چلاس جو ایک شہر کا نام ہے قدیم زمانے میں پورے ضع کا نام تھا۔ ایک چٹان پر چھٹی صدی عیسوی میں اس کا نام ’ شیلا واتا ‘ ملا ہے۔ جس کے سنسکرت میں معنی چٹانوں کا علاقہ کے ہیں۔ یہ دریائے سندھ کے ساتھ آباد ہے۔ دریائے سندھ میں ہاں چھوٹے ندی نالوں کے ساتھ حجری انسان کے آثار ملے ہیں۔ یہ جتنی بھی کندہ کاری کی گئی ہے، پتھر کے بڑے بڑے تودوں پر کی گئی ہے ۔

یہ آثار تقریباً بیس تصویروں کی شکل میں وسطی حجری انسان کے ہیں۔ جب کہ بعد کے دور کی ڈیڑھ سو سے زائد تصویریں ہیں۔ وہ پتھر کے بڑے بڑے تودوں پر کی گئی ہے۔ یہ قوی ہیکل تودے اکثر و بیشتر اپنے مخصوص ماحول میں پائے مخصوص ماحول میں پائے گئے ہیں۔ مثلاً ایسی جگہ رکھے گئے ہیں کہ جہاں ایک دائرے میں سنگریزے جمع کیے گئے ہیں اور ان کے اوپر یا برابر میں اس تودے کو جمادیا گیا ہے یا قدرتی طور پر طور پر وہاں ہے۔ بعض جگہ یہ چجا سا بنا ہے۔ جس کے نیچے پناہ لی جا سکتی ہے۔ ڈاکڑ دانی کا خیال ہے کہ یا تو یہ قبریں تھیں اور اس کے نیچے مردے دفن کیے جاتے تھے یا کم از کم ان چجوں کی آڑ میں مردوں کو کھلا رکھ دیے جاتے ہوں گے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ یہاں عارضی قیام کرتے ہوں گے۔ تاہم جب تک یہاں کھدائیاں نہیں ہوتی ہے اور کوئی ثبوت ملنے پر حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ہے ۔

وسطی حجری دور کی تصویریں ایک ہی ٹیکنک یعنی بڑی کہری کھڈی ہوئی ہوئی ہیں اور مرور ایام سے ان پر سیاہی چڑھ چکی ہے یا ان پر سبز کائی جم چکی ہے۔ بعد کی تصوریروں کی کندہ تصوریں ایادہ موٹی لکیرں ہیں ۔

قبل از تاریخ میں وسطی حجری انسان کی بنائی ہوئی یہ تصویریں جو اس نے کسی نوک دار اوزار سے بنائی ہیں۔ یہ ایک طرف حقیقت پسندانہ اور مشاہدے کی گہرائی کو ثابت کرتی ہیں اور دوسری طر ان میں تخیل کی رنگ آمیزی بھی نظر آتی ہیں۔ بشتر تصویروں دو مضوعات جانور اور انسان پر ہیں۔ بشتر تصویروں میں شکار کو موضع بنایا گیا ہے۔ اس کے سماجی زندگی کی بھی ترجمانی کی گئی ہے۔ جانوروں کی تصویریں زیادہ حقیقت پسندانہ ہیں اور ان کو کسی نہ کسی حرکت کی حالت میں دیکھایا گیا ہے۔ البتہ انسانی شکلیں صرف خاکہ کی حد تک ہیں اور زیادہ پھرپور تاثر پیدا نہں کرسکیں۔ چوں کہ اکثر و بشتر تصویروں کا موضع شکار ہے اور ان تصویروں میں کہیں بھی زراعت کی نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا بیشتر ذریعہ معاش شکار تھا ۔

یہاں انسان کے بنائی ہوئے اوزار کے علاوہ کوئی اور چیز دستیاب نہیں ہوئی ہے۔ اس طرح پورے علاقے میں کسی غار سے انسان کی رہائش کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔ ڈی ڈی کوسامی کا خیال ہے برصغیر میں قبل از تاریخ میں انسانوں نے غاروں کو رہائش کے لیے یورپ کی نسبتاً کم اہمیت ہے۔ چلاس کا وسطی حجری دور کا انسان پہاڑی جنگل میں کھلا پھرتا تھا اور دریائے سندھ اور دیگر ندی نالوں کے کنارے جانوروں کا شکار کرتا تھا۔ بہر حال یہ یقنی ہے ہو پہاڑی شگافوں اور چٹانوں کے نیچے پناہ ضرور لیتا ہوگا۔ کیوں کہ اس قسم کی رہائش کی ثبوت ملے ہیں۔ اس طرح کی رہائش گاہوں سے مختلف قسم کے حجری اوزار ملے ہیں۔ ان میں کچھ سوئے، چاقو اور اسی قسم کی چیزیں شامل ہیں۔ کچھ عمودی کھرچنیاں بھی ملی ہیں۔ کچھ بڑے ٹکڑے بھی ملے ہیں۔ لیکن باقیدہ قسم کے تیر کے پھل کہیں نہیں ملے ہیں۔ ڈاکٹر دانی کا خیال ہے یہ درمیانی حجری دور کے اوزار ہیں اور ان کا زمانہ500 ق م تا 3000 ق م ہے ۔

تصویروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے کتے اور بھیڑوں کو پالتو بنالیا تھا۔ یہ عام طور پر آخری دور سے وابستہ کہا جاتا ہے۔ لیکن چلاس کے لوگ جدید حجری دور سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ وسطہ حجری دور سے ان کا تعلق تھا۔ اس طرح ایک تصویر میں ایک کوہان والے بیل کی تصویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے تعلقات وادی سندھ کے لوگوں سے بھی تھے۔ کیوں کہ یہ جانور پہاڑی نہیں ہے۔ ان انسانوں کی مرغوب غذا بکری اور مار خور کا گوشت تھا۔ کیوں کہ ان دونوں جانوروں کی تصویر اکھٹی ملی ہیں۔ مار خور کے سینگ ماضی قریب میں ان کی قبروں پر رکھے جاتے تھے ۔

تصویرں میں ملنے والے جانورں میں قدیم پہاڑی بکریاں، بارہ سنگھا، بھیڑ، لومڑی، عقاب بھی پر پھیلائے ہوئے اور چکور بھی ہیں۔ یہ جانوروں کی تصویریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ سطی حجری انسان یہاں طویل عرصہ تک رہا ہے۔ اس کی گذر بسر شکار پر تھی اور درختوں اور خوراک کے دوسرے ذرائع کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ مگر کوسامبی کا کہنا ہے اس دور کے انسان اپنے غلہ اور پھل جمع کرنے کے لیے جانوروں کی کھال استعمال کرتے تھے۔ جو زیادہ عرصہ محفوط نہیں رہتی ہیں۔ اس لیے اس قسم کا ثبوت ملنا محال ہے۔ چلاس کی تصویروں میں ہاتھ اور پیروں کے خاکے بھی ملے ہیں۔ انسانوں کے اکثر خاکے ملے ہیں لیکن بعض جگہ پورے انسان کی شبہی بنائی گئیں ہیں۔ ان نصویروں میں اکثر جگہ ان کی جنس واضح نہیں ہے اور اکثر کسی کام میں مصروف دیکھائے گئے ہیں۔ یہ زیادہ تر شکار کی تصوریں ہیں جس میں تنہا اور اجتماعی طور پر شکار کرتے ہوئے دیکھایا گیا۔ ایک جگہ لوگوں کو دائرے میں دیکھایا گیا ہے۔ یہ غالباً رقص کر رہے ہیں۔ اس سے خاندان وجود میں نہیں آیا تو پھر بھی اجتماعیت کا تصور پیدا ہو چکا تھا۔ کئی تصویروں میں تے تھے ۔

وسطحی انسان نے اسلحہ کی تصویریرں بنائی ہیں ان میں تیر کمان مرکزی حثیت رکھتا ہے۔ تیر اکثر چھلے پر چڑھا ہوا ہے۔ تیر کا پھل پتھر کا بنا ہوا دیکھایا گیا ہے اور یہ چپٹا اور نوکدار ہے۔ ظاہر ہے شکار ان کا واحد ذریعہ معاش تھا تو اس میں مرکزی کردار تیر کمان کا ہی ہو سکتا ہے تھا۔ جو کھرچنیاں ملی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں کی باقیدہ کھال اتاری جاتی تھی اور لوگ کھال کو تن دھانپنے کے بطور تہمد یا دھوتی استعمال کرتے تھے۔ انسانوں کی تصویروں میں اکثر ٹانگوں کے درمیان دم لٹکٹی نظر آتی ہے۔ بظاہر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ عریاں مرد کی تصویر ہے۔ لیکن بعض تصویروں میں عورتوں کی چھاتی نمایاں ہیں۔ ان میں بھی ایسی ہی دم لٹکٹی نظر آ رہی ہے۔ اس طرح کافی جگہوں پر مرد کی عریاں تصویر بنائی گئی ہے۔ اس میں مرد کا عضو لٹکتے دیکھایا گیا ہے ۔

ایک تصویر میں ایک پہاڑی بکرا ہے۔ اس کے سامنے زمین پر مستطیل جال بنا ہوا ہے۔ جس میں ہر خانے میں نکتے دیکھائے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ شکاری گڑھے کے منہ پر رکھے نرسلوں کا نمونہ پیش کرتا ہو، جس میں جانور کو گرانا مقصود ہو۔ ایک تصویر میں نرسلوں کا جنگلہ دیکھایا گیا ہے۔ جنگلے کی ساخت وہی ہے جو آج کل کے مالی پھلوایوں میں پھولوں کی بیل چڑھانے کے لیے بناتے ہیں ۔

بعض تودوں پر ہاتھ پاؤں کی تصویریں بنائی گئیں ہیں۔ ہاتھ کے خاکہ میں انگوٹھا ہمیشہ دائیں طرف دیکھاگیا ہے۔ گویا ہم کھلی ہوئی ہتھیلی کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہاتھ کی ہتھیلی کو پتھر پر رکھ کر ہاتھ اور انگلیوں کے گرد نشان لگایا گیا ہے۔ اس کے بعد اس نشان کو مزید کھود کر ہاتھ کا نقشہ بنایا گیا۔ پتھر کے اوپر رکھنے کی وجہ سے اندر کی جگہ دھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ بائیں ہاتھ کی نقل ہے۔ ایک ہاتھ کی شکل جگہ جگہ ملتی ہے۔ کہیں دونوں ہاتھوں کی تصویر یکجا نہیں ملتی ہے۔ اس طرح پاؤں کا بھی نقشہ کئی جگہ ملتا ہے۔ ہر چٹان پر ایک پاؤں کا نقشہ نہیں ملتا ہے، کہیں دو نہیں۔ اس میں بھی پاؤں کو کھدا نہیں صرف خاکہ بنایا ہے۔ کھدا نہیں ہے جس میں انگلیوں کے لیے ایک نشان لگایا گیا ہے۔ ہاتھ کے نشان کو اس دور کے انسان کے دستخط سمجھنا چاہیے۔ اس طرح پیر کا مطلب ہے کہ وہ انسان یہاں رہائش پزیر ہے ۔

ہاتھ پیروں کی تصویروں کے علاوہ پورے انسان کی تصویریں ملتی ہیں۔ انسانوں کے اکثر تصویری خاکے ہیں۔ کہیں کہیں پوری شبیہ کو دیکھایا گیا ہے۔ ان میں مرد اور عورتیں بھی ہیں۔ لیکن زیادہ شکلیں تذکیر و تانیت دیکھا نے سے قاصر ہیں۔ ان میں تمام انسانوں کو کسی نہ کسی کام میں مصرف دیکھایا گیا۔ زیادہ تر شکار کی تصویریں ہیں۔ ایک اکیلا آدمی یا دو آدمی مل کر مختلف سمتوں سے تیر کمان سے کسی جانور کا شکار کر رہے ہیں۔ زیادہ لوگ مل کر اجتماعی شکار کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں لوگ ایک بڑے دائرے میں دو اور تین آپس میں ہاتھ پکڑ کر گھوم رہے ہیں نہیں۔ ایک ڈرمائی صورت کی تصویر ہے۔ جس میں دو سانپ ایک آدمی کو ڈس رہے ہیں اور وہ بائیں ہاتھ سے بچے کو اٹھائ ہوئے چلا رہا ہے۔ دور سے ایک آدمی چھلانگ لگا کر اس کی مدد کو آنا چاہتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا کہ خاندان وجود میں نہیں آیا تھا مگر اس کی صورت حال پیدا ہو چکی تھی۔ ایک تصویر میں ایک عورت کو دو سانپ ڈس رہے ہیں۔ لیکن عورت نے دو بچوں کو اٹھا کر ایک کو دائیں اور دوسرے کو بائیں کندھے پر بٹھا رکھا ہے ۔ ایک تصویر میں غالباً ایک عورت لیٹی ہوئی ہے۔ جس کے بال چہرے پر پڑے ہوئے۔ دونوں بازو پھیلے ہوئے ہیں۔ ہتھیلیاں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ دونوں ٹانگیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔۔ پاؤں کی ایڑیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور پنجے باہر کو مڑے ہوئے ہیں۔ اس کی چھاتیاں لٹکتی نظر آ رہی ہیں۔ اس کی بائیں بغل سے سانپ نکلا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر دانی کا کہنا ہے کہ یہ مرد ہے اور ناگ دیوتا ہے یا دریا دیوتا ہے۔ لیکن یہ افزائیش کی دیوی بھی ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ بعد کی نئے حجری دور کی دیوی ماں کی سفالیں مورتیوں سے اس کی شکل جزوئی طور پر ملتی ہوئی ہے ۔

ایک تصوہر میں سات آدمی شہتیروں سے بنائی ہوئی ایک سیڑھی کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ یہ اس زمانے میں یہ ندی نالوں کو غبور کرنے کے کام آتی ہوگی۔ ایک جگہ ایک عظیم الجثہ دیوتا کی تصویر بنائی گئی ہے۔ اس نے دھوتی باندھ رکھی ہوئی ہے۔ ٹنگیں باہر پھیلی ہوئی ہیں اور پیر اندر کو مڑے ہوئے ہیں۔ مگر ایک رسی سے بندھے ہوئے ہیں اور بال اوپر کو اٹھے ہوئے ہیں۔ بعد میں اس مردانہ تصویر میں دو پستانوں کا اضافہ کر دیا۔ غالباً یہ مذہب اور جادو کی تصوی رہے۔ جس میں دیوتا کو تسخیر کرنے کی خواہش دکھائی گئی ہے۔ ڈاکٹر دانی کا خیال ہے ایسی ترقی یافتہ تصویریں تین یا چار ہزار مسیح کی ہوں گی۔ لیکن زیادہ تر تصویروں کو بہر حال پانچ ہزار سال قبل مسیح سمجھنا چاہیے ۔

شکار کے موضع پر بہت سی تصویریں ہیں۔ ان تصویروں میں جانوروں کا شکار کرتے ہوئے بتایا گیا۔ ان جانوروں میں بکری، مارخور بارہ سنگھاہ اور دوسرے جانور شامل ہیں۔ اکثر تصویروں میں کتا بھی ساتھ ہے۔ یہاں کے لوگوں نے کتے کو پالتو بنالیا تھا۔ ان تصویروں سانپوں کی کثرت ہے۔ اکثر سانپوں کو ڈستا ہوا دیکھایا گیا ہے۔ اس طرح ایک تصویر میں ایک بھیڑ سانپ سے جنگ کرتی ہوئی دکھائی گئی ہے ۔

کچھ تصاویر ایسی ہیں جو انسانوں کے آپس کے تعلقات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ کچھ اجتماعی شکار اور اجتماعی کھیل کی تصویریں ہیں۔ ایک تصویر میں ایک مرد اور ایک عورت ایک جنگلے کے اندر ہیں۔ ایک میں لیٹے ہوئے یا کھڑے ہیں۔ مرد کا ععضو ایک لکھیر کی صورت میں عورت کی شرمگاہ تک جا رہا ہے۔ یہ یقیناً مباثرت کی تصویر ہے اور جنگلے سے غالباً خلوت کا تصور پیدا کیا گیا ہے۔ ایک تصویر میں ایک عورت تین اطراف کی مستطیل میں ہے اور مرد کو کھلی جگہ سے داخل ہوتے ہوئے بتایا گیا ہے۔ یہ شاید میاں بیوی کی تصویرر ہے۔ ایک تصویر میں دو انسان سان چل رہے ہیں اور ان کے پیچھے ان کے قدموں کے نشان ہیں۔ اکثر تصویروں میں مردوں کی تصویریں بڑی اور عورتوں کی تصویریں چھوٹی بنائی گئی ہے ۔

چلاس کا یہ زمانہ انسان کی شکاری زندگی کا زمانہ تھا۔ جس میں اس کی گذر بسر شکار پر ہوتی تھی۔ لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے سخت جدو جہد کرنی پڑتی تھی۔ اس لیے وہ آپس میں مل جل کر رہتے تھے۔ قدرت کی سختیوں کے خلاف وہ مشترکہ جدو جہد کرتے تھے اور اپنے آپ کو بے بس پا کر قدرت کی مخالفانہ قوتوں کو شکست دینے کے لیے جادو کا سہارا لیتے تھے۔ جادو پتھر کے زمانے میں سائنس کی شروعات تھی۔ یا یوں کہنا چاہیے جادو سائنس کا موضوعی تصور تھا۔ اس سائنس کی ناکامی کے بعد مذہب کا آغاز ہوا۔ جب انسان جادو کے ذریعے فطرت کی قوتوں کو تسخیر نہیں کرسکا تو اس نے ان کے آگے سرجھکا دیا اور اس کی رضائی جوئی کی کوشش کرنے لگا اور اس طرح مذہب کا آغاز ہوا۔مذہب کے آثار بہت پرانے ہیں اپ کہ سکتے ہیں کہ اس دنیا کے بنے سے جب سے انسان اس سرزمین پر ایا ہے مذہب کے کوئی نا کوئی آثار اس کے ساتھ شامل نظر آتے ہیں لہذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ مذہب کا اغاز 5000 قبل مسیح ہوا ہوگا

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور

1 اسلامی فقہ کے ماخذ 2