زی
زی (Xe ) یا ایکس ای یا زی سروسز ایل ایل سی (Xe Services LLC ) جس کے پرانے نام بلیک واٹر یا بلیک واٹر ورلڈ وائڈ یا بلیک واٹر یو ایس اے تھے، نجی شعبہ کی ایک فوج ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکا میں 1997ء میں وجود میں آئی۔ یہ بلیک واٹر کے نام سے مشہور ہے۔ اب اس کا نام بدل کر زی یا ایکس ای رکھا گیا ہے۔ 1997ء میں اس کا نام بلیک واٹر یو ایس اے تھا جو اکتوبر 2007ء میں بدل کر بلیک واٹر ورلڈ وائڈ رکھا گیا۔ یہ عراق جنگ کی ایک بدنام تنظیم ہے جس نے عراق میں فلوجہ، نجف اور بغداد میں غیر قانونی طور پر عام افراد کو قتل کیا جس کا مقدمہ آج کل ریاستہائے متحدہ امریکا میں زیرِ سماعت ہے۔ بظاہر اس کا مقصد امریکی سفارت کاروں اور دیگر افراد کا تحفظ ہے مگر تیسری دنیا اور ترقی یافتہ دنیا کے مختلف دانشوروں کے مطابق یہ تنظیم ایسے کاموں میں استعمال ہوتی ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکا قانونی وجوہات سے خود نہیں کرنا چاہتا۔ 29 اکتوبر 2007ء کو امریکی شعبۂ ریاست (ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ) نے اس تنظیم کو کسی بھی عدالت میں لانے سے استثناء کر دیا تاکہ اس پر کوئی مقدمہ کامیاب نہ ہو سکے۔ 19 اگست 2009ء کو نیویارک ٹائمز میں مارک مانزیتی نے لکھا کہ سی آئی اے نے زی کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ القاعدہ کے افراد کو دنیا کے مختلف حصوں میں قتل کیا جائے۔[1] البتہ ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت کسی ایسے تعلق سے انکار کرتی ہے اور بلیک واٹر کو ایک نجی شعبہ کا ادارہ سمجھتی ہے۔
زی (بلیک واٹر) کی عراق میں سرگرمیاں
ترمیم2008ء میں زی یا بلیک واٹر نے سترہ عراقی شہریوں کو بلا کسی طیش کے قتل کر دیا جس پر امریکا میں ان پر مقدمہ درج ہوا جس سے بعد میں انھیں مستثنیٰ قرار دیا گیا مگر پانچ پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔[1] دسمبر 2009ء میں امریکی عدالت نے ان کے خلاف مقدمہ کو خارج کر دیا۔[2] ورجینیا کی عدالت میں دو سابقہ بلیک واٹر کے ملازمین نے بیان دیا ہے کہ وہ جب عراق میں تعینات تھے تو ان کے سربراہ اور بلیک واٹر کے مالک ایرک پرنس خود کو ایک ایسا صلیبی کہتا تھا جس کا کام دنیا سے مسلمانوں کے وجود کو پاک کرنا اور اسلام کو ختم کرنا ہے اور وہ عراق میں عوام کو قتل کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے ہی کچھ ملازمین کا قتل کروایا جن سے یہ خطرہ تھا کہ وہ امریکا کی فیڈرل کورٹ میں کوئی بیان دے دیں گے[3] واضح رہے کہ یہ بیانات عدالت میں دیے گئے ہیں جن کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔
زی (بلیک واٹر) کی پاکستان میں سرگرمیاں
ترمیمزی یا بلیک واٹر کی سرگرمیاں پاکستان میں مشکوک ہیں۔ اخبارات و جرائد متواتر ایسے واقعات بیان کر رہے ہیں جس میں زی یا بلیک واٹر ملوث ہے مگر امریکی سفارت خانے اور پاکستان کی سرکاری سطح پر ان کی پاکستان میں موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ امریکی سفارت خانے نے تسلیم کیا کہ انھوں نے 200 گھر اسلام آباد میں کرایے پر لے رکھے ہیں اور سفارت خانہ میں ایسی توسیع ہو رہی ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی [4] مگر سفارت خانہ وہ حکومت پاکستان اس بات کو بلیک واٹر یا زی سے علاحدہ سمجھتے ہیں۔ چین کے سفیر نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے مگر وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ ہم چین کی تشویش دور کریں گے۔[5] اس تنظیم کے مسلح امریکی افراد اسلام آباد میں کھلے عام گھومتے ہیں جن کا ٹریفک پولیس نے 6 ستمبر 2009ء کو تیز رفتاری کی بنیاد پر چالان بھی کیا۔ اس کانسٹیبل کا کہنا تھا کہ تھانے جاکر تو ان امریکیوں کو چھڑا لیا جاتا ہے اس لیے وہ یہیں ان کا چالان کرے گا۔ ان مسلح افراد نے اردگرد کھڑے عوام سے ڈر کر یہ چالان کروا لیا۔ ۔[6] ایک اور واقعہ میں چار امریکی افراد کو کالے شیشوں کی جیپ میں آٹومیٹک ہتھیاروں سمیت ایک ناکے پر روکا گیا تو انھوں نے اپنا تعارف بلیک واٹر کے تعلق سے کروایا۔ جب انھیں تھانے لے جایا گیا تو وہاں امریکی سفارت خانے کے افراد پہنچ گئے جن کے ساتھ فوج کے ایک کیپٹن اور پولیس کے ایک ایس پی آفتاب ناصر تھے جنھوں نے پولیس والوں کو ڈرا دھمکا کر ان چاروں کو رہا کروالیا۔[5] ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ زی پاکستان کے چھ شہروں میں ڈیرہ ڈالنے لگی ہے۔[5] امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق زی کے اہلکار امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کی جگہ پاکستان اور افغانستان میں موجودہ خفیہ اڈوں پر ڈرون طیاروں پر ’ہیل فائر‘ میزائل اور پانچ سو پونڈ وزنی لیز گائیڈڈ میزائل لگانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ یہ کام ماضی میں سی آئی اے کے اپنے ماہر انجام دیتے تھے۔[1] امریکی سفارت خانے نے کہا ہے کہ اس قسم کی کہانیوں میں کوئی حقیقت نہیں اور نہ تو ہزار میرینز پاکستان آ رہے ہیں اور نہ زی یا بلیک واٹر پاکستان میں کوئی کام کر رہی ہے۔[7] اسلام آباد کے جس علاقے میں بلیک واٹر کے کارندے رہائش پزیر ہیں وہاں مقامی لوگوں کو رات کے وقت سڑک پر نکلنے پر ان بدمعاشوں کی طرف سے مارپیٹ کا سامنا ہے۔[8]
پاکستانی جوہری تنصیبات کے قریب سہالہ کالج میں کئی برسوں سے موجود امریکی جنگجؤں کی تعیناتی کی خبر عام ہونے کے بعد وزارت داخلہ نے ان امریکیوں کو سفارتخانہ میں منتقل ہونے کی ہدایت کی۔[9]
امریکی 'سفارتکار' جعلی اجازہ طبق گاڑیوں میں گھومتے گرفتار ہوئے۔[10] یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور حکومت سے بہت سے امریکیوں کو قانون سے بچنے کے لیے سفارتکار کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
شرعی حیثیت
ترمیمپاکستان کے سیاسی و مذہبی رہنماء مولانا فضل الرحمٰن نے فتویٰ دیا ہے کہ چونکہ یہ تنظیم ایک قاتلوں کا گروہ (ڈیتھ سکواڈ) ہے اس لیے اس میں شامل ہونا اور اس کے لیے کام کرنا شرعاً حرام ہے۔[11]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ "'بلیک واٹر' اور سی آئی اے کی خفیہ کارروائیاں"۔ بی بی سی اردو۔ 21 اگست 2009
- ↑ "Iraq outraged as Blackwater case is dropped"۔ روزنامہ انڈپنڈنٹ (بزبان انگریزی)۔ 2 جنوری 2010
- ↑ یو ٹیوب پر ایک ٹی وی شو یوٹیوب پر
- ↑
عرفان صدیقی (7 ستمبر 2009)۔ روزنامہ دی نیشن (بزبان انگریزی) مفقود أو فارغ
|title=
(معاونت) - ^ ا ب پ پاکستانی روزنامہ دی نیشن 7 ستمبر 2009ء (نقشِ خیال از عرفان صدیقی)
- ↑ پاکستانی روزنامہ جنگ 7 ستمبر 2009ء (قلم کمان از حامد میر)
- ↑ "روزنامہ جنگ۔ تازہ ترین خبریں 8 ستمبر 2009ء"۔ 11 ستمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 ستمبر 2009
- ↑ روزنامہ نیشن، 16 نومبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "'Blackwater operatives' night curfew"
- ↑ "Drive to stay till 'controversial' Yanks exit: Lawyers"۔ روزنامہ دی نیشن (بزبان انگریزی)۔ 2 جنوری 2010
- ↑ "US Consulate car impounded in Gwadar"۔ روزنامہ دی نیشن (بزبان انگریزی)۔ 7 جنوری 2010
- ↑ "بلیک واٹر ڈیتھ سکواڈ ہے"۔ روزنامہ نوائے وقت۔ 8 ستمبر 2009
ویکی ذخائر پر زی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |