پاکستان میں بچہ مزدوری
پاکستان میں بچہ مزدوری پاکستان میں بچوں سے مزدوری لینے کو کہا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح جہاں پر بچوں سے مزدوری رائج بھی ہے اور متواتر طور پر پروان بھی چڑھتی ہے، یہ مزدوری کی قسم ان بچوں کے بچپن کی سرگرمیوں میں دخیل ہوتی ہے اور ان سے ان کا بچپن، کھیل کود اور شرارت کے دن اور عمر کی فطری معصومیت چھینتی ہے۔
بچوں سے مزدوری کے مضر اثرات
ترمیمیہ پاکستانی بچے اسکولوں میں پڑھنے سے قاصر ہیں کیوں کہ ان کے اسکول میں جانے کے دنوں اور اوقات میں یہ نچے سخت محنت اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ سماجی طور فعال شخصیتوں، رفاہی کارکنوں اور صحافیوں نے اس بات کی واضح پر نشان دہی کی ہے کہ یہ مزدوری بچوں میں ذہنی، جسمانی، معاشرتی اور کئی اخلاقی نقصانات کا باعث بنتی ہے۔
اعداد و شمار اور حالات
ترمیمایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بچہ مزدوروں کی تعداد ایک کڑور کے قریب ہے جو عالمی سطح پر آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ایک خطرناک اشارہ ہے۔ عام طور پر ان کو بہت ہی قلیل معاوضہ دیا جاتا ہے جو نہ تو ان کی اور ان کے گھر والوں کی ضرورتوں کے لیے کافی ہے اور نہ کام اور اوقات کی افادیت کی کسی طرح سے عکاسی کرتا ہے ۔ صنعتوں اور خطرناک کاموں کے علاوہ جو عمومًا جان لیوا ہو سکتے ہیں، عام طور سے غریب ماں باپ اپنے کم سن بچوں کو متوسط درجہ کے گھروں میں بطور گھریلو ملازم رکھوا دیتے ہیں۔ عام مشاہدے سے یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ یہ بچے غلاموں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور انھیں کسی قسم کی رعایت حاصل نہیں ہے اور اس کے علاوہ ان سے ضرورت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ گھریلو کاموں میں برتن مانجھنا، جھاڑو لگانا، کپڑے دھونا، وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ان کو کوئی حقوق نہیں دیے جاتے اور اکثر مار پیٹ اور شدید زد و کوب کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ایسی ملازمت کے دوران تشدد سے موت کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں اور اکثر یا تو قانونی کارروائی نہیں ہوتی یا پھر خاطیوں کو مناسب سزائیں نہیں دی جاتی ہیں۔[1]
کاریگروں کی جانب سے بچوں کا استحصال
ترمیمکچھ باپ اپنے کم سن بچوں کو کام سکھانے کے لیے کسی کاریگر کے پاس بغیر اجرت روزانہ بھیج دیتے ہیں کہ شاید اس طرح بچہ کوئی ہنر سیکھ لے گا۔ ایسے کاریگروں کو استاد کہا جاتا ہے۔ یہ بچے بھی اکثر استاد کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور زیادہ تر کوئی ہنر سیکھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔
ناکافی سرکاری اقدامات
ترمیمپاکستان کے صوبۂ پنجاب میں بچوں کی مزدوری روکنے کے لیے حکومت نے سات کروڑ کی آبادی کے میں 2005ء تک صرف چوراسی انسپکٹر تعینات کیے تھے۔ یہ تعداد ریاست بھر وسیع پیمانے پھیلی بچہ مزدوری روکنے، قانونی اقدامات کرنے اور متاثرہ بچوں کو چھڑانے میں ناکام تھی۔ بچوں سے خطرناک مزدوری کرانے والوں کے خلاف گذشتہ 2004ء میں صرف تین سو اکیانوے مقدمے چلے۔ ان مقدموں میں صرف تیرہ ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ خطرناک کام کے لیے کسی بچہ کو مزدور رکھے والے کے لیے جرمانہ کی زیادہ سے زیادہ شرح ڈھائی سو روپے ہے۔[2] اس طرح قانونی چارہ جوئی کے لیے اور بڑے پیمانے پر پھیلی سماجی برائی کو روکنے کے لیے مزید اقدامات اور کڑے قوانین کا ہونا ناگزیر ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "لاہور: دس سالہ ملازمہ کی موت، مالکن کا اعترافِ جرم"۔ بی بی سی۔ 3 جنوری 2014ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/06/050614_child_labour.shtml