پینے کا پانی
پینے کا پانی (انگریزی: Drinking water) اس پانی کو کہا جاتا ہے جسے صحت مند انداز میں پینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سمندر کا پانی اور مختلف آلودگیوں یا مٹی اور بیت الخلاء کی آمیزش والا پانی انسانی استعمال کے لیے مضر ہے۔
بھارت کی صورت حال
ترمیمخمینہ ہے کہ ہندوستان میں ہر سال پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سبب تقریباً 600 ملین ا مریکی ڈالر کا معاشی بوجھ بڑھتا ہے۔ یہ صورت حال خصوصاً خشک سالی اور سیلاب زدہ علاقوں میں زیادہ ہے جس سے ملک کا ایک تہائی حصہ ہر سال متاثر رہتا ہے۔ ہندوستان کی 50 فیصد سے بھی کم آبادی کو ہی صاف و شفاف پینے کے پانی تک رسائی ہوپاتی ہے۔ تقریباً 20 لاکھ رہائشی علاقوں میں فلوریڈا اور آرسینک کی شکل میں پانی میں کیمیکل آلودگی موجود ہوتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیںکہ حد سے زیادہ فلوریڈا ہندوستان کی 19 ریاستوں کے کروڑوں لوگوں کو متاثر کر رہا ہے، اسی طرح حد سے زیادہ آرسینک مغربی بنگال کے لاکھوں لوگوں کو تشویش ناک حد تک متاثر کر رہا ہے۔ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سبب ہندوستان میں ہر سال صرف ڈائریا سے تقریباً 15 ملین سے زائد بچوں کی موت ہو جاتی ہے اور اس طرح ہر سال اس بیماری کے سبب 73 ملین کام کے دنوں کا نقصان ہو تا ہے۔ پانی میں کیمیائی آلودگی کا مسئلہ بھی عام ہے اور کیمیائی آلودگی کی سب بڑی وجہ فلوریڈا اور آرسینک ہے۔ کئی علاقوں میں آئرن بھی ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے اور خاص طور پر دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لیے ملک کی آزادی کے فوراً بعد سے ہی حکومت کی جانب سے مختلف پروگرام چلائے جا رہے ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی دستیابی کے لیے دسویں منصوبہ تک تخمیناً 1,105 بلین روپے خرچ کیے گئے لیکن اتنے خرچ کے باوجود صاف و شفاف پانی کی قلت کا مسئلہ اب بھی ختم نہیں ہو سکا ہے اور یہ مسئلہ آج بھی قومی اقتصادی بوجھ بنا ہوا ہے۔[1]
پاکستان کی صورت حال
ترمیمپاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک کے 29 بڑے شہروں کا پانی پینے کے لیے غیر محفوظ ہے۔ ملک میں پینے کے پانی کے تمام ذرائع کا اوسطاً 61 فیصد پانی جراثیم سے آلودہ ہو چکا ہے۔ صوبی سندھ کے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے نام پر بسائے گئے شہر بے نظیرآباد سمیت میرپور خاص اور گلگت کا سو فیصد پانی جراثیم سے آلودہ اور پینے کے قابل نہیں جبکہ ملتان کا 94 فیصد، کراچی کا 93 فیصد، بدین کا 92 فیصد، حیدرآباد کا 80 فیصد اور اور بہاولپور کا 76 فیصد پانی پینے کے لیے محفوظ نہیں ہے۔[2]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 17 مارچ 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2022
- ↑ https://www.urdunews.com/node/636406