کاچھو
کاچھو (انگریزی: Kachho)پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائے تھرکے بعد دوسرا بڑا صحرا ہے جو ضلع دادو سے لے کر شمال میں ضلع قمبر-شہدادکوٹ تک اور آگے ضلع جیکب آباد تک پھیلا ہوا ہے۔
کاچھو لفظ کا پس منظر
ترمیمکاچھو سندھی زبان کے لفظ کچھ میں سے ہے جس کا مطلب بغل (Lap or armpit) ہے۔ یہ صحرا کھیرتھر پہاڑی سلسلہ کے قریب تر ہے اس وجہ سے اسے کاچھو کہا گیا۔
تاریخ اور جاگرفی
ترمیمصحرائے کاچھو دریائے سندھ کی ایک بڑی نہر یا شاخ کے بہاؤ کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ قدیم زمانے میں دریائے سندھ کی ایک بڑی نہر کندھ کوٹ سے حمل جھیل تک اور وہاں سے لاڑکانہ کے مغرب میں بہتی ہوئی، ضلع دادو سے گذرتی منچھر جھیل میں پڑتی تھی۔ منچھر جھیل سے مشرق کی طرف مڑ کر سیہون کے جنوب میں دوبارہ دریائے سندھ سے جاکر ملتی تھی۔ کاچھو اورمنچھر جھیل دریائے سندھ کی اس بڑی نہر کے بہاؤ کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ یہ بحث تفصیل سے عطامحمد بھنبھرو کی ترجمہ کردہ راورٹی کی کتاب “سندھ جو مہران” میں بھی موجود ہے۔ کاچھو کے صحرا کے مغرب میں کھیرتھر پہاڑی سلسلہ ہے۔ مشرق میں ایف پی بند (Flood Protection Band) ہے۔ جنوب میں منچھر جھیل اور شمال میں جیکب آباد اور بلوچستان کے علاقے کچھی کا صحرائی علائقہ ہے۔[1]
اہم برساتی نالے
ترمیمبارشوں کے موسم میں کھیرتھر پہاڑی سلسلہ میں سے برساتی نالے کاچھو کی طرف بہتے ہیں۔ ان میں جھل مگسی، نئے مولہ یا مولا، سالاری، گاج، نلی، ککڑانی، ہلیلی، کھندھانی، انگئی، نئیگ اور دوسرے برساتی نالے بہتے ہیں جو کاچھو کو سیراب کرتے ہیں۔
زراعت اور معیشت
ترمیمصحرائے کاچھو بارانی ہے۔ اس کی معیشت کا انحصار دوو چیزوں پر ہے۔ ایک بارش اور برساتی نالوں کے پانی پر انحصار کرتا۔ جب بارشیں پڑتی ہیں تو صحرا سیراب ہوتا ہے اور فصلیں اگائی جاتی ہیں۔ بارشیں پڑنے کاچھو کا صحرا سرسبز ہوتا ہے اور بارشیں نہیں پڑتیں تو قحط سالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایک کہاوت مشہور ہے کہ “بارش برسے تو کاچھو امیر ورنہ غریب سے بھی غریب”۔ کاچھو کا دوسرا ذریعہ معاش بان (رسی) کاتنے یا بنانے پر ہے۔ بان کی پتلی رسیاں چار پائیاں بُننے میں کام آتا ہے۔ یہ پِیش (Peesh) نامی پودے کے پتوں سے بنتا ہے۔ پیش پودے کے پتے کھجور کے پتوں کی طرح ہوتا ہے۔ بان بنانے کا کام اکثر عورتیں کرتی ہیں۔ اب جہاں زمین کھا پانی میٹھا ملتاہے وہاں ٹیوب ویلوں کے پانی پر فصلیں اگائی جاتی ہیں۔
قدرتی سوغات پیروں
ترمیمکاچھو میں جال کا درخت وافر مقدار میں ہوتا ہے۔ اس میں جو میوہ ہوتا ہے اسے پیروں کہتے ہیں۔ پیروں کاچھو کی قدرتی سوغات سمجہے جاتے ہیں
سَمَہہ لوک گیت
ترمیمسَمَہہ سماع سے ہے۔ پرانے زمانے میں اللہ کی بارگاہ میں عجز میں سے بارشوں کے لیے گایا جاتا تھا۔ لوگ جمع ہوکر اللہ کی بارگاہ میں یہ لوک گیت گاتے تھے کہ رب کرم کرے اور بارشیں پڑیں تاکہ کاچھو سرسبز بنے۔ گیت یہ ہے “ سَمَہہ میں سردار کاچھو کوڈ وسائیندو۔۔ ہوہاں ہو”
آثار قدیمہ
ترمیمضلع دادو سے لے کر لاڑکانہ اور ضلع قمبر- شہدادکوٹ تک کاچھو میں کئی قدیم آثار ہیں۔
نقل مکانی والی زندگی
ترمیمپرانے زمانے میں جب کاچھو میں قحط اور خشک سالی کی ہوائیں چلتی تھیں تو لوگ نقل مکانی کر کہ بیراج ایریا میں پڑاؤ کرتے تھے اور لاہیارے بن کر اجرت پر گندم کی فصلیں کاٹا کرتے تھے اور اجرت میں اناج جمع کر کہ واپس کاچھو آتے تھے۔ لاہیارو سندھی زبان میں اسے کہتے ہیں جو اجرت پر فصلیں کاٹے۔ کاچھو کے لوگ اکثر نقل مکانی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اب اس طرح کی نقل مکانی نہیں ہوتی۔
جھنگلی جیوت اور نباتات
ترمیمکاچھو کا سحرا پہلے حیوانات اور نباتات کی آماج گاہ تھا مگر اب کم ہو گئے ہیں۔ اس وقت تیتر، پٹ تیتر، بٹیر، فاختہ، کبوتر، سرہ (Sinh Ibex) ہرنی، لومڑ، گیدڑ، سیڑھ اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیں۔ نباتات میں بہت سے درخت اور پودے پائے جاتے ہیں۔[2]