پینگ برصغیر پاک و ہند میں بچوں کا کھیل ہوا کرتا تھا۔ یہ ایسا کھیل ہے جو صرف گرمیوں میں کھیلا جاتا ہے۔ اسے لڑکیاں بہت شوق سے کھیلتی ہیں۔ ایک ماہر بڑھئی سے پینگ تیار کروانے کے بعد اسے کسی گھر میں موجود سایہ دار درخت کے نیچے نصب کر دیا جاتا ہے۔ دوپہر کے وقت لڑکیاں اور خواتین اس پر بیٹھتی ہیں اور جھولا لیتی ہیں۔ برگد کا درخت چونکہ سب سے گھنا اور چھاؤں والا ہوتا ہے اس لیے گاؤں میں برگد کا درخت اسی لیے مشہور ہوتا کیونکہ اس پر خواتین اور لڑکیاں جھولا جھولتی تھی۔ نازیہ حسن کا گانا بھی اسی روایت کی عکاسی کرتا تھا جس میں پینگ پر بیٹھ کر وہ یہ گانا گاتی ہیں کہ

ٹالی دے تھلے بیھ کے وے ماہیا وے ماہیا، کریے پیار دیاں گلاں