ کے شاخسانے بھی ان میں درج ہیں۔ حکمرانوں کی غلط کاریوں کے خلاف بھی کچھ گیتوں میں آواز اٹھائی گئی ہے۔ ظالموں اور جابروں کے سلسلے کے بھی کچھ گیت ہیں جن کے خلاف آہ و بکا کا مظاہرہ تو کیا گیا ہے لیکن صبر کی تلقین کی گئی ہے۔

چنگ سو ترمیم

پانچویں کلاسیکی کی کتاب وہ ہے جسے کنفیوشس نے خود ضبط تحریر میں لایا ہے۔ اس کا نام چنگ سو ہے۔ اس کا دوسرا معروف نام بہار و خزاں بھی ہے۔ اس میں کنفیوشس نے اپنے ملک لو کے تاریخی احوال رقم کیے ہیں ۔ یہ احوال 731 قبل مسیح سے 520 قبل مسیح تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر چند کہ یہ تاریخ ہے لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی نگارشات میں کتنے ہی ایسے پہلو ہیں جن میں بہاروں جیسی تازگی ہے جو زندگی کو فرحت بخش بناتی ہے اور کتنے ہی اوسان خطا کرنے والے واقعات ہیں جن سے زندگی میں خزاں سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ نقادوں کا خیال ہے کہ اس کتاب میں نہ تو کسی کے اوصاف گنائے گئے ہیں اور نہ کسی کی تادیب کی گئی ہے نہ ہی اس میں فلسفہ ہے نہ ہی اعلی خطابت۔ یہ محض واقعات کا ایسا مجموعہ ہے جو واقعات جمع کرنے والے کی توضیح و تعبیر سے عاری ہے۔ سب سے حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ کنفیوشس کے شاگرد زو نے اس کتاب کے بہت سے واقعات کے سلسلے میں اپنے شکوک رقم کیے ہیں جس کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت بھی از خود کم ہوجاتی ہے۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. تاریخ ادبیات عالم جلد اول مولف پروفیسر وہاب اشرفی صفحہ 17 تا 19