چپر رفٹ ہرنائی 1887ء میں بولان، ہرنائی، چپر رفٹ بوستان کوئٹہ اور چمن کے ریلوے کا راستہ کھول دیا گیا۔ قندھار ریاست ریلوے کے اس راستے پر چپر رفٹ نامی دراڑ آتا ہے۔ چپر رفٹ دراصل ضلع ہرنائی کے قریب منگی کے جنوب میں واقع دو پہاڑیوں کے بیچ فطری نوعیت کی ایک حیران کن دراڑ ہے۔ جس میں ایک چٹائی پہاڑی کی بلند چڑھائی جس کی اونچائی کئی سو فٹ بلند ہے اس کے بیچوں بیچ پہاڑوں سے بارشی پانی کی نکاسی کا راستہ گزرتا ہے جس کی وجہ سے ان پہاڑوں کے بیچ ایک وسیع قدرتی دراڑ بنی ہوئی ہے۔ یہ دراڑ ایک ایسی قدرتی رکاوٹ ہے کہ جہاں سے پیدل گذرنا بھی ناممکن ہے۔ تاہم، پہاڑی کی قطار میں ایک بہت طویل راستہ جو کئی سو فٹ بلند ہے اس راستے کی چوڑائی بس اتنی کہ اس پر ایک طرف سے ایک اونٹ جا سکتا ہے۔ یہ راستہ دراصل پہاڑ سے بہتے ہوئے بارشوں کے پانی نے بنایا ہے جو پہاڑ کی چوٹی سے کچھ نیچے ایک نالی کی صورت میں اس دراڑ کی طرف بہتا رہتا ہے۔ خشک موسم میں اس دراڑ کے بیچ پانی کا چهوٹا سا چشمہ بہتا ہے مگر بارشوں کے موسم میں آس پاس کے پہاڑوں سے بارشی پانی کی نکاسی کا عمل اسی دراڑ سے ہوتا ہے جو 30 40 فٹ تک بلند ہو جاتا ہے۔ اپنی ساخت کے اعتبار سے اس دراڑ کو اس طرح پار کرنا کہ ایک انسان یا کوئی گاڑی وغیرہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ سکیں بالکل ناممکن ہے۔ لہذا انگریزی انجنیئروں نے اس کا حل یہ نکالا کہ دراڑ کے دونوں اطراف پر موجود پہاڑوں میں سے سرنگ نکالے جاے جو ہموار زمین سے پہاڑوں میں داخل ہو اور دراڑ کے دونوں اطراف پر ایک ہی زاویہ پر آکر ختم ہو. اس کے بعد لوہے کے گریڈروں کے ذریعے ایک پل بنا کر دونوں سروں کو آپس میں ملایا جائے. لیکن یہاں پر مشکل یہ پیش آئی کہ پہاڑوں کے شروع سے اگر ٹنلوں پر کام کیا جائے تو ایک تو اس پر غیر معمولی پیسہ وقت اور محنت صرف ہوگا اور دوسرا یہ کہ مزدور بھی نفسیاتی طور پر اتنے لمبے لمبے ٹنلوں کے اندر کام کرنے سے کترا سکتے تھے جو کئی سو فٹ کی بلندی پر واقع ہو اور جس میں ہوا کے گزرنے کا بھی کوئی بندوبست نہ ہو. لہٰذا انگریزی انجنیئروں نے ایک اور ترکیب نکالی وہ یہ کہ دراڑ کے دونوں اطراف کے پہاڑوں کو کئی حصوں میں بالکل ایک قطار میں تقسیم کر دیا اور ہر حصے کے لیے مزدوروں کا ایک ایک گروپ ترتیب دیا گیا پھر ان گروپوں میں سے دو دو افراد کو پہاڑ کے اوپر سے رسی کے ذریعے متعلقہ جگہوں پر گیا جہاں انھوں نے پہاڑ کے اندر ایک سوراخ کهودا اور آہستہ آہستہ اس سوراخ کو ایک غار کی شکل دے دی اور پھر ہر گروپ نے کھدائی کرکے ان غاروں کو آپس میں ملا کر ٹنل کی شکل دی. دراڑ کے دونوں اطراف میں چھ چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور مزدوروں کو کل چودہ گروپس میں بانٹ دیا گیا تھا جن میں سے بارہ گروپس دونوں اطراف میں کھدائی کرنے پر مامور تھے اور دو گروپس پہاڑ کے اوپر ایک اور دوسری طرف مزدوروں کو اپنی جگہوں پر اتارنے کے لیے مامور کیے گئے تھے۔ کیپٹن بچنن سکاٹ کی نگرانی میں دو طرفہ ٹنلوں کی تعمیر کا یہ کام محض چند مہینوں میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ اس پل کو سرکاری طور پر "لیڈی لوئس مارگریٹ" کے نام سے منسوب کیا گیا۔ جس کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ سب سے پہلی خاتون تھی جس نے اس مقام کا دورہ کیا اور پل کی تیاری کا مشاہدہ کیا. یہ پل 1930ء کی دہائی میں سیلابی ریلے کی وجہ سے ناکارہ ہو گیا تھا اور 1943ء میں اس کو اس جگہ سے مکمل طور پر نکال کر لے جایا گیا۔ بعض مورخین کی رائے یہ ہے کہ چونکہ انگریزوں نے 1939ء ہی میں اس علاقے کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا لہذا برطانیہ نہیں چاہتا تھا کہ ٹرین کا یہ نظام اس علاقے میں اسی طرح برقرار رہے کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ ہو سکتا ہے یہ نظام سوویت یونین اس علاقے میں ان کے خلاف استعمال میں لائے. 1887ء میں کوئٹہ، ہرنائی، خوست، چپر رفٹ اور بوستان کے ریل کا راستہ کھول دیا گیا۔ یہ ویڈیو پی ایس اے کی طرف سے بنائی گئی تھی. سب سے پہلے یہ 1934ء کا دورانیہ ظاہر کرتا ہے جس میں مشکاف بولان ریلوے کوئٹہ اور پھر چمن (افغان سرحد) کی طرف جاتے دکھای جا رہی ہے۔ بولان لائن پر ایک ایچ جی / ایس 2-8-0 انجن؛ مشکاف کی تنصیبات میں سے گزرتی ہیں۔ ٹرین کوژک سرنگ اور چمن کی جانب سے ابھرتے ہوئے ٹنل میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد سال 1943ء کی مدت کا منظر دکھایا گیا ہے جس میں لوئیس مارگریٹ پل کا 155ft طویل گریڈروں کے اکھاڑنے کا منظر دکھایا گیا ہے جو سیلاب سے متاثر ہوئی تھی. انسپکٹر ہرنام سنگھ، شمال مغربی ریلوے کے چیف انجنیئر، آرتر سمس اور پل کے نائب سربراہ انجینئر اسٹینلے جانسن نے اس پل کے اکھاڑنے کے عمل کی نگرانی کی تھی.