ڈنمارک کی کل آبادی میں ایک اندازے کے مطابق ہند و پاک سے آکر بسنے والے اردوداں اصحاب کی تعداد پچاس ہزار ہے۔ یہ آبادی دھیرے دھیرے بڑھ بھی رہی کیونکہ نئے تارکین وطن یہاں آکر آباد ہو رہے اور یہ لوگ اپنے زبان و ادب کو لے کر حساس ہو رہے ہیں۔[1]

نئ نسل کو تعلیم

ترمیم

ڈنمارک میں دو نجی مدارس میں باقاعدہ اردو کی تعلیم کا انتظام ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی کچھ مساجد میں بھی اردو پڑھائی جاتی ہے۔[1]

ڈنمارک کے سرکاری اداروں کی جانب سے حوصلہ افزا اقدامات

ترمیم

ڈنمارک کے شاہی کتب خانہ میں اردو داں طبقے کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر الگ سے اردو کتابوں کے لیے جگہ مختص کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے ریڈیو کی جانب سے پانچ بیرونی زبانیں بشمول اردو میں خصوصی نشریات کا انتظام 1950ء سے شروع ہوا تھا۔ یہ سلسلہ بعد میں منقطع ہو گیا۔[1]

ایف ایم ریڈیو خدمات

ترمیم

ڈنمارک میں دو ایف ایم ریڈیو کی خدمات جاری ہیں جو بھارتی اور پاکستانی نژاد لوگوں کی جانب سے چلائے جا رہے ہیں۔[1]

اردو انجمنیں

ترمیم

ڈنمارک میں اردو زبان کے فروغ کے لیے دو انجمنیں قائم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں اقبال اکیڈمی بھی قائم کی گئی ہے۔ اس کے بانی اور صدر غلام صابر ہیں جنھوں نے کئی تصانیف لکھی ہیں۔ ان کی ایک کتاب "اسلام اور سائنس" کو پاکستان کا صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔[1]

اخبارات

ترمیم

ڈنمارک میں پہلا اردو اخبار 1971ء میں "صدائے پاکستان" کے نام جاری ہوا تھا جس کی ادارت ظفر ملک نے کی تھی۔ یہ اخبار 1979ء تک جاری رہا۔ سردار شمشیر سنگھ نے ایک ماہنامہ "امن" جاری کیا تھا جو ایک مختصر وقت تک جاری رہا۔ اسی طرح کچھ دیگر اخبارات ورسائل وقفے وقفے سے منظر پر آتے رہے۔[1]

دیگر ادبی اصناف سخن

ترمیم

نوشین اقبال، فواد کرامت، ابو طالب، ایوب خاک اور چاند شکلا یہاں کے چند اردو شعرا ہیں۔ شفق صدیقی، اسلام ساقی اور آغا نوید یہاں کے چند مصنف ہیں۔ عباس رضوی نے ایک ڈینش اردو لغت مرتب کی جبکہ ڈنمارک ہی کے علوم شرقیہ کے ماہر اور اردو زبان کے دلدادہ پروفیسر آسموسن پاکستان کے سابق صدر ضیاءالحق کے ہاتھ صدارتی تمغا حاصل کرچکے ہیں۔[1]

ڈینش اور اردو کو قریب لانے کی کوششیں

ترمیم

پاکستانی نژاد نصر ملک نے ڈنمارک کے عالمی شہریت یافتہ مصنف و شاعر اور فلسفی ول سؤرن کی کتاب ’’ راگنارُک ‘‘ کی کتاب کا ’’ دیوتاؤں کا زوال ‘‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کر کے اہل اردو کو ڈنمارک اور اسکینڈینیویائی میتھیالوجی اور اساطیری ادب سے روشناس کرایا ہے۔ اس کے علاوہ نصر ملک نے کئی ڈینش ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات کااردو زبان میں ترجمہ کیا ہے، جن میں ٹووے ڈٹلیووسن جیسی عظیم ڈینش مصنفہ اور ہنرک نور براندٹ، مریانے لارسن اور بینی آنڈرسن جیسے شاعروں کی نظموں، گیتوں اور نغموں کے تراجم بھی شامل ہیں اور یہ تراجم نصر ملک کے آن لائن جریدے ’’ اردو ہمعصر ڈاٹ ڈی کے ‘‘ پر پڑھے جا سکتے ہیں۔ اسی ویب گاہ اور نصر ملک کے توسط سے کئی اردو تخلیقات کا ڈینش میں ترجمہ کیا گیا ہے۔[2]

سالانہ مشاعروں کا انعقاد

ترمیم

ڈنمارک میں موجود پاکستان سفارت خانے کے توسط سے ہرسال پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر مشاعرے کا انعقاد عمل میں آتا ہے، جس میں اس ملک میں موجود شعرا حصہ لیتے ہیں اور محفل میں کئی اردوداں اصحاب شریک ہوتے ہیں۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج "Urdu Hamasr - ادبیات"۔ 06 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مئی 2015 
  2. ڈنمارک و پاکستان کے مابین ادبی و ثقافتی تعلقات پر ایک رپورٹ[مردہ ربط]
  3. "Ambassador Of Pakistan Copenhagen Mr. Masroor A. Junejo"۔ 02 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مئی 2015 

بیرونی روابط

ترمیم