جسمانی بدسلوکی یا انددیکھی ہے، جو بہ طور خاص ماں باپ یا سرپرست کے یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ بچوں کے استحصال میں ایسا کوئی بھی عمل یا کسی عمل کی انجام دہی میں ناکامی ہو سکتی ہے جو نچوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ استحصال بچوں کے گھر میں، کسی ادارے، اسکول یا برادریوں میں ہو سکتا ہے جہاں کوئی بچہ کسی کے ربط میں آئے۔

ریاستہائے متحدہ امریکا کی فوج کے لیفٹننٹ کرنل کیتھ واشنگٹن جو دائیں جانب شہ نشین پر کھڑے ہیں، وہ برسرعہدہ ہونے کے سبب کارل آر ڈارنیل آرمی میڈیکل سینٹر کے محکمہ جاتی صدر بھی ہیں۔ وہ فوجیوں، عام شہریوں اور ارکان خاندان 2013ء میں بچوں کے استحصال کی روک تھام کی تقریب سے مخاطب ہو رہے ہیں۔ یہ تقریب تھرڈ کاپز ہیڈ کوارٹرز میں منعقد ہوئی جو فورڈ ہوڈ، ٹیکساس میں 3 اپریل 2013ء کو ئی۔

بچوں کا استحصال اور بچوں کی بدسلوکی کے الفاظ اکثر متبادل کے طور پر مستعمل ہیں جب کہ محققین ان دونوں میں فرق کرتے ہیں۔ بچوں کی بدسلوکی ایک جامع اصطلاح ہے جو اندیکھی، استحصال اور انسانی بازارکاری شامل ہیں۔

مختلف قانونی دائروں میں بچوں کے استحصال کی مختلف تعریفیں موجود ہیں تاکہ ایسے بچوں کو ان کے خاندانوں سے چھڑایا جائے یا کسی مجرمانہ الزام پر قانونی کارروائی کی جا سکے۔

تعریفیں

ترمیم

بچوں کے استحصال سے مراد کیا ہے، اس بارے میں قانونی ماہرین، سماجی اور ثقافتی زمروں اور زمانوں میں کافی اختلاف رائے دیکھی گئی ہے۔[1][2] ادب میں اکثر استحصال اور بدسلوکی متبادل طور پر مستعمل ہوتے ہیں۔[3]:11 بچوں کی بدسلوکی ایک جامع اصطلاح ہو سکتی ہے جس میں ہر قسم کا بچوں کا استحصال اور بچوں کی اندیکھی بھی شامل ہو ستی ہے۔[4] بچوں کی بدسلوکی کی تعریف مروجہ ثقافتی اقدار پر منحصر ہے کیوں کہ یہ بچوں، بچوں کی ترقی اور پرورش سے متعلق ہے۔[5] بچوں کی بدسلوکی کی تعریفوں میں سماج کے ان شعبوں میں فرق ہو سکتا ہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں۔[5] جیسا کہ بچوں کے تحفظ کی ایجنسیاں، قانونی اور طبی برادریاں، عوامی صحت کے عہدے دار، محققین، پیشے ور لوگ اور بچوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں میں ممکن ہے۔ چوں کہ ان شعبہ جات کے لوگ اپنی ہی تعریفیں استعمال کرتے ہیں، ان میں آپس میں پیامات کا تبادلہ کم ہوتا ہے، جس سے ان کوششوں کو دھکا لگتا ہے جو بچوں کی بدسلوکی کی شناخت، اس کے تجزیے، نشان دہی، درستی اور روک تھام پر مرکوز ہوتی ہیں۔[3]:3[6]

عمومًا استحصال سے مراد (عام طور سے دانستہ) ایسے کام ہوتے ہیں جن کے کرنے حرج ہوتا ہے، جب کہ اندیکھی ایسے کام مراد ہوتے ہیں جن کے نہ کرنے سے نقصان ہوتا ہے۔[4][7] بچوں کی بدسلوکی سے مراد وہ سارے کام مراد ہیں جن کے کرنے اور نہ کرنے سے بچوں کو حقیقی یا کوئی امکانی خطرہ ہو سکتا ہے۔[4] کچھ صحت کے پیشے سے جڑے لوگ اور مصنفین اندیکھی کو بھی استحصال کی تعریف میں لاتے ہیں، جب کہ دوسرے لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں؛ یہ اس لیے کہ جو نقصان ہوتا ہے کہ وہ غیر ارادی ہو سکتا ہے یا پرورش کرنے والے مسئلے کی سنگینی کو سمجھ نہیں پاتے ہیں، جو بچوں کی پرورش کے بارے میں کسی ثقافتی سوچ سے جڑا ہوتا ہے۔[8][9] بچوں کے استحصال اور اندیکھی کے دیرپا اثرات، خصوصًا جذباتی اندیکھی اور متعلقہ اعمال ہمہ قسم نوعیت جو بچوں کے استحصال کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے، بھی عوامل میں شامل ہیں۔[9]

عالمی ادارہ صحت نے بچوں کے استحصال اور بچوں کی بدسلوکی کی یہ تعریف پیش کی ہے کہ یہ "ہر قسم کے جسمانی اور/یا جذباتی بدمعاملگی، جنسی استحصال، اندیکھی یا نظر اندازی کا سلوک یا تجارتی اور دیگر استحصال، جس کی وجہ سے حقیقی یا امکانی نقصان کسی نچے کی صحت، نقا، ترقی یا وقار کو ہوتا ہے جو کسی رشتے داری، ذمے داری، بھروسا یا زورآوری میں ہوتا ہے۔"[10] ریاستہائے متحدہ میں سنٹر قار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) بچوں کی بدسلوکی کی اصطلاح ان تمام کیے گئے مضرت رساں اعمال کے لیے کرتا ہے، جس میں "الفاظ اور کھلی حرکتیں، جو نقصان، امکانی نقصان یا نقصان کا خطرہ کسی بچے کے لیے ہو سکتے ہیں۔[3]:11 ریاستہائے متحدہ کی وفاقی عدالت کے بچوں کے استحصال اور بدسلوکی کے انسداد کے قانون کی تعریف میں بچوں کا استحصال اور بدسلوکی کو کم از کم کسی حالیہ قعل یا کسی عمل میں ماں باپ یا پرورش کرنے والے کی ناکامی شامل ہے جس کا نتیجہ موت، سنجیدہ جسمانی یا جذباتی نقصان، جنسی بدسلوکی یا استحصال کہا گیا ہے یا یہ کسی عمل اور کسی کام کے کرنے میں ناکامی ہے جس سے سنجیدہ نقصان کا خطرہ بنا رہتا ہے۔" [11][12]

اقسام

ترمیم

عالمی ادارۂ صحت بچوں کے استحصال کی چار اقسام کو بیان کرتا ہے: جسمانی استحصال؛ جنسی استحصال، جذباتی اور نفسیاتی استحصال؛ اور اندیکھی۔[13]

جسمانی استحصال

ترمیم

پیشہ ور لوگوں اور عوام الناس میں اس بات پر کوئی عام اتفاق رائے نہیں ہے کہ کون سا رویہ کسی بچے کے لیے جسمانی استحصال کے دائرے میں آتا ہے۔[14] جسمانی استحصال اکثر ایک ہی بات نہیں ہوتی، یہ کئی ملحقہ رویوں کے ساتھ ہوتی ہے جس میں ارباب مجاز کی گرفت (authoritarian control) اور والدین کے رویوں میں گرمجوشی کی دیکھی جاتی ہے۔[15] عالمی ادارۂ صحت کی تعریف یوں ہے:

جسمانی طاقت کا کسی بچے پر استعمال جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے – یا نکلنے کا غالب امکان ہے – جس سے بچے کی صحت، بقا، ترقی اور وقار کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس میں پھینک کر مارنا، ہاتھ سے مارنا، ہلانا، چبانا، گلا دبانا، ابالنا، جلانا، زہر دینا اور سانس رکوانا شامل ہیں۔ بچوں کے خلاف زیادہ تر تشدد گھر پر سزا کے طور کیا جاتا ہے۔[13]

جوآن ڈورانٹ اور ران اینسم لکھتے ہیں کہ زیادہ تر جسمانی استحصال "ارادے، شکل اور اثر کے اعتبار سے " جسمانی سزا ہے۔[16] بچوں کے جسمانی استحصال اور جسمانی سزا کی مشترک تعریفوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ استحصال اور سزا کے بیچ کا فرق یا تو باریک ہے یا پھر عملًا مفقود ہے۔[17] مثال کے طور پر پاؤلو سرگیو پینہیرو اقوام متحدہ بچوں کے خلاف تشدد کے مطالعے میں لکھتے ہیں:

جسمانی سزا میں بچوں کے جسم کو لگ کر ضرب پہنچانا ('طمانچہ مارنا'، 'جھاپڑ مارنا'، 'کولہے پر مارنا') شامل ہے، جو ہاتھ سے یا کسی اوزار سے ہو – کوڑے، لکڑی، بیلٹ، جوتا، لکڑی کا چمچا، وغیرہ۔ مگر اس میں کچھ اور بھی شامل ہو سکتا ہے جیسے کہ لات مارنا، ہلانا یا بچوں کو اچھالنا، کھجانا، چمٹیاں لینا، چبانا، بال نوچنا یا کان گھونسا مارنا، جس سے مجبور ہو کر بچے غیر آرام دہ جگہوں میں رہتے ہیں، جلانا، گرم یا سلگتی چیزوں کو پھینکنا یا اگلوانا (مثال کے طور پر بچوں کے منہ کو صابن سے دھونا یا انہیں گرماگرم مرچیاں کھلانا)۔[18]

زیادہ تر ممالک جہاں پر بچوں کے استحصال کے قوانین دانستہ طور پر سنگین زخموں کے سرزد ہونے یا ایسے اعمال کے انجام دینے پر مرکوز ہیں جہاں واضح طور پر سنگین زخم یا موت واقع ہونے کا خطرہ ہے، وہ ایسے کاموں کو غیر قانونی مانتے ہیں۔[حوالہ درکار] کھروچ، چھلے جانا، چھالے، ٹوٹی ہوئی ہڈیاں، چیر پھاڑ اور مسلسل "ناگہانی،" اور سخت برتاؤ جو جسمانی زخم پہنچا سکتا ہے، جسمانی استحصال ہو سکتا ہے۔[19] متعدد زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جو شفایابی کے مختلف مرحلوں میں ہیں، استحصال کا شبہ پیدا کرسکتے ہیں۔

ماہرۂ نفسیات ایلیس میلر، جو بچوں کے استحصال پر اپنی کتابوں پر جانی جاتی ہیں، اس خیال کو آگے کرتی ہیں کہ تذلل، زوردار پٹائی اور مسلسل زدوکوب، چہرے پر جھاپڑ، وغیرہ استحصال ہی کی قسمیں ہیں کیوں کہ یہ سب ایک بچے کی عزت نفس اور وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہیں، اگرچیکہ اس سب کے نتائج فوری طور پر دکھائی نہیں دیتے۔[20]

اکثر جسمانی استحصال کی وجہ سے ایک بچہ مستقبل میں جسمانی اور دماغی الجھنوں کا شکار ہو سکتا ہے، جس میں باز مظلومیت، شخصیت میں بدنظمی، ما بعد اذیت تناؤ کی بدنظمی، دباؤ، انتہائی تجسس، خودکشانہ رجحان، غذائی بدنطمی، مادوں کا استحصال اور جارحیت۔ بچپن کے جسمانی استحصال کو کئی بار بالغوں کی بے گھری سے جوڑکر دیکھا گیا ہے۔[21]

جنسی استحصال

ترمیم

بچوں کا جنسی استحصال ایک قسم کا بچوں کا استحصال ہے جس میں کسی بالغ یا بڑی عمر والا نوجوان ایک بچے کو جنسی لذت کے لیے استعمال کرتا ہے۔[22] اس میں کسی بچے کو جنسی عمل کا حصہ بنایا جاتا ہے جس کا مقصد جسمانی تسکین یا ایسے عمل کے انجام دینے والے کے مالی فوائد ہو سکتے ہیں۔[19][23] اس کی مختلف شکلوں میں بچوں سے جنسی سرگرمیوں کی درخواست کرنا یا ان دباؤ ڈالنا (قطع نظر اس سے وہ لاحاصل کوشش کیوں نہ ہو)، شرمگاہ کا بچے کے سامنے نامناسب افشا، بچوں کو فحاشی دکھانا، بچوں کی شرمگاہ کو جسمانی تعلق کے بغیر مشاہدہ کرنا یا کسی بچے کا بچوں کی فحاشی کی تیاری کے لیے استعمال کرنا۔[22][24][25] بچوں کی قحبہ گری کو بھی محض جسم فروشی سے کہیں زیادہ بچوں کے استحصال کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔[26]

جنسی استحصال کے مظلومین ندامت، خود الزام تراشی، ماضی کی یاد، ڈراؤنے خواب، بے خوابی اور استحصال سے جڑی اشیا کے ڈر کا گہرا اثر رکھتے ہیں جس میں مقام واردات کی چیزیں، مخصوص بوئیں، جگہ کی خصوصیات، ڈاکٹروں سے ملاقات وغیزہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خود اعتمادی کی مشکلات، جنسی عدم کارکردگی، دیرپا درد، لت، خود کو زخمی کرنا، خودکشانہ رجحان، نیند کی شکایت، اعظم ترین تناؤ کی بدنطمی،[27] تجسس,[28] دیگر دماغی بیماریاں جس میں خط سرحد شخصیتی بدنظمی[29] اور ناوابستہ شخصیتی بدنظمی[29] سن بلوغ میں باز مظلومیت،[30] عصبی پرخوری،[31] اور بچے کو جسمانی زخم پہنچ سکتا ہے، دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ۔[32] ایسے بچے جو مظلوم ہوتے ہیں وہ جنسی طور منتقل معتدی امراض سے متاثر ہونے کا بھی خطرہ رکھتے ہیں کیوں کہ ان کی قوت مدافعت کم زور ہوتی ہے اور جسم کی مدافعتی پرتیں تیزی سے چیری جا سکتی ہیں جب جنسی تعلق قائم ہوتا ہے۔[33] کم سنی میں جنسی مظلومیت کئی خطرناک عوامل سے منسوب سمجھی گئی ہے جو ایچ آئی وی سے ہم کنار کر سکتے ہیں، جس میں اگر چیکہ جنسی موضوعات سے واقفیت کم ہوتی ہے، ایچ آئی وی کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے، خطرناک جنسی اعمال کا وہ حصہ بنتے ہیں، کونڈوم سے اجتناب دیکھا گیا ہے، محفوظ ہم بستری کی معلومات کم ہوتی ہے، جنسی ساتھی تیزی سے بدلتے ہیں اور جنسی فعالیت کے سال زیادہ ہوتے ہیں۔[33]

ریاستہائے متحدہ میں تقریبًا 15% سے 25% فی صد عورتیں اور 5% سے 15% آدمی جنسی طور پر بچپن میں استحصال کا شکار ہوئے۔[34][35][36] زیادہ تر جنسی استحصال کنندے اپنے مظلوموں سے واقف تھے؛ 60% خاندان کے دوست، بچوں کی دیکھ ریکھ کرنے والے یا پڑوسی تھے؛ 10% استحصال کنندے اجنبی تھے۔[34] ایک تہائی معاملے میں مجرم بھی کم سن ہی تھا۔[37]

1999ء میں بی بی سی نے اطلاع دی کہ راہی فاؤنڈیشن نے بھارت میں جنسی استحصال کا ایک سروے لیا، جس میں 76% حصہ لینے والوں نے کہا کہ بچپن میں ان کے ساتھ استحصال کیا گیا تھا۔ اس میں 40% نے یہ بھی کہا کہ خاطی خاندان ہی کا ایک رکن تھا۔[38]

نفسیاتی استحصال

ترمیم

بچوں کے نفسیاتی استحصال کی کئی تعریفیں موجود ہیں:

  • 2013ء میں امیریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (اے پی اے) نے بچوں کے نفسیاتی استحصال کی تعریف ڈی ایس ایم-5 میں شامل کی، جس میں اسے "والدین یا سرپرست کے غیر اتفاقی لفظی یا علامتی اعمال ہیں جن کے نتیجے میں یا گمان غالب ہے کہ ان کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بچے کو نفسیاتی نقصان پہنچ سکتا ہے۔"[39]
  • 1995ء میں اے پی ایس اے سی نے یہ تعریف پیش کی کہ: ٹھکرانا، دھمکانا، تنہا چھوڑنا، بگاڑنا، جذباتی جواب دہی کی نفی یا اندیکھی" یا "ایک مکرر سرپرست کا رویہ یا انتہائی اقدام(ات) جو یہ بچوں کو یہ پیام دیتے ہیں کہ وہ بے قیمت، بگڑے ہوئے، غیر محبوب، غیر مطلوب، خطرے میں یا صرف اتنی قدر کے حامل ہیں جو دوسروں کو کام آ سکیں۔"[40]
  • ریاستہائے متحدہ میں ریاستی قوانین کافی مختلف ہیں مگر زیادہ زیادہ تر میں "دماغی زخم" کے خلاف قوانین موجود ہیں۔[41]
  • کچھ نے اس کی تعریف بچوں کی بڑھت کے دوران نفسیاتی اور سماجی نقائص کے تیار کرنے پر مرکوز کی ہے جو ایسے رویوں کا نتیجہ ہو جیسے کہ چیخنا، سخت لب و لہجہ اور بے رحمانہ انداز سے پیش آنا، بے توجہی، سخت تنقید اور بچوں کی شخصیت کی عدم توقیر۔[19] دیگر مثالوں میں بے جا ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، عدم توقیر، شخصی چیزوں کو تباہ کرنا، پالتو جانور کو مار ڈالنا یا اسے اذیت پہنچانا، حد سے زیادہ تنقید، نامناسب یا حد سے زیادہ مطالبات، معلومات کو روکے رکھنا اور حسب معمول طعنہ زنی یا تحقیر۔[42]

2014ء میں اے پی اے کے بہ قول: [43]

  • "بچپن کا نفسیاتی استحصال اتنا ہی مضرت رساں ہے جتنا کہ جنسی یا جسمانی استحصال۔"
  • "تقریبًا تین ملین ریاستہائے متحدہ کے بچے کسی نہ کسی شکل کی (نفسیاتی) بدسلوکی سے ہر سال گزرتے ہیں۔"
  • نفسیاتی بدسلوکی "بچوں کے استحصال اور ان کی اندیکھی میں سے زیادہ رائج اور مشکل قسم ہے۔"
  • "بچوں کے نفسیاتی استحصال اور جوان مظلوموں کو اس کے شدید نقصان کے پیش نظر اسے دماغی صحت اور سماجی خدمت کی تربیت میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔"

2015ء میں مزید تحقیق یہ اس بات کی تصدیق ہوئی کہ اے پی اے کے بیانات درست ہیں۔[44][45]

جذباتی استحصال کے مظلومین رد عمل کے طور پر خود کو استحصال کنندے سے کنارہ کش رکھنا چاہ سکتے ہیں، خود میں اہانت آمیز الفاظ کو دبا سکتے ہیں یا استحصال کنندے کی ہتک کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ جذباتی استحصال کا نتیجہ معمول سے ہٹ کر یا بگڑی ہوئی وابستگی سے جڑی ترقی، ایک ایسے رجحان جو مظلومین کو استحصال مورد الزام ٹھہرائے (خود الزام تراشیواقف بے یار و مددگاری اور ضرورت سے زیادہ خاموش رویہ کی شکل میں رونما ہو سکتا ہے۔[42]

اندیکھی یا غفلت

ترمیم

بچوں سے غفلت ایک ماں یا باپ یا کسی اور شخص کی بچے کی ذمے داری میں لاپروائی ہے۔ اس میں غذا، لباس، آشیانے، طبی ضروریات یا اس درجے کی نگرانی کہ بچے کی صحت، حفاظت یا خوش حالی کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اندیکھی میں ایک بچے کے اردگرد کے لوگوں کی جانب سے عدم توجہی اور مناسب اور کافی حاجتوں کی عدم تکمیل بھی شامل ہے جو توجہ، محبت اور پرورش کی ضروریات کی کمی ہے۔[19]

بچوں سے غفلت کی علامات میں حسب علامات کو محسوس کیا جا سکتا ہے: بچہ اکثر اسکول سے غیر حاضر رہتا ہے، غذا اور پیسوں کی یا تو بھیک مانگتا ہے یا انھیں چوری کرتا ہے، مستقل طور پر گندگی میں رہتا ہے یا موسم کی مناسبت سے کافی کپرے نہیں پہنتا۔[46] 2010ء کی بچوں کی بدسلوکی رپورٹ (Child Maltreatment Report) کے مطابق، جو ہر سال ریاستہائے متحدہ کی وفاقی حکومت چائلڈ پروٹیکٹیو سرویسیز کے اعداد و شمار پر تیار کرتی ہے، میں یہ کہا گیا ہے کہ "پچھلے سالوں کی طرح، اندیکھی بدسلوکی کی سب سے عام شکل رہی ہے"۔[47]

غفلت کے عمل کو چھ ذیلی زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:[7]

  • سرپرست کی غفلت: اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ماں باپ یا سرپرست کی کمی ہوتی ہے جس سے جسمانی نقصان، جنسی استحصال یا مجرمانہ رویہ پیدا ہو سکتا ہے؛
  • جسمانی غفلت: اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بنیادی جسمانی ضروریات کی فراہمی میں ناکامی دیکھی جاتی ہے جیسے کہ صاف اور محفوظ گھر؛
  • علاج و معالجہ سے غفلت: اس میں طبی ضروریات مہیا کرنے کی ضرورت کی اندیکھی شامل ہے۔
  • جذباتی غفلت: ای کی خصوصیات میں پرورش کے دوران میں ضروریات، حوصلہ افزائی اور حمایت میں فقدان دیکھا جا سکتا ہے۔
  • تعلیمی غفلت: اس میں سرپرستوں کی جانب سے تعلیمی ضرورتوں اور متعلقہ وسائل کی عدم فراہمی شامل ہے جس سے ایک بچہ کسی اسکولی نظام میں تیزی سے حصہ لے سکتا ہے؛ اور
  • مدت مدید کے لیے چھوڑ دینا: یہ اس وقت ممکن ہے جب کوئی ماں باپ یا سرپرست ایک بچے کو لمبے عرصے تک کسی ذمے دار دیکھ ریکھ کرنے والے کے بغیر چھوڑ دیتے ہیں۔

وجوہ

ترمیم

بچوں کا استحصال ایک پیچیدہ مظہر ہے جس کے متعدد وجوہ ہیں۔[48] ان عوامل میں سے کسی ایک کی شناخت کرنا مشکل ہے جو یہ نشان دہی کرے کہ بالغ کیوں بچوں سے سختی سے پیش آتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت اور انٹرنیشنل سوسائٹی فار پریوینشن آف چائلڈ ابیوز اینڈ نیگلیکٹ (International Society for Prevention of Child Abuse and Neglect - ISPCAN) متعدد عوامل کی شناخت کرتے ہیں جو شخصی سطح، ان کے تعلقات، ان کی مقامی برادری اور وسیع تر سماج سے مل کر بچوں کی بد سلوکی کے محرک بنتے ہیں۔ شخصی سطح پر انفرادی عوامل میں عمر، جنس اور شخصی تاریخ جیسے عوامل جب کہ سماج کی سطح پر بچوں سے بد سلوکی کے معاون عوامل میں وہ ثقافتی عادات و اطوار ہیں جو بچوں سے سخت سزاؤں، معاشی نابرابری اور سماجی حفاظتی دائرے شامل ہیں۔[13] عالمی ادارۂ صحت اور انٹرنیشنل سوسائٹی فار پریوینشن آف چائلڈ ابیوز اینڈ نیگلیکٹ کا بیان ہے کہ مختلف خطرے کے عوامل کا تانابانا ہی بچوں کی بد سلوکی کے لیے اہم ہے۔[13]

امریکی نفسیاتی تجزیہ نگار ایلیزبیتھ ینگ بروہل کا دعوٰی ہے کہ بچوں کی ایذا رسانی اکثر نہ صرف منصفانہ قرار دی جاتی ہے بلکہ وسیع پیمانے پر قبولیت کا درجہ پاتی ہے اور اس کی وجہ یہ سوچ ہے کہ بچے بالغوں کے آگے محکوم ہیں۔ اس کی وجہ سے بڑی حد تک بچوں سے غیر تسلیم شدہ تعصب رواں ہو چکا ہے، جسے وہ طفلیت (childism) کا نام دیتی ہیں۔ وہ مزید دعوٰی کرتی ہیں کہ ایسے تعصبات، اگر چیکہ بچوں کی بد سلوکی کا فوری سبب نہیں ہوتے، تاہم ان کی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی استحصال کے پس پردہ محرکات کو سمجھا جا سکے اور یہ بھی جاننے میں مدد ملے کہ کیوں سماج بچوں کی ضروریات اور ان کی ترقی پر روشنی ڈالنے میں ناکام ہے۔[49]:4–6 انٹرنیشنل جرنل آف چلرنز رائٹس کے بانی مدیر مائیکل فریمن بھی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ بچوں کے استحصال کے حقیقی وجوہ بچوں کے تیئیں تعصبات میں ہیں، بالخصوص یہ خیال کہ انسانی حقوق بچوں اور بالغوں پر یکساں طور پر نافذ نہیں ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ "بچوں کے استحصال کی جڑیں نہ تو ماں باپ کے نفسیاتی طبی تجزیے میں ہے اور نہ سماجی ماحولیاتی تناؤ میں (حالانکہ ان کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا) مگر یہ اس بیمار ثقافت میں ہے جو اس درجہ گرتی اور غیر شخصی بن چکی ہوتی ہے جو بچوں کو جائداد کی حد تک گھٹاتی ہے اور جنسی اشیا بناتی ہے جو جائز طور پر بالغوں کے تشدد اور شہوت کے مظلوم بن جاتے ہیں۔"[50]

 
ایک لڑکی جو اوڈیشا، بھارت میں مذہبی تشدد کی شکار بنی۔

جب ماں باپ میں سے کوئی اپنے شریک حیات کا جسمانی طور پر استحصال کرتا ہے، تو یہ اغلب ہے کہ دیگر لوگوں کے مقابلے وہی فرد اپنے نچوں کا جسمانی استحصال کر سکتا ہے۔[51] تاہم یہ عملًا ناممکن ہے کہ یہ پتہ چلے کہ ازدواجی بے امنی ہی بچوں کے استحصال کا سبب ہے یا اگر ازدواجی بے امنی اور استحصال اصلًا استحصال کنندے کے اندرونی رجحانات کا نتیجہ ہیں۔[51] کبھی کبھار والدین بچوں سے ایسی توقعات رکھتے ہیں جو واضح طور بچوں کی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ جب والدین کی توقعات بچوں کے لیے موزونیت سے متجاوز ہوتی ہیں (مثلًاسکولی دور سے پہلے ہی بچوں سے توقع کی جائے کہ وہ خود کی مکمل کفالت کریں گے یا ماں باپ کے رہن سہن میں معاون ہوں گے) تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ماں باپ بچوں کی جانب سے عدم تکمیل سے اکتا جاتے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگرچیکہ یہ امر بچائے خود استحصال کے عوامل میں شامل نہیں ہے، مگر یہ معاون امور کا حصہ ہے۔[52]

بچوں کے خلاف جسمانی تشدد کے زیادہ تر واقعات سزا دینے کے ارادے سے انجام پاتے ہیں۔[53] ریاستہائے متحدہ میں ماں باپ سے لیے گئے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ خبروں میں اطلاع دیے جانے والے دو تہائی سے زائد جسمانی استحصال کے واقعات کا آغاز جسمانی سزا سے ہوتا ہے جس کا مقصد کسی بچے کے رویے کی اصلاح ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس کینیڈا میں کیے گئے مطالعے سے پتہ چلتا ہے تین چوتھائی سے زائد جسمانی استحصال کے واقعات جسمانی سزا کے سیاق و سباق میں انجام پائے ہیں۔[54] دیگر مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ بچے اور خاص طور پر دودھ پیتے بچے جن کے کولہوں پر ان کے ماں باپ زور سے مارتے ہیں، اس بات کا غالب امکان رکھتے ہیں کہ آگے چل کر یہی والدین بری طرح سے وار کر سکتے ہیں یا ایسے زخم سے متاثر ہو سکتے ہیں جس کے لیے طبی دیکھ ریکھ ضروری ہوگی۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے استحصالی برتاؤ میں ماں باپ کسی تنازع کو بچے کی رضامندی یا عدم رضامندی سے جوڑ سکتے ہیں اور "جکڑ کر رکھنے والے خاندانی تانے بانے اور مشروط جذباتی رد عمل" کو بہ روئے کار لا سکتے ہیں۔[16] ایسے عوامل جو ماں باپ کی کسی سادہ جسمانی سزا کو مصدقہ جسمانی استحصال کی شکل دیتے ہیں، ان میں سزا دینے والے ماں باپ کی غصے کو قابو میں رکھنے میں ناکامی یا اپنی طاقت کا غلط اندازہ ہو سکتا ہے اور یہ کہ ماں باپ بچوں کی جسمانی کم زوریوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔[15]

کچھ پیشے ور لوگوں کا خیال ہے کہ ثقافتی رواج جو جسمانی سزا کی گنجائش رکھتے ہیں، وہ بچوں کے استحصال کے عوامل میں سے ایک ہیں اور یہ لوگ کئی مہمات کو پایہ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں جس کا مقصد ان رواجوں کی بازتعریف (redefinition) ہے۔[55][56][57]

ایسے بچے کو غیر ارادی حمل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں، وہ اغلب ہے کہ استحصال یا غفلت کے شکار ہوں گے۔[58][59] اس کے علاوہ، غیر ارادی حملوں کا امکان بالارادہ حملوں سے کہیں زیادہ استحصالی رشتے داریوں سے منسوب ہونے کا رہتا ہے،[60] اور یہ زیادہ امکان ہے کہ استحصال یا غفلت سے متعلق ہے اور حمل کے دوران جسمانی تشدد کے خطرے کا امکان بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔[61] اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ زچہ کی دماغی صحت عام حالتوں سے کہیں خستہ رہتی ہے [61] اور °ماں بچے کے رشتے کی کیفیت بھی اسی طرح ناقص رہتی ہے۔[61]

اس بات کے محدود شواہد ہیں کہ یہ ایسے بچے جو معتدل یا باوسعت معذوری والے بچے غیر معذوری والے بچوں سے کہیں زیادہ استحصال کے شکار بن سکتے ہیں۔[62] اس سلسلے میں ایک مطالعہ کیا گیا تاکہ یہ پتہ چلے کہ معذوریوں کے شکار بچوں پر کس قسم کے بچوں کا استحصال ہوتا ہے؛ یہ بچوں کا استحصال کس حد تک ہوتا ہے؛ اور معذوری کے ساتھ رہ رہے بچوں پر بچوں کے استحصال کے بنیادی اسباب کیا ہیں۔ بچوں کے استحصال کے سوالنامے میں کچھ ترمیم کی گئی تھی اور اس مطالعہ میں مواد جمع کرنے کے لیے اسے استعمال کیا گیا تھا۔ شرکاء نے 31 شاگردوں کا نمونہ چنا جو معذوری کے شکار تھے (15 طلبہ جو نابینا تھے اور 16 طلبہ جو سماعت سے محروم تھے)۔ یہ انتخاب بوٹسوانا کے ایک خصوصی اسکول میں کیا گیا تھا۔ اس مطالعے سے پتہ چلا کہ زیادہ تر بچے گھریلو کام کاج میں شریک تھے۔ انھیں جنسی، جسمانی اور جذباتی طور پر اپنے اساتذہ کی جانب سے استحصال کا شکار بنایا گیا تھا۔ اس طرح سے اس مطالعے یہ واضح ہو گیا کہ معذور بچے اپنے اسکولوں میں بھی استحصال کا شکار بن سکتے ہیں۔[63]

منشیات کا استحصال بھی بچوں کے استحصال میں معاون اہم عوامل میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ ایک ریاستہائے متحدہ کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ وہ والدین ماں باپ جو منشیات کے استحصال، جس میں شراب سب سے عام تھی، پھر کوکین اور ہیروئن، وہ اپنے بچوں سے بد سلوکی کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔[64] ایک اور مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ بچوں کے استحصال کے دو تہائی سے زیادہ معاملے ان ماں باپ کی وجہ سے ہیں جو منشیات کے استحصال کے مسائل سے دوچار ہیں۔ یہ مطالعے سے خصوصیت سے خصوصیت سے پتہ چلا کہ شراب اور جسمانی استحصال اور کوکین اور جنسی استحصال میں کیا روابط ہیں۔[65] اس کے علاوہ ماں باپ کا تناؤ جو منشیات کی بدولت پروان چڑھتا ہے، اس بات کے امکانات کو بڑھاتا ہے کہ کم سن خود میں گم سم ہو جائے یا پھر گھر سے باہر ہی خود کو محفوظ سمجھے۔[66] حالانکہ استحصال سے متاثرہ کم سن ہمیشہ استحصال کو غلط نہیں سمجھ پاتا، اندرونی خلفشار بے راہ روی کو دعوت دے سکتا ہے۔ اندرونی غصہ باہر کی اکتاہٹ پر مُنتِج ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے 17 اور 18 سالہ لوگ شراب پیتے ہیں اور منشیات لے کر زخمی جذبات میں راحت پانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ راتوں میں بد خوابی اور دن میں بد نما پرانی یادوں کو سوچ کر پریشان ہوتے ہیں۔ کیمیاوی مادوں کے حصول کے لیے جرائم کا انجام پانا ناگزیر ہوتا ہے اگر مظلوم کسی ملازمت کے حصول میں ناکام ہوتا ہے۔[67]

بے روزگاری اور مالی مشکلات کو بھی بچوں کے بڑھتے استحصال سے منسوب کیا گیا ہے۔[68] 2009ء میں سی بی ایس نیوز نے خبر دی کہ ریاستہائے متحدہ میں بچوں کا استحصال 2000ء کے اواخر کی کساد بازاری میں بڑھ چکا تھا۔ یہ اطلاع دی گئی کہ کیسے ایک باپ جو کبھی اپنے بچوں کی ضرورتوں کا اولین دیکھ ریکھ کرنے والا نہیں تھا، اچانک یہ ذمے داری اٹھانے پر مجبور ہو گیا تھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی نچے زخموں کے شکار بھی بنے تھے۔[69]

عالمی پیمانہ

ترمیم

بچوں کا استحصال ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ غربت اور منشیات کا استحصال دنیا بھر میں عام سماجی مسائل تسلیم کیے گئے ہیں اور کسی مقام سے قطع نظر بچوں کے استحصال کا رجحان ہر طرف ایک جیسا ہی ہے۔[حوالہ درکار]

حالاں کہ عوامل ممکنہ طور بچوں سے بد سلوکی میں معاون ہو سکتے ہیں، ثقافتی نقطہ ہائے نظر کے فرق بھی بچوں کے ساتھ سلوک میں خاصا دخل رکھتے ہیں۔ کچھ ممالک میں مرد و خواتین کے بیچ برابری کی لڑائی کا بچوں کی پرورش میں بڑا دخل ہے۔ سوویت دور میں روایتی گھریلو بیوی اور جنسی برابری کو لے کئی تنازعات دیکھے گئے تھے۔ کچھ عورتوں نے یہ محسوس کیا کہ تناؤ کا مقدار اس بات میں کہیں زیادہ ہے کہ وہ ماؤں کے فرائض اور "بااخیتار" والدانہ طرز عمل کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ وہ متغلبانہ اور جذباتی طور پر بچوں سے دور اپنے کیریئر پر توجہ دے رہی ہیں۔[70] اس دور میں کئی ماؤں کو اس بات کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی کہ وہ مزید سخت اور راست ضابطوں کے طریقوں کو اپنائیں اور زیادہ اختیارات کو بہ روئے کار لاتے ہوئے اپنے بچوں کی سخت نگہبانی کریں۔[70]

سوویت دور کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کئی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ حالاں کہ جدید دور میں وہاں والدین کے طرز عمل اور بچوں کے ساتھ بند رشتوں کو لے کر ایک نیا کھلاپن اور قبولیت کی فضا ہے، بچوں کا استحصال اب بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حالا ں کہ اس بات عوامی طور پر قبول کیا گیا ہے، مگر فی الواقع یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا ہے۔ جہاں ماں باپ کا درجہ پانے پر روک لگانا کوئی خاص لمحہ فکر کی بات نہیں ہے، مالی مشکلات، بے روزگاری اور منشیات کا استحصال اب بھی ان غالبانہ عوامل میں شامل ہیں جو پورے مشرقی یورپ میں بچوں کے استحصال میں معاون ہیں۔[70]

کئی بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپی ممالک کے ارکان نے ایک مطالعہ کیا جس میں ریاستہائے متحدہ کے ماہرین خصوصی تھے۔ اس کا موضوع لٹویا، لیتھوینیا، مقدونیہ اور مالدووا میں بچوں کا استحصال تھا۔ ان ممالک علی الترتیب 33%، 42%، 18% اور 43% بچے اطلاع دیے ہیں کہ کم وہ بچوں کی کم از کم کسی ایک قسم کا شکار ہوئے ہیں۔[71] ان کی دریافت کے مطابق والدین کے ملازمتی موقف، شراب کے استحصال اور خاندان کے سائز کا استحصال عوامل کی درجہ بندی میں بڑا دخل ہے۔[70] ان چار میں سے تین ممالک میں والدین کی جانب سے منشیات کا استحصال قابل قدر حد تک بچوں کے استحصال کی موجودگی سے مربوط تھا۔ حالاں کہ فی صد کے اعتبار سے یہ کافی کم تھا، مگر پھر بھی یہ چوتھے ملک (مالدووا) میں بھی مربوط پایا گیا ہے۔[70] ہر ملک میں اس بات کا ربط پایا گیا ہے کہ باپ گھر سے باہر نہیں کام کرتا ہے اور کس حد تک جذباتی اور جسمانی بچوں کا استحصال رائج ہے۔[70]

ان ثقافتی اختلافات کو کئی زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ کل والدین کا رویہ ان ممالک میں مختلف ہے۔ ہر ثقافت کا اپنا "قبولیت کا دائرہ،" ہے اور جس بات کو کوئی ناقابل برداشت سمجھتا ہے، دوسرے اسی بات سے مکمل طور پر متفق ہوتے ہیں۔ جو رویہ کسی کے لیے عام بات ہے، وہی دوسروں کے لیے ظالمانہ ہو سکتا ہے، یہ سب کسی مخصوص ملک کے سماجی رواج پر منحصر ہے۔[70]

ایشیائی ماں باپ کی پرورش کے نقطۂ نظر میں خاص طور پر وہ اسول ہوتے ہیں جو امریکی ثقافت سے مختلف ہیں۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی روایات جن میں جسمانی اور جذباتی قربت زندگی بھر کی والدین اور بچوں بندش ہے۔ وہ والدین کی ثقاہت اور اولاد کی اطاعت کو سخت تادیبی انداز سے نافذ کرتے ہیں۔[72] ضابطے کی ذمے داری میں توازن قائم کرنا کئی ایشیائی ثقافتوں میں عام ہے، جن میں چین، جاپان، سنگاپور، ویت نام اور کوریا شامل ہیں۔[72] کچھ ثقافتوں میں زوردستی والدین کا اختیار تھوپنا استحصال سمجھا جاتا ہے، مگر ان سماجوں میں زبر دستی کا استعمال ماں بات کی اطاعت گزاری اور احکام کی بجا آوری کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔[72]

ان ثقافتی اختلافات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بچوں کے استحصال کا جائزہ لینے کے لیے سبھی بین ثقافتی نقطہ ہائے نظر کے معائنے کی ضرورت ہے۔

بمطابق 2006ء 25,000 اور 50,000 کے بیچ بچے کنشاسا، جمہوریہ کانگو پر جادوگری کا الزام ہے اور انھیں چھوڑ دیا گیا ہے۔[73] ملاوی میں ایک عام رواج ہے کہ بچوں پر جادوگری کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور کئی بچوں کو چھوڑ دیا گیا ہے، استحصال کا شکار بنایا گیا ہے یا پھر انھیں قتل بھی کیا گیا ہے۔[74] نائجیریا میں اکوا ایبوم ریاست اور کراس ریور ریاست میں تقریبًا 15,000 بچوں کو جادوگر قرار دیا گیا ہے۔[75]

اپریل 2018ء میں جنوبی کوریا کی عوامی نشریات نے یہ خبر جاری کی کہ ملک میں بچوں کا استحصال پچھلے سال کے مقابلے 13% بڑھا ہے اور بچوں پر حملہ کرنے والوں کی تین چوتھائی تعداد میں خود ان کے ماں باپ شامل ہیں۔[76]

افشائے راز اور تشخیص

ترمیم
 
کبھی کبھار گُڑیاؤں کی مدد سے استحصال کے افشائے راز کی کوشش کی جاتی ہے۔

جسمانی استحصال کا شک اس وقت بجا قرار دیا جاتا ہے جب ایک ایسے بچے کو زخمی پایا جاتا ہے جو اب تک آزادانہ طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جاتا ہے، زخم معمول سے ہٹ کر دیگر جگہوں میں ہے، ایک سے زائد زخم مندمل ہونے کے مختلف مراحل میں ہیں، سر کی پیچیدہ تکلیف کی ممکنہ علامات اور جسم کے نظاموں پر زخم پائے جاتے ہیں۔[77]

کئی عدلیہ کے نظاموں کے تحت ایسا استحصال جو مشکوک ہے، ضروری نہیں کہ پایۂ ثبوت کو پہنچا ہے، کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچوں کے تحفظ کی ایجنسیوں کو اطلاع دی جائے جیساکہ ریاستہائے متحدہ میں بچوں کے تحفظ کی خدمات۔ صحت کی دیکھ ریکھ کے ملازمین جیسے کہ ابتدائی دیکھ ریکھ فرہم کنندوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ بچوں کی حفاظت کی ضرورت کو مد نظر رکھیں۔ مشتبہ استحصال کنندوں سے دور ایک نجی ماحول اس طرح کے انٹرویو اور جائزے کے لیے ضروری ہے۔ ایسے مبہم جملوں سے آغاز کرنا جو اصل کہانی کو بگاڑ سکتے ہیں، نہیں کیا جانا چاہیے۔ خودکار تصحیحی گُڑیاؤں کا کبھی کبھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ یہ سمجھایا جا سکے کہ ہوا کیا ہے۔ مشتبہ استحصال کنندوں کے لیے یہ سفارش کی گئی ہے ایک غیر فیصلہ کن، غیر دھمکی آمیز رویہ اپنایا جائے اور صدمے کے اظہار سے بچا جائے تاکہ ان سے معلومات حاصل کی جا سکے۔[78]

جائزہ

ترمیم

بچوں کے استحصال کے کام ایک کلیدی حصہ جائزہ ہے۔

ایک مخصوص پریشان کن صورت حال اس وقت رو نما ہوتی ہے جب بچوں کے تحفظ سے جڑے پیشے ور لوگ ان خاندانوں کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں جہاں یہ ان دیکھی یا غفلت پیش آتی ہے۔ یہ پیشے ور لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی کبھار حسب ذیل غلطیوں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں:[79]

  • صحیح طرح کا سوال نہیں پوچھنا، جیسے کہ:
    • کیا غفلت برتی جا رہی ہے؛
    • کیوں غفلت برتی جا رہی ہے؛
    • بچے کے لیے یہ صورت حال کیسی ہے؛
    • کیا خاندان میں ہونے والی بہتریاں لمبے عرصے تک چل سکتی ہیں ٰ؛
    • بچوں کی لمبے عرصے تک حفاظت کے لیے کیا جانا چاہیے؟

روک تھام

ترمیم

ایک سپورٹ گروپ کے ڈھانچے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی پرورش کی صلاحیتوں کی دوبارہ نصیحت کی جا سکے اور بچے کی خوش حالی کی نگرانی کی جا سکے۔ گھر کا دورہ کرنے والی نرس یا سماجی کارکنوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ غور کیا جائے اور بچوں اور سرپرستی کی صورت حال کا جائزہ لیا جا سکے۔ سپورٹ گروپ کا دھانچا اور دورہ کرنے والی نرس یا سماجی کارکن باہمی طور غیر مربوط نہیں ہونے جاہیے۔ کئی مطالعات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ان دو اقدامات کو یک جا کرنا چاہیے تاکہ بہتر سے بہتر نتیجہ ملے۔[80]

بچوں کا اسکول پروگرام جو "اچھے سے چھونا … گندگی سے چھونا" بچوں کو ایک فورم مہیا کر سکتا ہے جس میں مخصوص کردار کے ادائیگی کے ذریعے نقصان دہ صورت حال سے بچا جا سکتا ہے۔ ماہر طفلیات یہ پہچاننے میں مدد کر سکتے ہیں کہ کون سے بچے بد سلوکی ملنے کا جوکھم رکھتے ہیں اور سماجی کارکن کی مدد سے مداخلت کر سکتے ہیں یا ایسا علاج مہیا کر سکتے ہیں جو کسی بھی امکانی بد سلوکی کے عوامل کو دور کر سکتا ہے جیسے کہ زچہ ماں کا تناؤ۔[81] ویڈیو کانفرنس کا استعمال بھی بچوں کے استحصال کی تشخیص کے دور کے ہنگامی شعبوں اور مطبوں کی جانب سے استعمال کیا گیا ہے۔[82] غیر ارادی حمل بچوں کے استحصال کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ جب کہ کئی افراد پر مشتمل خاندان اندیکھی کے امکانات کو اور زیادہ کرتا ہے۔[59] اسی وجہ سے نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جامع مطالعے میں قابل خرچ ضبط حمل کو بھی شامل کیا گیا تھا جو بچوں کے استحصال کو روکنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔[59][83] ریاستہائے متحدہ کے سرجن جنرل سی ایوریٹ کوپ کے ایک مطالعے کے مطابق "مؤثر بچوں کے استحصال کی روک تھام کے پروگرام کا نقطۂ آغاز خاندانی منصوبہ بندی ہے۔"[59][84]

1993ء سے اپریل کو ریاستہائے متحدہ میں بچوں کے استحصال کی روک تھام کا مہینا قرار دیا گیا ہے۔.[85] امریکی صدر بارک اوباما نے اپریل 2009ء کو بچوں کے استحصال کی روک تھام کا مہینا قرار دیتے ہوئے یہ روایت برقرار رکھی تھی۔[86] ایک طریقہ جس سے ریاستہائے متحدہ امریکا کی وفاقی حکومت بچوں کے استحصال کو روکنے کے لیے چندہ فراہم کرتی ہے، وہ برادریوں کی شرکت والے عطایا (Grants) بچوں کے استحصال اور اندیکھی (Community-Based Grants for the Prevention of Child Abuse and Neglect (CBCAP)) کو محکمہ صحت و انسانی خدمات کے بچوں کے بیورو کے ذریعے فراہم کرتی ہے۔[87]

بچوں کے تحفظ کی خدمات کے وسائل کبھی کبھار محدود ہوتے ہیں۔ حسین (2007ء) کے مطابق، "صدمہ چھیل چکے استحصال کا شکار ہوتے والے بچوں کی قابل لحاظ تعداد بچوں کے تحفظ کی حکمتہائے عملی تک رسائی نہیں کر پاتی ہے۔"[88] بریئیر (1992ء) نے استدلال پیش کیا ہے یہ صرف جبھی ہوتا ہے اگر "نچلی سطح کا تشدد انجام پائے" [توضیح درکار] تو یہ ثقافتی طور پر قابل برداشت نہیں ہے اور ظلم و ستم کی نوعیت بدلے گی اور پولیس کی جانب سے بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔[89]

پھیلاؤ

ترمیم

بچوں کا استحصال مطالعے کے لیے مشکل اور پیچیدہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، بچوں کے استحصال کی شرحیں ملک در ملک مختلف ہیں، جس کی وجہ بد سلوکی کی تعریف ہے، مطالعہ کی بد سلوکیاں ہیں، جمع شدہ مواد کی دائرہ اور اس کی کیفیت ہے اور کیے گئے سروے کا دائرہ اورصفت ہے جس سے مظلومین سے خود کی رودادیں، والدین اور سرپرستوں کی اطلاعات شامل کی جاتی ہیں۔ ان محدود کرنے والی کمیوں کے باوجود، بین الاقوامی مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالغوں کی رودادوں سے جن میں انھوں نے اپنے بچپن میں تجربہ کیے گئے استحصال کا تذکرہ کیا تھا، یہ پتہ کہ ہر پانچ میں سے ایک عورت اور ہر 13 میں سے ایک مرد بچپن میں استحصال کا شکار ہو چکا ہے۔ جذباتی استحصال اور اندیکھی بھی عام بچپن کے تجربے رہ چکے ہیں۔[90]

بمطابق 2014، یہ اندازہ کیا گیا ہے کہ 41,000 بچے ہر سال مردم کشی کے شکار ہوئے۔ عالمی ادارہ صحت کا بیان ہے کہ یہ شماریات بچوں کی مردم کشی کی کافی کم عکاسی کرتے ہیں؛ قابل لحاظ حد تک بچوں کی اموات بد سلوکی کی وجہ سے ہوا کرتی ہیں جنہیں غلط انداز میں غیر متعلقہ عوامل سے جوڑ دیا جاتا ہے جیسے کہ اونچائی سے گرنا، جلنا یا غرقاب ہونا۔ مزید یہ کہ لڑکیاں خاص طور پر جنسی تشدد، استحصال اور مسلح تنازع کے حالات اور پناہ گزین پس منظروں سے متاثر ہونا کا زیادہ امکان رکھتی ہیں، چاہے وہ متحاربین کی جانب سے ہو، صیانتی دستوں کی جانب سے، برادری کے ارکان کی جانب سے، امدادی ملازمین یا دوسروں کی جانب سے ۔[90]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Coghill, D.; Bonnar, S.; Duke, S.; Graham, J.; Seth, S. (2009)۔ Child and Adolescent Psychiatry۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 412۔ ISBN 0-19-923499-X۔ 24 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 مارچ 2016 
  2. Wise, Deborah (2011)۔ "Child Abuse Assessment"۔ $1 میں Hersen, Michel۔ Clinician's Handbook of Child Behavioral Assessment۔ اکیڈیمیک پریس۔ صفحہ: 550۔ ISBN 0-08-049067-0۔ 23 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 مارچ 2016 
  3. ^ ا ب پ Leeb, R.T.، Paulozzi, L.J.، Melanson, C.، Simon, T.R.، Arias, I. (جنوری 2008)۔ Child Maltreatment Surveillance: Uniform Definitions for Public Health and Recommended Data Elements, Version 1.0 (PDF)۔ Atlanta, Georgia: Centers for Disease Control and Prevention, National Center for Injury Prevention and Control۔ 29 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ (PDF) 
  4. ^ ا ب پ McCoy, M.L.، Keen, S.M. (2013)۔ "Introduction"۔ Child Abuse and Neglect (2 ایڈیشن)۔ New York: Psychology Press۔ صفحہ: 3–22۔ ISBN 1-84872-529-9۔ OCLC 863824493۔ 23 February 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 فروری 2016 
  5. ^ ا ب Conley, Amy (2010)۔ "2. Social Development, Social Investment, and Child Welfare"۔ $1 میں Midgley, James، Conley, Amy۔ Social Work and Social Development: Theories and Skills for Developmental Social Work۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 53–55۔ ISBN 0-19-045350-8۔ 24 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مارچ 2016 
  6. Bonnie S. Fisher، Steven P. Lab، مدیران (2010)۔ Encyclopedia of Victimology and Crime Prevention۔ سیج پبلی کیشنز۔ صفحہ: 86–92۔ ISBN 1-4522-6637-9۔ 23 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مارچ 2016 
  7. ^ ا ب "What is Child Abuse and Neglect?"۔ Australian Institute of Family Studies۔ ستمبر 2015۔ 15 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  8. Mehnaz, Aisha (2013)۔ "Child Neglect: Wider Dimensions"۔ $1 میں RN Srivastava، Rajeev Seth، Joan van Niekerk۔ Child Abuse and Neglect: Challenges and Opportunities۔ JP Medical Ltd۔ صفحہ: 101۔ ISBN 9350904497۔ 23 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ Many do not consider neglect a kind of abuse especially in a condition where the parents are involved as it is often considered unintentional and arise from a lack of knowledge or awareness. This may be true in certain circumstances and often it results in insurmountable problem being faced by the parents. 
  9. ^ ا ب E Friedman، SB Billick (جون 2015)۔ "Unintentional child neglect: literature review and observational study."۔ سائیکائیٹریک کوارٹرلی۔ 86 (2): 253–9۔ doi:10.1007/s11126-014-9328-0۔ (تتطلب إشتراكا (معاونت))۔ [T]he issue of child neglect is still not well understood, partially because child neglect does not have a consistent, universally accepted definition. Some researchers consider child neglect and child abuse to be one in the same [sic], while other researchers consider them to be conceptually different. Factors that make child neglect difficult to define include: (1) Cultural differences; motives must be taken into account because parents may believe they are acting in the child's best interests based on cultural beliefs (2) the fact that the effect of child abuse is not always immediately visible; the effects of emotional neglect specifically may not be apparent until later in the child's development, and (3) the large spectrum of actions that fall under the category of child abuse. 
  10. "Child abuse and neglect by parents and other caregivers" (PDF)۔ عالمی ادارہ صحت۔ صفحہ: 3۔ 4 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مارچ 2016 
  11. Herrenkohl RC (2005)۔ "The definition of child maltreatment: from case study to construct"۔ Child Abuse and Neglect۔ 29 (5): 413–24۔ PMID 15970317۔ doi:10.1016/j.chiabu.2005.04.002 
  12. "Definitions of Child Abuse and Neglect in Federal Law"۔ childwelfare.gov۔ Children’s Bureau, Administration for Children and Families, U.S. Department of Health and Human Services۔ 16 مئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 2016 
  13. ^ ا ب پ ت World Health Organization and International Society for Prevention of Child Abuse and Neglect (2006)۔ "1. The nature and consequences of child maltreatment"۔ Preventing child maltreatment: a guide to taking action and generating evidence (PDF)۔ Geneva, Switzerland۔ ISBN 9241594365 
  14. Noh Anh, Helen (1994). "Cultural Diversity and the Definition of Child Abuse", in Barth, R.P. et al., Child Welfare Research Review, Columbia University Press, 1994, p. 28. آئی ایس بی این 0-231-08074-3
  15. ^ ا ب "Corporal Punishment" آرکائیو شدہ 31 اکتوبر 2010 بذریعہ وے بیک مشین International Encyclopedia of the Social Sciences. 2008.
  16. ^ ا ب Joan Durrant، Ron Ensom (4 September 2012)۔ "Physical punishment of children: lessons from 20 years of research"۔ Canadian Medical Association Journal۔ 184 (12): 1373–1377۔ PMC 3447048 ۔ PMID 22311946۔ doi:10.1503/cmaj.101314 
  17. Saunders, Bernadette، Goddard, Chris (2010)۔ Physical Punishment in Childhood: The Rights of the Child۔ Chichester, West Sussex, UK: John Wiley & Sons۔ صفحہ: 2–3۔ ISBN 978-0-470-72706-5 
  18. Pinheiro, Paulo Sérgio (2006)۔ "Violence against children in the home and family" (PDF)۔ World Report on Violence Against Children۔ Geneva, Switzerland: United Nations Secretary-General's Study on Violence Against Children۔ ISBN 92-95057-51-1۔ 11 January 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  19. ^ ا ب پ ت D Theoklitou، N Kabitsis، A Kabitsi (2012)۔ "Physical and emotional abuse of primary school children by teachers"۔ Child Abuse Negl۔ 36 (1): 64–70۔ PMID 22197151۔ doi:10.1016/j.chiabu.2011.05.007 
  20. "Alice Miller – Child Abuse and Mistreatment"۔ 9 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مارچ 2015 
  21. "Archived copy"۔ 10 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2016 
  22. ^ ا ب "Child Sexual Abuse"۔ Medline Plus۔ U.S. National Library of Medicine۔ 2 April 2008۔ 5 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  23. "Guidelines for psychological evaluations in child protection matters. Committee on Professional Practice and Standards, APA Board of Professional Affairs"۔ The American Psychologist۔ 54 (8): 586–93۔ August 1999۔ PMID 10453704۔ doi:10.1037/0003-066X.54.8.586۔ Abuse, sexual (child): generally defined as contacts between a child and an adult or other person significantly older or in a position of power or control over the child, where the child is being used for sexual stimulation of the adult or other person. 
  24. J Martin، J Anderson، S Romans، P Mullen، M O'Shea (1993)۔ "Asking about child sexual abuse: methodological implications of a two stage survey"۔ Child Abuse & Neglect۔ 17 (3): 383–92۔ PMID 8330225۔ doi:10.1016/0145-2134(93)90061-9 
  25. NSPCC۔ "Search"۔ NSPCC۔ 13 فروری 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مارچ 2015 
  26. Patricia Leigh Brown (23 مئی 2011)۔ "In Oakland, Redefining Sex Trade Workers as Abuse Victims"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 26 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2011۔ Once viewed as criminals and dispatched to juvenile centers, where treatment was rare, sexually exploited youths are increasingly seen as victims of child abuse, with a new focus on early intervention and counseling. 
  27. MW Roosa، C Reinholtz، PJ Angelini (1999)۔ "The relation of child sexual abuse and depression in young women: comparisons across four ethnic groups"۔ Journal of Abnormal Child Psychology۔ 27 (1): 65–76۔ PMID 10197407۔ 14 دسمبر 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  28. Levitan R. D.، Rector N. A.، Sheldon T.، Goering P. (2003)۔ "Childhood adversities associated with major depression and/or anxiety disorders in a community sample of Ontario: Issues of co-morbidity and specificity"۔ Depression & Anxiety۔ 17 (1): 34–42۔ PMID 12577276۔ doi:10.1002/da.10077۔ 05 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2018  "آرکائیو کاپی"۔ 05 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2018 
  29. ^ ا ب "Confirmation of Childhood Abuse in Child and Adolescent Case... : The Journal of Nervous and Mental Disease"۔ LWW۔ 10 July 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مارچ 2015 
  30. T. L. Messman-Moore، P. J. Long (2000)۔ "Child Sexual Abuse and Revictimization in the Form of Adult Sexual Abuse, Adult Physical Abuse, and Adult Psychological Maltreatment"۔ Journal of Interpersonal Violence۔ 15 (5): 489–502۔ doi:10.1177/088626000015005003 
  31. G Hornor (2010)۔ "Child sexual abuse: consequences and implications"۔ Journal of Pediatric Health Care۔ 24 (6): 358–364۔ PMID 20971410۔ doi:10.1016/j.pedhc.2009.07.003 
  32. S Dinwiddie، AC Heath، MP Dunne، KK Bucholz، PA Madden، WS Slutske، LJ Bierut، DB Statham، NG Martin (2000)۔ "Early sexual abuse and lifetime psychopathology: a co-twin-control study"۔ Psychological Medicine۔ 30 (1): 41–52۔ PMID 10722174۔ doi:10.1017/S0033291799001373۔ 24 September 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  33. ^ ا ب Clifton P. Thornton، Tener Goodwin Veenema (2015)۔ "Children seeking refuge: A review of the escalating humanitarian crisis of child sexual abuse and HIV/AIDS in Latin America"۔ Journal of the Association of Nurses in AIDS Care۔ 26 (4): 432–442۔ doi:10.1016/j.jana.2015.01.002۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جولا‎ئی 2015 
  34. ^ ا ب Whealin, Julia (23 February 2016)۔ "Child Sexual Abuse"۔ National Center for Post Traumatic Stress Disorder, US Department of Veterans Affairs۔ 8 December 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  35. Finkelhor D (1994)۔ "Current information on the scope and nature of child sexual abuse" (PDF)۔ The Future of Children۔ Princeton University۔ 4 (2): 31–53۔ JSTOR 1602522۔ PMID 7804768۔ doi:10.2307/1602522۔ 13 October 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ (PDF) 
  36. KM Gorey، DR Leslie (اپریل 1997)۔ "The prevalence of child sexual abuse: integrative review adjustment for potential response and measurement biases"۔ Child Abuse & Neglect۔ 21 (4): 391–8۔ PMID 9134267۔ doi:10.1016/S0145-2134(96)00180-9 
  37. David Finkelhor، Richard Ormrod، Mark Chaffin (2009)۔ "Juveniles Who Commit Sex Offenses Against Minors" (PDF)۔ Washington, DC: Office of Juvenile Justice and Delinquency Prevention. Office of Justice Programs, Department of Justice۔ 16 فروری 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2012 
  38. "India's hidden incest آرکائیو شدہ 8 مئی 2013 بذریعہ وے بیک مشین," BBC News, 22 جنوری 1999.
  39. Donald Black۔ DSM-5® Guidebook: The Essential Companion to the Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders, Fifth Edition۔ صفحہ: 423۔ ISBN 978-1-58562-465-2 
  40. John E. B. Myers۔ The APSAC Handbook on Child Maltreatment۔ SAGE Publications Inc۔ صفحہ: 126–130۔ ISBN 978-1-4129-6681-8 
  41. "Child Abuse Laws State-by-State"۔ findLaw۔ 8 October 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2015 
  42. ^ ا ب "Child Abuse"۔ The National Center for Victims of Crime۔ 27 جولا‎ئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2018 
  43. "Childhood Psychological Abuse as Harmful as Sexual or Physical Abuse"۔ The American Psychological Association۔ 8 October 2014۔ 8 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  44. McGill University۔ "Different types of child abuse: Similar consequences"۔ Science News۔ 18 December 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2015 
  45. Jeremy Loudenback۔ "Is Emotional Abuse as Harmful as Physical and Sexual Abuse?"۔ Chronicle of Social Change۔ 22 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2015 
  46. "Chronic Neglect" (PDF)۔ 11 اکتوبر 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2012 
  47. "Child Maltreatment 2010: Summary of Key Findings" (PDF)۔ Children's Bureau, Child Welfare Information Gateway, Protecting Children Strengthening Families۔ 16 ستمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ May 2012 
  48. Fontana VJ (October 1984)۔ "The maltreatment syndrome of children"۔ Pediatric Annals۔ 13 (10): 736–44۔ PMID 6504584 
  49. Young-Bruehl, Elisabeth (2012)۔ Childism: Confronting Prejudice Against Children۔ New Haven, Connecticut: Yale University Press۔ ISBN 978-0-300-17311-6 
  50. Freeman, Michael (1997)۔ "Beyond conventions—towards empowerment"۔ The Moral Status of Children: Essays on the Rights of the Child۔ Netherlands: Martinus Nijhoff Publishers۔ صفحہ: 76۔ ISBN 9041103775۔ 13 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  51. ^ ا ب S. Ross (1996)۔ "Risk of physical abuse to children of spouse abusing parents"۔ Child Abuse & Neglect۔ 20 (7): 589–598۔ doi:10.1016/0145-2134(96)00046-4 
  52. Twentyman CT, Plotkin RC (1982)۔ "Unrealistic expectations of parents who maltreat their children: an educational deficit that pertains to child development"۔ J Clin Psychol۔ 38 (3): 497–503۔ PMID 7107912۔ doi:10.1002/1097-4679(198207)38:3<497::aid-jclp2270380306>3.0.co;2-x 
  53. Durrant, Joan (March 2008)۔ "Physical Punishment, Culture, and Rights: Current Issues for Professionals"۔ Journal of Developmental & Behavioral Pediatrics۔ 29 (1): 55–66۔ PMID 18300726۔ doi:10.1097/DBP.0b013e318135448a۔ 5 فروری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  54. Gershoff, Elizabeth T. (Spring 2010)۔ "More Harm Than Good: A Summary of Scientific Research on the Intended and Unintended Effects of Corporal Punishment on Children"۔ Law & Contemporary Problems۔ Duke University School of Law۔ 73 (2): 31–56۔ 20 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  55. Haeuser, A. A. (1990)۔ "Banning parental use of physical punishment: Success in Sweden"۔ International Congress on Child Abuse and Neglect۔ Hamburg[صفحہ درکار] 
  56. Richard Barth (1994)۔ Child Welfare Research Review, Volume 1۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 49–50۔ ISBN 0-231-08075-1۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2012 
  57. Joan E. Durrant (1996)۔ "The Swedish Ban on Corporal Punishment: Its History and Effects"۔ $1 میں Detlev Frehsee، Wiebke Horn، Kai-D. Bussmann۔ From Family Violence Against Children: A Challenge for Society۔ New York: Walter de Gruyter & Co.۔ صفحہ: 19–25۔ ISBN 978-3-11-014996-8۔ 13 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  58. Lesa Bethea (1999)۔ "Primary Prevention of Child Abuse"۔ American Family Physician۔ 28 December 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  59. ^ ا ب پ ت Eisenberg, Leon، Brown, Sarah Hart (1995)۔ The Best Intentions: Unintended Pregnancy and the Well-Being of Children and Families۔ Washington, D.C.: National Academy Press۔ صفحہ: 73–74۔ ISBN 0-309-05230-0 
  60. Hathaway J.E.، Mucci L.A.، Silverman J.G.، وغیرہ (2000)۔ "Health status and health care use of Massachusetts women reporting partner abuse"۔ Am J Prev Med۔ 19 (4): 302–307۔ doi:10.1016/s0749-3797(00)00236-1 
  61. ^ ا ب پ "Family Planning – Healthy People 2020"۔ 28 دسمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2011۔ Which cites: * Logan, C.، Holcombe, E.، Manlove J.، وغیرہ (May 2007)۔ "The consequences of unintended childbearing: A white paper" (PDF)۔ Washington, D.C.: Child Trends  * Cheng D.، Schwarz, E.، Douglas, E.، وغیرہ (March 2009)۔ "Unintended pregnancy and associated maternal preconception, prenatal and postpartum behaviors"۔ Contraception۔ 79 (3): 194–198۔ PMID 19185672۔ doi:10.1016/j.contraception.2008.09.009  * Kost K, Landry DJ, Darroch JE (1998)۔ "Predicting maternal behaviors during pregnancy: does intention status matter?"۔ Fam Plann Perspect۔ 30 (2): 79–88۔ JSTOR 2991664۔ PMID 9561873۔ doi:10.2307/2991664  * D'Angelo DV, Gilbert BC, Rochat RW, Santelli JS, Herold JM (2004)۔ "Differences between mistimed and unwanted pregnancies among women who have live births"۔ Perspect Sex Reprod Health۔ 36 (5): 192–7۔ PMID 15519961۔ doi:10.1363/3619204  
  62. Jones, L, Bellis, MA, Wood, S وغیرہ (8 September 2012)۔ "Prevalence and risk of violence against children with disabilities: a systematic review and meta-analysis of observational studies"۔ The Lancet۔ 380 (9845): 899–907۔ PMID 22795511۔ doi:10.1016/S0140-6736(12)60692-8 
  63. Shumba, A.، Abosi, O.C. (2011)۔ "The Nature, Extent and Causes of Abuse of Children with Disabilities in Schools in Botswana"۔ International Journal of Disability, Development & Education۔ 58 (4): 373–388۔ doi:10.1080/1034912X.2011.626664 
  64. Murphy JM, Jellinek M, Quinn D, Smith G, Poitrast FG, Goshko M (1991)۔ "Substance abuse and serious child mistreatment: prevalence, risk, and outcome in a court sample"۔ Child Abuse & Neglect۔ 15 (3): 197–211۔ PMID 2043972۔ doi:10.1016/0145-2134(91)90065-L 
  65. Famularo R, Kinscherff R, Fenton T (1992)۔ "Parental substance abuse and the nature of child maltreatment"۔ Child Abuse & Neglect۔ 16 (4): 475–83۔ PMID 1393711۔ doi:10.1016/0145-2134(92)90064-X 
  66. Kathleen Burlew (4 نومبر 2013)۔ "Parenting and problem behaviors in children of substance abusing parents"۔ Children and Adolescence Mental Health: n/a۔ doi:10.1111/camh.12001۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2015  [مردہ ربط]
  67. Peter Garsden (June 2009)۔ "Does child abuse cause crime?"۔ insidetime۔ 29 دسمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  68. "Child Abuse"۔ Florida Performs۔ 13 January 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  69. Hughes, Sandra (20 May 2009)۔ "Child Abuse Spikes During Recession"۔ CBS News۔ 19 ستمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  70. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج Sebre S, Sprugevica I, Novotni A, Bonevski D, Pakalniskiene V, Popescu D, Turchina T, Friedrich W, Lewis O (2004)۔ "Cross-cultural comparisons of child-reported emotional and physical abuse: Rates, risk factors and psychosocial symptoms"۔ Child Abuse & Neglect, the International Journal۔ 28 (1): 113–127۔ PMID 15019442۔ doi:10.1016/j.chiabu.2003.06.004 
  71. Sebre S, Sprugevica I, Novotni A, Bonevski D, Pakalniskiene V, Popescu D, Turchina T, Friedrich W, Lewis O (2004)۔ "Cross-cultural comparisons of child-reported emotional and physical abuse: Rates, risk factors and psychosocial symptoms"۔ Child Abuse & Neglect, the International Journal۔ 28 (1): 113–127۔ PMID 15019442۔ doi:10.1016/j.chiabu.2003.06.004 
  72. ^ ا ب پ Lau, A. S., Takeuchi, D. T., & Alegría, M. (2006). Parent-to-child aggression among Asian American parents: Culture, context, and vulnerability. Journal of Marriage and Family, 68(5), 1261–1275. Retrieved
  73. Dowden, Richard (12 فروری 2006). "Thousands of child 'witches' turned on to the streets to starve" آرکائیو شدہ 15 نومبر 2016 بذریعہ وے بیک مشین. دی ابزرور (London).
  74. Byrne, Carrie (16 June 2011). "Hunting the vulnerable: Witchcraft and the law in Malawi" آرکائیو شدہ 29 مارچ 2012 بذریعہ وے بیک مشین. Consultancy Africa Intelligence.
  75. "Abuse of child 'witches' on rise, aid group says" آرکائیو شدہ 6 نومبر 2012 بذریعہ وے بیک مشین. CNN. 18 مئی 2009.
  76. YTN (2016-03-16)۔ "지난해 아동학대 17% 증가...가해자 75% 친부모"۔ 5 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  77. C. W. Christian (27 اپریل 2015)۔ "The Evaluation of Suspected Child Physical Abuse"۔ Pediatrics۔ 135 (5): e1337–e1354۔ doi:10.1542/peds.2015-0356 
  78. Wilson, S.F.W, Giddens, J.F.G. (2009) Health Assessment for Nursing Practice. St.Louis: Mosby Elsevier, page 506.
  79. Williams, M. (2015) Evidence based decisions in child neglect: An evaluation of an exploratory approach to assessment using the North Carolina Family Assessment Scale آرکائیو شدہ 22 نومبر 2015 بذریعہ وے بیک مشین, London, NSPCC.
  80. "Child Abuse Symptoms, Causes, Treatment – How can child abuse be prevented? on MedicineNet"۔ Medicinenet.com۔ 21 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2012 
  81. "Pediatrician Training and In-Office Support Significantly Reduce Instances of Child Maltreatment"۔ Agency for Healthcare Research and Quality۔ 22 May 2013۔ 13 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2013 
  82. "Child Abuse Experts Provide Videoconference-Enabled Consultations to Providers in Remote Emergency Departments and Clinics, Leading to More Accurate Diagnosis"۔ Agency for Healthcare Research and Quality۔ 26 مارچ 2014۔ 13 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2014 
  83. Baumrind (1993). Optimal Caregiving and Child Abuse: Continuities and Discontinuities. National Academy of Sciences Study Panel on Child Abuse and Neglect.. Washington, DC: National Academy Press. 
  84. Cron T (1986). "The Surgeon General's Workshop on Violence and Public Health: Review of the recommendations.". Public Health Rep. 101: 8–14. 
  85. Child Welfare Information Gateway آرکائیو شدہ 28 اگست 2010 بذریعہ وے بیک مشین, History of National Child Abuse Prevention Month. 3 April 2009.
  86. Presidential Proclamation Marking National Child Abuse Prevention Month آرکائیو شدہ 31 اگست 2009 بذریعہ وے بیک مشین. The White House – Press Room, 1 اپریل 2009.
  87. U.S. Administration for Children and Families آرکائیو شدہ 30 اگست 2009 بذریعہ وے بیک مشین. Department of Health and Human Services. Children's Bureau.
  88. Hosin, A.A.، مدیر (2007)۔ Responses to traumatized children۔ Basingstoke: Palgrave Macmillan۔ صفحہ: 211۔ ISBN 1-4039-9680-6 
  89. Briere, John (1992)۔ Child abuse trauma۔ Sage۔ صفحہ: 7۔ ISBN 0-8039-3713-X 
  90. ^ ا ب "Child maltreatment: Fact sheet No. 150"۔ World Health Organization۔ دسمبر 2014۔ 17 جولائی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ 

مزید مطالعات

ترمیم

خارجی روابط

ترمیم

سانچہ:EB1911 Poster