پاکستان کا قدیم حجری دور
پاکستان میں حجری دور تقریباً چھ لاکھ سال قبل شروع ہوتا ہے۔ یہ سارا کا سارا دور انتہائی نذدیکی زمانہ ( پلیٹسوسین ) زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ علم آثار کے مطابق انسانی ڈھانچوں کی باقیات اور اس کے بنائے ہوئے جو بھی اوزار انتہائی نذیکی زمانے کے دفینوں سے ملے ہیں۔ انھیں قدیم حجری دور میں شمار کیا جانا چاہیے ۔
یہ سارا دور زبر دست موسمی تبدیلیوں کا دور تھا۔ بار بار کرہ ارض کے اکثر و بیشتر حصوں پر برف کی چادر چھا جاتی اور زندگی کا تسلسل انتہائی مشکل ہوجاتا۔ پھر برف پگھلتی سیلاب آتے اور پھر نسبتاً سکون کے دن آتے اس کے بعد پھر برف کی چادر چھا جاتی۔ اس سارے زمانے میں چار برفانی اور تین مابین برفانی دور تسلیم کیے گئے ہیں۔ برفانی ادوار میں قطب شمالی سے لے کر مشرق میں ہمالیہ اور مغرب میں برطانیہ تک ایک برف کی چادر بچھ جاتی تھی اور جہاں جہاں خالی زمین بچتی تھی اس میں انسانی زندگی بہت مشکل ہوجاتی تھی۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں ایک طرف انسان کی مشکلات میں اضافہ بھی ایک زبر دست ذریعہ بھی بن گئیں اور دوسری طرف انسانوں کو مختلف علاقوں میں اس کی محصوری انسان کی متفرق نسلوں کو جنم دینے کا باعث بنی ۔
زمانی اعتبار کی طرح مکانی اعتبار سے بھی قدیم حجری دور کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ جنوبی ہندوستان، جنوبی انگلستان، ہرجگہ ایک جیسے طریقہ ہائے مصنوعات ایک ہی وقت میں ملتے ہیں۔ گویا بیک وقت دنیا کے طول و عرض میں انسانی کی کار گزاری ایک ہی رفتار سے ترقی کر رہی تھی۔ سارے حجری دور کے دوران دنیا بھر میں انسان کی بقا کا دارو مدار شکار کرنے اور خوراک ڈھونے پر تھا۔ انسانی گروہوں میں بٹا ہوا تھا، سرگرم سفر تھا اور مسقل آبادیوں کا وجود نہیں تھا۔ پاکستان میں اس سے استثنائ نہ تھا ۔
ہمالیہ کی نچلی ڈھلوانوں، کشمیر، شمالی علاقہ جات اور پنجاب میں موسمیاتی ارتقائ یورپ کی طرف ہوا ہے۔ پاکستان کے اس حصے میں انتہائی نذدیکی زمانہ وقفہ وقفہ سے برف باریوں کا زمانہ تھا۔ برف کے حوالے سے یورپ کے بھی چار زمانے متعین کیے جاتے ہیں اور شمالی پاکستان کے سندھ اور جنوبی ہندوستان میں البتہ برف بندی نہیں ہوئی۔ وہاں برف کے بالمقابل چار برساتوں کے زمانے گذرے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو قدیم پاکستان کے شمالی اور جنوبی حصوں میں موسموں کا بہت تفادت رہا ہے ۔
کشمیر اور پنجاب میں ارضیاتی ذخیرے کے مطالعے سے اس علاقے کے برفانی ادوار کا سراغ لگایا گیا ہے۔ راولپنڈی میں دریاؤں کی وادیوں کی ساخت کا مطالعہ بھی اس سلسلے میں مدد گار ہے۔ راولپنڈی اور اٹک کے درمیانی علاقے میں گلیشیر کا لایا ہوا ملبہ بھیلا ہوا ہے اور اس میں جگہ جگہ دریاؤں نے کاٹ چھانٹ کر کے اونچے نیچے زینے بنادیے ہیں۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے شواہد کے مطالع سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے اس پوٹھوہار کے علاقے میں پانچ برفانی دور گذرے ہیں۔ جن کے درمیان چار مابین برفانی دور گذرے ہیں، انھیں مابین برفانی ادوار میں انسانی زندگی پوٹھوہار اور وادی سون میں ترقی کرتی رہی ہوگی۔ انسان کی افرادی قوت میں اضافہ ہوتا رہا ہوگا اور برف بندیوں کے زمانے میں اس کے برعکس عمل ہوتا ہوگا ،
پاکستان کا قدیم ترین انسان جو قدیم حجری دور سے تعلق رکھتا ہے، اسی علاقے میں رہتا تھا۔ اس انسان کی رہائش کے بے شمار ثبوت ہمیں اس کے ہاتھوں کے بنے ہوئے پتھروں کے اوزاروں کی شکل میں ملے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے ابھی تک اس دور کے کسی انسان کا جسمانی ڈھانچہ یا اس کا کوئی حصہ دستیاب نہیں ہوا ہے۔ جس سے اس کی زندگی کی تفصیلی تصویر بنائی جاسکے۔ ویلز کا کہنا ہے کہ انڈیا پاکستان میں قدیم حجری دور میں انسان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا مشکل ہے۔ لیکن اس کے بنائے ہوئے اوزار اور اس کے پیداوار کے ذرائع کی کثیر تعداد دستیاب ہونے کے سبب ہم اس کی زندگی کے بارے میں کچھ نہ کچھ قابل اعتماد اندازے ضرور لگا سکتے ہٰیں ۔
پاکستان کے قدیم حجری دور میں جو برفانی مرحلے آئے ہیں، صرف پہلے کو چھوڑ کر باقی تمام یوپ کے برفانی ادوار کے ہم زمانہ ہیں اور آخری برف بندی یوپ کے تین شدید ترین ادوار کے برابر ہے۔ اس طرح قدیم پاکستان قدیم یورپ کی نسبت کہیں زیادہ برف زدہ تھا۔ بہر حال یورپ، پاکستان اور بھارت میں جتنے بھی حجری اوزار ملے ہیں اکثر و بشتر دریاؤں کے قریبی میدانوں میں ملے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دریاؤں کے قریب اونچی خشک جگہوں پر رہتا تھا۔ گو کہ یہ تصور مشکل ہے کہ وہ پناہ گاہیں مستقل رہائش رکھتا تھا۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ دن بھر کی آوارہ خرامی کے بعد رات کو دریا کے کنارے درختوں پر یا دیگر اونچے ٹھکانوں پر قیام کرتا ہوگا۔ پھر اگلی صبح اس جگہ کو خیر باد کہا اور آگے چل دیا۔ البتہ اس کا سارا سفر دریاؤں کے قریب قریب رہتا ہوگا۔ کم از کم اس کا عارضی بسرا دریاؤں کے قریب ہی ہوتا ہوگا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے خود اسے پانی کی ضرورت تھی، دوسرے وہ شکار پر گذر بسر کرتا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کسی ایسی جگہ کے ارد گرد گھوما جائے جہاں جانور بار بار آتے ہوں۔ جگہ سوائے دریا کے کوئی اور نہیں ہو سکتی تھی، جہاں جانور پانی پینے کے لیے آتے تھے ۔
ان قدیم دریاؤں کے کنارے جو پتھر کے اوزار ملے ہیں ان کی ساخت پر وقت گزرنے اور موسمی تبدیلیوں کے مطابق تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ پاکستان کے مختلف وقتوں کے اوزار یورپ یا دنیا کے دیگر علاقوں کے انہی ادوار کے اوزاروں سے ملتے جلتے ہیں ۔
عمومی خصوصیت
ترمیمقدیم حجری دور کے انسان کی عمومی خصوصیات میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ اس دور میں انسان قدیم انسانی شکل سے جدید انسانی شکل میں داخل ہو چکا تھا۔ یہ انسان گرہوں کی صورت میں آپس میں مل جل کر رہتا تھا۔ اندگی گزارنے کے لیے پتھر کے اوزار بناتا تھا۔ خوراک فطرت سے جمع کرتا تھا، چاہے وہ نباتات سے ہو یا حیوانات سے۔ خوراک پیدا کرنے کے مرحلے میں داخل نہ ہوا تھا۔ زراعت سے نا آشنا تھا۔ جانوروں کو سدھا نہ سکا تھا۔ سماجی نظام اونچ و نیچ یا حاکم محکوم کے تصورات سے ناآشنا تھا۔ جانوروں کو سدھا نہ سکا تھا۔ یہ قدیم اشتراکی سماج تھا۔ مذہب کا وجود نہ تھا۔ ابھی جادو کے رجحانات بھی ظاہر نہ ہوئے تھے ۔
ماخذ
یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور