پاکستان میں امریکی سرگرمیاں
اس مضمون کو ویکیپیڈیا کے دیگر مضامین سے مربوط کرنے کی مزید ضرورت ہے۔
(جولائی 2013) |
مختلف ذرائع پاکستان میں حالیہ امریکی سرگرمیوں میں اضافہ دکھاتے ہیں جس میں مختلف قسم کی کارروائیاں شامل ہیں۔ بلیک واٹر کی سرگرمیاں اس میں شامل ہیں۔ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جس میں امریکی اور دیگر مغربی ممالک کے سفارتی اور دیگر افراد پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی سے متعلق کارروائیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہاں صرف وہ واقعات درج کیے جائیں گے جن کا کوئی حوالہ موجود ہوگا۔
سرگرمیاں
ترمیمزی یا بلیک واٹر
ترمیمزی یا بلیک واٹر کی سرگرمیاں پاکستان میں مشکوک ہیں۔ اخبارات و جرائد متواتر ایسے واقعات بیان کر رہے ہیں جس میں زی یا بلیک واٹر ملوث ہے مگر امریکی سفارت خانے اور پاکستان کی سرکاری سطح پر ان کی پاکستان میں موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ امریکی سفارت خانے نے تسلیم کیا کہ انھوں نے 200 گھر اسلام آباد میں کرایے پر لے رکھے ہیں اور سفارت خانہ میں ایسی توسیع ہو رہی ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی [1] مگر سفارت خانہ وہ حکومت پاکستان اس بات کو بلیک واٹر یا زی سے علاحدہ سمجھتے ہیں۔ چین کے سفیر نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے مگر وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ ہم چین کی تشویش دور کریں گے۔[1] اس تنظیم کے مسلح امریکی افراد اسلام آباد میں کھلے عام گھومتے ہیں جن کا ٹریفک پولیس نے 6 ستمبر 2009ء کو تیز رفتاری کی بنیاد پر چالان بھی کیا۔ اس کانسٹیبل کا کہنا تھا کہ تھانے جاکر تو ان امریکیوں کو چھڑا لیا جاتا ہے اس لیے وہ یہیں ان کا چالان کرے گا۔ ان مسلح افراد نے اردگرد کھڑے عوام سے ڈر کر یہ چالان کروا لیا۔ ۔[2] ایک اور واقعہ میں چار امریکی افراد کو کالے شیشوں کی جیپ میں آٹومیٹک ہتھیاروں سمیت ایک ناکے پر روکا گیا تو انھوں نے اپنا تعارف بلیک واٹر کے تعلق سے کروایا۔ جب انھیں تھانے لے جایا گیا تو وہاں امریکی سفارت خانے کے افراد پہنچ گئے جن کے ساتھ فوج کے ایک کیپٹن اور پولیس کے ایک ایس پی آفتاب ناصر تھے جنھوں نے پولیس والوں کو ڈرا دھمکا کر ان چاروں کو رہا کروالیا۔[1] ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ زی پاکستان کے چھ شہروں میں ڈیرہ ڈالنے لگی ہے۔[1] امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق زی کے اہلکار امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کی جگہ پاکستان اور افغانستان میں موجودہ خفیہ اڈوں پر ڈرون طیاروں پر ’ہیل فائر‘ میزائل اور پانچ سو پونڈ وزنی لیز گائیڈڈ میزائل لگانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ یہ کام ماضی میں سی آئی اے کے اپنے ماہر انجام دیتے تھے۔۔[3] امریکی سفارت خانے نے کہا ہے کہ اس قسم کی کہانیوں میں کوئی حقیقت نہیں اور نہ تو ہزار میرینز پاکستان آ رہے ہیں اور نہ زی یا بلیک واٹر پاکستان میں کوئی کام کر رہی ہے۔[4]
دیگر سرگرمیاں
ترمیمایک اخباری رپورٹ کے مطابق امریکی سی آئی اے نے پاکستان میں ڈرائیوروں کی بھرتیاں شروع کر دی ہیں۔ اور اس کے لیے باقاعدہ ویب سائیٹ بھی لانچ کی گئی ہے ویب گاہ پر ڈرائیوروں کی آسامیوں کے لیے ایک درخواست فارم دیا گیا ہے جس میں درخواست گزاروں سے ان کی مکمل تفصیلات کے ساتھ ٹائپنگ سپیڈ اور کمپیوٹر میں مہارت کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں امریکی اور پاکستانیوں کے علاوہ کسی اور ملک کے شہری بھی درخواست دے سکتے ہیں ملازمت کی تفصیلات میں واضح کیا گیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ملازم کی تقرری پاکستان کے کسی بھی علاقے میں کی جا سکتی ہے ڈرائیوروں کی تنخواہیں358935تین لاکھ ٹھاون ہزار نو سو پینتس روپے سالانہ مقرر کی گئی ہیں[5]
پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا اسلام آباد میں جاسوسی کا ایک بڑا مرکز قائم کر رہا ہے۔ اسلام آباد کمپلیکس نامی اس امریکی اڈے میں تین سو امریکی انٹیلی جینس کے افسران کے رہنے کی جگہ میسر ہو گی جوامریکا کے بعد کسی بھی ملک میں دوسرا سب سے بڑا امریکی اڈاہ ہو گا۔ کسی عام آدمی نے نہیں پاک فوج کے سابق سپہ سالار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسلام آباد تخریبی سرگرمیوں کا بڑا مرکز بن جائے گا۔ اسلم بیگ کاکہنا ہے کہ امریکا نے امریکی سفارت خانے کے احاطے میں پچیس ایکڑا مزید اراضی حکومت پاکستان سے خریدی ہے جہاں اسلام آباد کمپلیکس قائم کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ کمپلیکس میں دو سو سے زائد رہائشی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں بقیہ تعمیر ہونی ہیں۔[6]
مئی 2009ء کو پشاور کے ایک ہوٹل سے ایک مشکوک امریکی کو پکڑا گیا۔ یہ افغانستان کے چکر لگاتا تھا اور اس کے پاس صوبہ سرحد کے نقشے موجود تھے۔۔[7] امریکی قونصل خانے نے اس سے رابطہ کیا ہے اور اسے تعاون فراہم کیا جا رہا ہے۔۔[8] اگلے دن اسے یہ کہہ کر رہا کر دیا گیا کہ اس پر کوئی الزام نہیں۔[9]
14 اکتوبر 2009ء کو پاکستان کے ضلع چارسدہ میں ایک امریکی پکڑا گیا جس نے پاکستانی حلیہ بنایا ہوا تھا اور شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔ اس کے پاس کاغذات اور علاقے میں ہونے کی کوئی وجہ موجود نہیں تھی۔ وہ خفیہ طور پر قبائلی علاقہ مہمند ایجنسی میں داخل ہو رہا تھا۔[10]
28 اکتوبر 2009ء کے روزنامہ جنگ کے مطابق 27 اکتوبر 2009ء کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف تین میں چار امریکی افراد کو افغانی بہروپ میں پکڑا گیا انھوں نے افغانی حلیہ بنایا ہوا تھا۔ یہ اسلام آباد کی اہم عمارتوں کی تصاویر بنا رہے تھے۔ ان سے ناجائز اسلحہ برآمد ہوا اور ان کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں بھی جعلی تھیں۔ پولیس کے انھیں گرفتار کرنے کے تھوڑی دیر بعد ہی امریکی سفارت خانے کے عہدے دار اور پولیس کے اعلیٰ حکام انھیں لینے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور وزارت داخلہ کے اعلیٰ حکام کی مداخلت پر انھیں رہا کر دیا گیا۔۔[11] روزنامہ نوائے وقت کے مطابق ان کی گاڑیاں امریکی سفارت خانے کی تھیں اور وہ حساس اداروں کی تصاویر بنا رہے تھے۔ اور ان کی گاڑیوں میں حساس آلات بھی لگے ہوئے تھے[12]
انٹیرنیشنل اینیلیسٹ نیٹ ورک کی رپورٹ، جو ایشین ایج نے چھاپی ہے، کے مطابق اس بات کے ٹھوس اور واضح ثبوت ہیں کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کر رہا ہے اور امریکی سفارت کار اور حکام کہوٹہ میں جاسوسی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کے کچھ عناصر ان کی مدد بھی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ دن قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سہالہ پولیس تربیتی کالج کے ذریعے کہوٹہ کی جاسوسی کر رہے ہیں۔ وہاں ایک امریکی بیس قائم ہے جہاں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں۔[13]
روزنامہ نوائے وقت کے مطابق 28 اکتوبر 2009ء پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکا اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ سکیورٹی ماہرین کی جانب سے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیر معمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔[14]
متعلقہ مضامین
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت پاکستانی روزنامہ دی نیشن 7 ستمبر 2009ء (نقشِ خیال از عرفان صدیقی)
- ↑ پاکستانی روزنامہ جنگ 7 ستمبر 2009ء (قلم کمان از حامد میر)
- ↑ بی بی سی اردو۔ ’بلیک واٹر‘ اور سی آئی اے کی خفیہ کارروائیاں
- ↑ "روزنامہ جنگ۔ تازہ ترین خبریں 8 ستمبر 2009ء"۔ 11 ستمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2021
- ↑ "القمر آن لائن"۔ 27 ستمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2009
- ↑ "صفدر دانش القمر آن لائن 3 جولائی 2009ء"۔ 31 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2009
- ↑ القمر آن لائن۔ 8 مئی 2009ء۔ 28 اکتوبر کو جال سے اخذ کیا گیا[مردہ ربط]
- ↑ عالمی اخبار۔ 28 اکتوبر کو جال سے اخذ کیا گیا
- ↑ روزنامہ جنگ 15 اکتوبر 2009ء[مردہ ربط]
- ↑ بی بی سی اردو 14 اکتوبر 2009ء۔ 28 اکتوبر کو جال سے اخذ کیا گیا
- ↑ روزنامہ جنگ 28 اکتوبر 2009ء
- ↑ روزنامہ نوائے وقت 28 اکتوبر 2009ء
- ↑ روزنامہ ایکسپریس 29 اکتوبر 2009ء
- ↑ "نوائے وقت 29 اکتوبر 2009ء"۔ 02 نومبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2021