پراچہ
پراچہ، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے وسطی اضلاع میں پراچہ کی اصطلاح کسی چھوٹے مسلمان تاجر کے لیے استعمال ہوتی ہے تجا رتی ذات کے طور پر پراچہ کبھی کبھی پراچہ کھوجا یا کھوجا پراچہ بھی کہلاتا ہے درحقیقت پراچہ اور کھوجا مترادف الفاظ ہیں۔[1]
پراچہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب سندھ دہلی ایران یمن وغیرہ کی ذات ہے۔پراچہ دراصل حوادث زمانہ کی بنا پر فراش، فراشا سے پراچہ بن گیا ہے۔پراچہ قوم کی اصل بعض اقوال کے مطابق اہل عرب میں سے یمن کے ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کے ذمہ آپ کے فراش وغیرہ کی ذمہ داری تھی سے منسلک ہے فراش ہی اس لفظ پراچہ کی اصل ہے یہ فراش ان کی اولاد کے سر نیم کا جزو رہا اور یہ فراش فارس وایران میں پہنچ کر فراشا پہر پاک و ہند میں پرائچہ پراچہ بن گیا اس وقت یہ قوم دنیا کے کئی ممالک میں آباد ہے اسی قوم کے ایک بزرگ حاجی پراچہ رحمہ اللہ نے دین الٰہی کیخلاف بغاوت کی پہر تختہ دار کی سزا پائی اسقوم کے اکثر افراد تجارت پیشہ رہیں ہیں اور کپڑے کی تجارت میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اس کی بیشمار گوتیں ہیں جن میں سے ایک گوت بانات والے بھی ہیں بانات والوں کی اصل حاجی عبد السلام پراچہ بانات والے دہلوی کے جد امجد ہیں بانات ایک قسم کے کپڑے کا نام ہے جو گھوڑوں کی زین کے نیچے بچھایا جاتا تھا اور یہ افراد اسی کی تجارت پیشہ ورانہ زندگی گزارتے تھے اس بنا پر بانات والے کہلاتے ہیں حاجی صاحب کے صاحب زادے عبد الغفار بانات والے دہلوی کی دہلی اور آگرہ کے مضافات میں دہنیا کے باغات تھے تقسیم ہند کے وقت عبد الغفار بانات والے کی تقریبا تمام اولاد لاہور اور کراچی ہجرت کر آئے اب بانات والے دہلی آگرہ کراچی لاہور سعودیہ عرب وغیرہ میں تجارت و ملازمت کے شعبہ سے وابستہ ہیں یہ تمام افراد خصوصاً پاکستانی و سعودی بانات والے کٹر حنفی مسلک ہیں انمیں اکثر نوجوان حفاظ کرام ہیں اور کچھ علم دین کا شغف بھی رکھتے ہیں ان افراد میں دینی حمیت تبلیغ دین مدارسِ عربیہ و علما امت سے محبت تحفظ ختم نبوت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اسی گوت کی ایک عظیم الشان شخصیت ہمارے ممدوح خادم العلماء والصلحاء الحاج مستقیم احمد پراچہ صاحب رحمہ اللّٰہ بھی ہیں آپ نے 1991ء میں امام المجاھدین حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئ شہید نور اللہ مرقدہ کی سرپرستی میں ہفت روزہ دروس قرآن مجید کا سلسلہ شروع کیا جو 1996ء تک موراسٹریٹ ابراہیم بلڈنگ کے نیچے ہوتا رہا جس میں اپنے وقت کے کبار علما ومشائخ تشریف لاتے رہے اسی جگہ پر ہر سال سالانہ جلسہ بھی منعقد ہوتا تھا اس کے بعد یہ درس دکھنی جامع مسجد پاکستان چوک میں منتقل ہوا انتظامیہ کی اجازت کے بعد جو تاحال ہر ہفتہ اور منگل کو بعد نماز عشاء منعقد ہوتا ہے الحمد للہ اس کے 2014ء سے سالانہ عظیم الشان بین الاقوامی عالمی محفل حسن قرأت کا سلسلہ شروع کیا جو وقوف کے ساتھ جاری ہے اسطیرح ایک بنات کے مدرسہ کی گلاب محل غوری جنرل سٹور کے سامنے بنیاد رکھی جس کا اہتمام اس وقت آپ ہی کی اہلیہ کے سپرد ہے درس قرآن و دیگر محافل دینیہ کے لیے آپ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کو دکھنی جامع مسجد درس کمیٹی کے نام سے معنون کیا آپ بلا تفریق جماعت اکابرین امت کی خدمت کو سعادت گردانتے تھے آپ کے متعلقین میں کراچی کے تمام جامعات و تمام مذہبی جماعتوں کے نمائندگان رہے اور سب ان کو ہمیشہ اپنا ہی گردانتے تھے اللہ پروردگار عالم ہمیں ان کے اس عمل پر ہمشیہ تاقیامت جاری رکھے آپ اپنی ذات میں کندن تھے آپ کی تربیت جن لوگوں نے کی ان کو دنیا شہداء اسلام کے نام سے گردانتی ہے اللہ پروردگار عالم ہم سب کو خدمت قرآن مجید کے لیے قبول فرمائے
حوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر پراچہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا، ایچ ڈی میکلگن/ایچ اے روز(مترجم یاسر جواد)، صفحہ 111،بک ہوم لاہور پاکستان