چین میں عصمت دری
2007 میں امریکی محکمہ خارجہ نے چین میں 31,833 افراد کی عصمت دری کی رپورٹ پیش کی لیکن چینی حکومت کی طرف سے ایسی کوئی رپورٹ نہیں شائع کی گئی[1]۔ مردوں کے درمیان جنسی حملوں کو 2015 کے آخر میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔[2] چین میں جنسی اسمگلنگ کا شکار ہونے والی ملکی اور غیر ملکی خواتین کی عصمت دری عام ہے۔[3]
تاریخ
ترمیمچنگ خاندان (1644-1912) کے دور حکومت میں عصمت دری کو ثابت کرنا بہت مشکل امر تھا۔ ایک عورت جس پر جنسی حملہ ہوتا تھا اسے ثابت کرنا ہوتا تھا کہ اس نے عصمت دری کے واقعہ سے پہلے انتہائی مزاحمت کی۔ ایغور نسل کشی کے دوران سنکیانگ کے کیمپوں میں چینی حکام کی طرف سے ایغور نسل کی خواتین کے ساتھ منظم طریقے سے عصمت دری اور جنسی زیادتی کی اطلاعات موصول ہوئیں مگر چین میں آزاد ذرائع کی غیر موجودگی کی وجہ سے تصدیق انتہائی مشکل کام ہے۔[4]
تجزیہ اور شماریات
ترمیمچین میں عصمت دری کا میڈیا میں زیادہ چرچا نہیں ہوتا۔ تائیوان کی شی ہسین یونیورسٹی کے سماجی ماہر نفسیات لوو سون ین کا دعوی ہے کہ چین میں عصمت دری کے دس واقعات میں سے صرف ایک کیس رپورٹ ہوتا ہے[5][6]۔ 2013 کے ملٹی کنٹری اسٹڈی آن مین اینڈ ڈومیسٹک وائلنس نے چین میں مردوں سے پوچھا کہ کیا انھوں نے کبھی کسی خاتون ساتھی کو جنسی تعلقات کے لیے مجبور کیا ہے (بشمول الکوحل کے ذریعے عصمت دری کی کوشش)، 22 فیصد نے اس کا جواب ہاں میں دیا اور 9.3 فیصد نے قبول کیا کہ انھوں نے پچھلے سال میں ایسا کیا تھا۔ 19.4 فیصد نے اپنے ساتھی کی عصمت دری کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا۔
جن مردوں نے عصمت دری کی ان میں سے 55 فیصد نے ایک سے زیادہ مرتبہ ایسا کیا تھا اور 9 فیصد نے ایسا چار یا اس سے زیادہ بار کیا ۔ 86 فیصد نے جنسی استحقاق کو اپنا مقصد قرار دیا(مطالعہ میں سب سے زیادہ یہی فیصد رہی) اور 57 فیصد نے جواب دیا کہ انھوں نے بوریت کی وجہ سے زیادتی کی۔ 72.4 فیصد نے اس فعل کی وجہ سے کوئی قانونی مسءلہ نہیں جھیلا۔ 1.7 فیصد نے عورتوں کے ساتھ ساتھ دوسرے آدمی کے ساتھ زیادتی کی۔ 25.1 فیصد جنھوں نے عصمت دری کی تھی انھوں نے پہلی بار نوعمری میں ایسا کرنے کی تصدیق کی۔ 2.2 فیصد نے اجتماعی زیادتی کا اعتراف کیا[7]۔ آل چائنا خواتین فیڈریشن کی طرف سے کرائی گئی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً چالیس فیصد چینی خواتین جو کسی رشتے میں منسلک ہیں یا شادی شدہ ہیں وہ جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہیں۔
- ↑ Marquez, Paxcely (7 May 2009)۔ "Rape in China"۔ US-China Today۔ University of Southern California۔ October 16, 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2015
- ↑ Cowburn, Ashley (4 November 2015)۔ "'Male rape' now a crime in China"۔ Independent۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2016
- ↑ "China, The Trafficking Situation"۔ United Nations Action for Cooperation Against Trafficking in Persons (UN-ACT)
- ↑ Ng, V. W. (1987)۔ "Ideology and sexuality: rape laws in Qing China" (PDF)۔ The Journal of Asian Studies۔ 46 (1): 57–70۔ JSTOR 2056666۔ doi:10.2307/2056666
- ↑
- ↑ "I was Raped in China (An American's Perspective)"۔ Yahoo Voices۔ 18 July 2013۔ January 9, 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2015
- ↑ Fulu, E., Warner, X., Miedema, S., Jewkes, R., Roselli, T., & Lang, J. (2013)۔ Why do some men use violence against women and how can we prevent it. Quantitative Findings from the United Nations Multi-Country Study on Men and Violence in Asia and the Pacific. (PDF)۔ Bangkok: United Nations۔ صفحہ: 40, 43–45۔ ISBN 978-974-680-360-1۔ 04 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2022