چلاس
چِلاس پاکستان کے گلگت بلتستان میں واقع ایک قصبہ ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم پر واقع ہے جس سے یہ جنوب کی جانب براستہ داسو، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہری پور، اسلام آباد سے رابطے میں ہے۔ چلاس کے شمال میں چین کے شہر کاشغر اور تاشکرغان واقع ہیں جو گلگت اور سوست کے ذریعہ چلاس سے ملتے ہیں۔ چلاس میں شینا اور گوجری زبانیں بولی جاتی ہے۔
چلاس | |
---|---|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان [1] |
دار الحکومت برائے | |
تقسیم اعلیٰ | ضلع دیامر |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 35°25′14″N 74°05′48″E / 35.420555555556°N 74.096666666667°E |
بلندی | 1265 میٹر |
قابل ذکر | |
جیو رمز | 1181138 |
درستی - ترمیم |
چلاس کے آثار قدیمہ
ترمیمشاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ اب تک تقریباً 20000 سے زائد ایسی چٹانیں اور مقامات دریافت ہوئے ہیں جو قدیم تہذیبی اہمیت کی حامل ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں ہنزہ اور ہربن کی جانب دس بڑی جگہیں آثار قدیمہ کی موجودگی کی وجہ سے نہایت اہم ہیں۔ یہ آثار حملہ آوروں، تاجروں اور عزیم کمبوجا مہاجن پدہ کی یادگار ہیں ۔کمبوجا مہاجن پدہ قدیم ہندوستانی 16 مہاجن پدوں میں سے ایک ہے ۔۔مہاجن پدہ گندہارا اور مہاجن پدہ کمبوجا کا ایریا پاکستان میں ہیں باقی 14 مہاجن پداز موجودہ انڈیا کے ایریا میں ہیں ۔۔۔مہابھارت اور اور دیگر قدیم کتابوں میں بہت بہترین طریقے سے واضع کیا گیا ہے کہ پاکستان کا شمالی علاقہ یعنی گلگت بلتستان اور چترال کمبوجا مہاجن پدہ کا مرکز تھا ۔۔کندہارا مہاجن پدہ کا مرکز ٹیکسیلا تھا ۔جن کی باونڈریز کوہستان تک پھیلی ہوٸی تھی ۔۔
5000 اور 1000 قبل مسیح کے درمیانی عرصہ میں ان آثار میں کثرت سے جانوروں، تکونی انسان اور شکار کی شبیہات جن میں جانور انسانوں سے بڑے دکھائے گئے ہیں ملتی ہیں۔ یہ آثار پتھریلی چٹانوں پر نقش ہیں جن کو پتھر کے اوزاروں سے بنایا گیا ہے۔
ماہر آثار قدیمہ کارل جیٹ مار نے ان تمام آثار کا بغور مشاہدہ کیا اور اس علاقے کی تاریخ کو یکجا کیا ہے۔ ان تمام مشاہدات کو ان کے مشہور زمانہ تصانیف میں ملاحظہ کی جا سکتا ہے۔
پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق ان آثار میں خاروستانی [2] لفظ کابوہ یا کامبوہ کثرت سے ملا ہے۔ اس لفظ کا تقریباً ہر قدیم نشانی میں موجود ہونا محکمہ کے مطابق اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ چلاس بھی ایک وقت میں ضرور قدیم ریاست کامبوجا کا حصہ رہا ہے
عمومی معلومات
ترمیمچلاس کا انتظام وفاقی ادارے چلاتے ہیں، جو انتظام برائے شمالی علاقہ جات کے تحت ہوتا ہے۔ موسم گرما میں یہاں گرم اور مرطوب جبکہ سردیاں خشک اور سرد ہوتی ہیں۔ یہاں پہنچنے کے دو بڑے راستے ہیں۔ پہلا راستہ شاہراہ قراقرم جبکہ دوسرا وادی کاغان سے ہوتے ہوئے درۂ بابوسر سے ہے۔ وادی چلاس کے عین وسط سے دریائے سندھ بہتا ہے اور غیر ملکی افراد کو یہاں سفر کرنے اور عارضی رہائش کے لیے خصوصی اجازت درکار ہوتی ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "صفحہ چلاس في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2024ء
- ↑ (کیا یہ نام درست ہے؟)
بیرونی روابط
ترمیممزید دیکھیے
ترمیم
پیش نظر صفحہ گلگت بلتستان کی جغرافیہ سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |