یہ زمانہ قدیم کی عمارتوں کی یادگار ہے اور اندرون شہر کے محلہ چابک سواراں میں واقع ہے۔اس کی ایک دیوار حویلی سعد اللہ خان المشہور میاں خاں کے ساتھ لگتی ہے۔مغلوں کے ٓاخری دور میں اس مسجد کے قریب ہی نواب شاہ نواز خاں پسر نواب زکریا خاں نے اپنا فیل خانہ اور آدینہ بیگ نے اپنی حویلی بنوائی تھی مگر اب انکا کوئی نشان باقی نہیں۔ مسجد نہایت وسیع صحن دار ہے تینوں محرابیں اس کی مسجد وزیر خان کی محرابوں کی طرح کانسی کار منقش ہیں۔مسجد میں نقش و نگار نہایت خوش رنگ ہیں۔زمین بسنتی اور حروف لاجوردی ہیں۔ دور سنگھ میں اسے بہت نقصان پہنچایا گیا۔

اس مسجد کے بانی کا نام سرفراز خان تھا جسے افراز خان بھی کہتے ہیں۔ اس نے اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں اس کی بنیاد رکھی، یہ مسجد اہل الحدیث فرقہ کے زیرِ انتظام ہے اور الحمد للہ آباد ہے۔ اس کے ساتھ لڑکیوں کا مدرسہ قائم کیا گیا ہے، جس کا نام مدرسہ بنات المسلمین ہے۔ 1747ء میں جب احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر حملہ کیا تو مولانا شہریار اس مسجد کے امام تھے، مولوی عبد اللہ الغزنوی بھی کچھ عرصہ یہاں رہے تھے۔ ان کے بعد ان کے فرزند مولوی عبد الواحد غزنوی بھی جید وعالم اور صالح بزرگ تھے۔ وہ ساری عمر اس مسجد کے امام رہے تھے۔ 1931ء کے بعد سے آپ کے پوتے مولوی داؤد غزنوی المولوی عبد الجبار اس مسجد میں خدمت انجام دیتے رہے۔

حوالہ جات ترمیم