ڈارونومکس ایک اصطلاح ہے جو پاکستان میں اسحٰق ڈار، ان کے پیشرو، یا جانشینوں کی جانب سے پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے غلط اقتصادی پالیسیوں کے ایک سیٹ کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔[1][2][3]

ان پالیسیوں میں ڈالر-روپے کی برابری کو بڑھانا، یہاں تک کہ کرنسی کے پیگ کو برقرار رکھنے کے لیے غیر ملکی کرنسی کے قرضے لینا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسی ریٹ کو ہر ممکن حد تک کم رکھنا، اور سبسڈی اور سستی درآمدات کے ذریعے ملک میں افراط زر کا انتظام کرنا شامل ہے۔[4][5][6]

1998 سے 1999 تک اپنے دورِ حکومت کے دوران، اسحاق ڈار کی پالیسیوں نے پاکستان کو معاشی مشکلات سے دوچار کیا۔[7] ایٹمی تجربات کے بعد، حکومت نے پاکستانی شہریوں کے مقامی ڈالر اکاؤنٹس سے 11 ارب ڈالر ضبط کر لیے، جب کہ سرکاری تبادلہ نرخ کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ میں کرنسی کی قدر میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی۔[8] اس کے نتیجے میں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے سرکاری ذرائع کی بجائے ہنڈی کا استعمال بڑھا دیا۔ ریاستی ضمانتوں کے باوجود، منجمد اکاؤنٹس کو زبردستی روپے میں تبدیل کر دیا گیا، سرکاری تبادلہ نرخ پر جو 46 روپے فی امریکی ڈالر تھا۔[8][9] ملک کو اپنے قرضوں کی تشکیلِ نو پر مجبور ہونا پڑا، جس کے نتیجے میں تکنیکی طور پر دیوالیہ پن کی صورتحال پیدا ہوئی۔[7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Pakistan must learn to live without 'Daronomics'"۔ October 3, 2022 
  2. "اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا؟"۔ Independent Urdu۔ February 4, 2023 
  3. Uzair M. Younus (December 20, 2022)۔ "The fault in our Dar(s)"۔ DAWN.COM 
  4. Ammar H. Khan (September 28, 2022)۔ "Daronomics: The fallacy of fixing currency price"۔ DAWN.COM 
  5. "Investors pin hopes on 'Daronomics' as Ishaq Dar returns to Pakistan as new finance minister"۔ Arab News 
  6. DR MANZOOR AHMAD (October 31, 2022)۔ "Daronomics: good or bad?"۔ The Express Tribune 
  7. ^ ا ب Sayem Z. Ali (November 19, 2018)۔ "Daronomics and its aftershocks"۔ Profit by Pakistan Today 
  8. ^ ا ب "Pakistan takes a beating"۔ The Economist۔ August 20, 1998 
  9. Mohiuddin Aazim (July 2, 1998)۔ "Withdrawal from fresh deposits allowed"۔ DAWN